قصر سفید۔۔۔ اگلا مکین کون؟
شیئر کریں
امریکامیں انتخابات لیپ کے سال میں نومبر کے دوسرے منگل کو ہوتے ہیں ،پہلے صدر جارج واشنگٹن تھے
امریکاکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کوئی خاتون امیدوار انتخابی ڈور کے اس آخری مرحلے میں شامل ہے
اشتیاق احمد خان
قصر سفید دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھنے والوں کا مسکن اس کا اگلا مکین کون ہو گا؟ اس کا فیصلہ 8 نومبر کو ہو گا۔اس وقت بظاہر ہیلری کلنٹن کی پوزیشن مضبوط ہے لیکن 1980 سے ہونے والے انتخابات کے ایگزٹ پول کے نتائج اور انتخابی نتائج عموماً مختلف ہوتے ہیں اور ہیلری کلنٹن کو ایگزٹ پول میں بھی بہت زیادہ واضح برتری حاصل نہیں ہے۔جس وقت تک انتخابات کے نتائج سامنے آئیں گے پاکستان میں 9 نومبر کا سورج غروب ہو رہا ہو گا۔ 9 نومبر بھی ایک تاریخ رکھتا ہے۔ قصر سفید کے مکینوں کی طرح دنیا پر حکمرانی کی سوچ کے برخلاف اللہ کی زمین پر اللہ کے نازل کردہ نظام کا خواب دیکھنے والے ۔۔ڈاکٹر علامہ اقبال کا یوم پیدائش۔
امریکاکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی خاتون امیدوار انتخابی ڈور کے اس آخری مرحلے میں شامل ہے ۔2008 میں ہیلری کلنٹن نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کے لیے مقابلے میں حصہ لیا تھا لیکن پارٹی کے ممبران کی اکثریت نے بارک ایچ اوباما کو اس منصب کے لیے نامزد کیا یوں ہیلری کلنٹن صدارتی امیدوار بننے میں کامیاب نہ ہو سکی تھیںاور بارک اوبامہ نے اپنے پہلے ٹرم میں ہیلری کلنٹن کو وزیر خارجہ بنا کر اور پورے 4 سال وزیر خارجہ رکھ کر پارٹی ممبران کو پیغام دے دیا تھا کہ آئندہ صدارتی امیدوار کے لیے ہیلری کلنٹن ہی موزوں امیدوار ہو ں گی۔
ہیلری کلنٹن ،بل کلنٹن کی اہلیہ کے طور پر خاتون اول رہ چکی ہے اب اگر وہ صدر منتخب ہو جاتی ہے تو کیا بل کلنٹن کو مرد اول کہا جائے گا؟
1776 کی جنگ کے بعد امریکامیں موجودہ دستور بنا اور صدارتی طرز حکومت طے ہوئی۔ پہلے صدر جارج واشنگٹن تھے جو 1789-97 تک برسراقتدار رہے۔ امریکامیں انتخابات لیپ کے سال میں نومبر کے دوسرے منگل کو ہوتے ہیں جو کہ 8 سے 14 نومبر کا درمیانی عرصہ ہو سکتا ہے۔ اور اقتدارواختیار کی منتقلی اگلے سال 20 جنوری کو عمل میں آتی ہے، یوں1788 میں پہلے انتخابات ہوئے اور 1789 کی 20 جنوری کو جارج واشنگٹن نے اقتدار سنبھالا اور 2 ٹرم(8 سال) کا عرصہ مکمل کر کے رخصت ہوئے۔1790 میں کانگریس کی منظوری سے 1792 میں قصر سفید(وہائٹ ہاﺅس) کی تعمیر کا آغاز ہوا جو کہ تقریباً 12 سال کے عرصہ میں مکمل ہوا۔ جان ایڈمس امریکاکے دوسرے صدر تھے جو 1996 کے انتخابات میں کامیاب ہوئے۔ جارج واشنگٹن کے نائب تھامس جیفرسن اس مدت صدارت(1792-1801) میں ان کے بھی نائب صدر منتخب ہوئے۔1812-14 کی جنگ کے دوران قصر سفید کو برطانوی فوج نے آگ لگا کر خاک کر دیا تھا جس کی دوبارہ تعمیر کا آغاز جنگ کے خاتمے پر 1817 میں ہو ا اور 1829 میں مکمل ہوئی۔
امریکامیں صدارتی انتخاب جوڑی کا انتخاب ہوتا ہے۔ صدر اصل امیدوار ہوتا ہے اور جو بھی امیدوار کامیاب ہو اس کے ساتھ نامزد نائب صدر ازخود منتخب قرار پاتا ہے۔ جان ایڈمس کو ان کی پارٹی نے دوسری مدت کے لیے ٹکٹ جاری نہیں کیا بلکہ ان کے نائب تھامس جیفرسن پارٹی ٹکٹ کے حق دار قرار پائے اور انتخابات میں کامیاب ہو کر تیسرے امریکی صدر بننے۔ تھامس جیفرسن کے عہد صدارت میں قصر سفید کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی اور اس کو ایوان صدر کا مقام دے دیا گیا تھا ۔یوں تھامس جیفرسن اس عمارت کے پہلے مکین قرار پائے۔
قصر سفید میں کسی بھی صدر کی رہائش کا عرصہ 8 سال پر میحط ہوتا ہے۔ لیکن فرنیکلین ڈی روز ویلٹ (1933-45) 12 سال تک اس کے مکین رہے۔(1940 کے انتخابات دوسری جنگ عظیم کے باعث منعقد نہیں ہو سکے تھے)
اب ہم قصر سفیدکے بابت دلچسپ حقائق بیان کرتے ہیں۔
قصر سفید یوں تو دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے والوں کا مسکن ہے لیکن اس کے مکینوں کے حال بہت نرالے ہیں ، یہاں صدر جارج واشنگٹن جن کے نام واشنگٹن شہر کا نام ہے 2 مدت تک صدر رہے۔ جارج واشنگٹن واحد امریکی صدر ہیں جن کے مد مقابل کوئی نہ تھا یعنی بلا مقابلہ صدر منتخب ہوئے دوسرے بلا مقابلہ صدر جمیز مونرے ہیں جو کہ پہلی ٹرم میں تو انتخابی عمل کے ذریعہ قصر سفید میں پہنچے(1817-21) لیکن دوسری مدت(1821-25) کے لیے ان کے مد مقابل کوئی امیدوار بھی نہ تھا۔
بارک اوباما امریکاکے 44 ویں صدر ہیں۔ امریکی صدور میں سے 30 کا تعلق فوج سے رہا ہے۔24 صدر، صدارت کے منصب پر فائز ہونے سے قبل اس عرصے میں فوجی ملازمت میں رہے جس عرصہ میں جنگ جاری تھی جبکہ6 صدور نے منصب صدارت پر فائز ہونے سے قبل فوجی ملازمت تو کی لیکن ان کے عرصہ ملازمت کے دوران جنگ نہیں ہوئی ۔23 صدور نے یا تو جنگ کا آغاز کیا یا ان کے دور اقتدار میں جنگ جاری رہی اب تک کے 44 صدور میں سے صرف 14 ایسے ہیں جو صدارت پر فائز ہونے سے قبل کسی بھی طور پر فوج سے وابستہ نہیں رہے۔شاید ہی کوئی ایسا پیشہ ہو گا جس سے وابستہ فرد قصر صدارت میں نہ پہنچا ہو۔
اگر رونالڈ ریگن قبل از صدارت سرکس کے مسخرا ، فلمی اداکار، مرد ماڈل اوربرتن دھونے والے رہے۔ تو لنڈن بی جانسن نے صدارت سے قبل پھیری لگا کر(ہاکرکے طور پر) اشیاءفروخت کی ، جوتے پالش کیے، باغات میں پھل چنے، بعدازاں کانگریس ممبر منتخب ہوئے پھر سینیٹر اور پھر صدر بھی بن گئے۔رونالڈ ریگن صدارت سے قبل 13 مختلف پیشوں سے وابستہ رہے جبکہ لنڈن بی جانسن نے صدارت سے قبل روزی روٹی کمانے کے لیے 16 پیشے اختیار کیے۔رونالڈ ریگن امریکاکے واحد طلاق یافتہ صدر تھے۔
اگر ریاستی بنیادوں پر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ صدور کا تعلق ریاست ورجینیاسے رہا ہے، اس ریاست سے تعلق رکھنے والے آٹھ افراد صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔جن میں امریکاکے پہلے 10 صدور میں سے 6 کا تعلق اس ریاست سے تھا۔ ریاست او ہائیو سے تعلق رکھنے والے 7 افراد قصر سفید کے مکین بننے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ریاست نیویارک اور ریاست متسوبشی سے تعلق رکھنے والے 4-4 افراد اس قصر سفید کے مکین رہے۔ ریاست کیرولینا سے تعلق رکھنے والے 3 افراد امریکی صدر بننے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جس ریاست میں یہ عظیم الشان عمارت موجود ہے اس ریاست سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص اب تک اس محل کا مکین بننے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔
1789 سے 2012 تک امریکی صدارتی انتخابی معرکے کا اکھاڑا 57 بار سجایا گیا ہے۔جس میں 44 صدور منتخب ہوئے ہیں ان میں سے سب سے زیادہ عرصہ فرینکلین ڈی روزویلٹ کا ہے جو 12 سال پر محیط ہے جب کہ سب سے کم عرصہ ویلم ہنری ہیری سن کا ہے جو صدر مارٹن وین برن کے نائب تھے۔
امریکاکے انتخابات کا عمل خاصہ پیچیدہ ہے۔ اس میں امیدوار زائد ووٹ لیکر ناکام اور کم ووٹ لیکر کامیاب ہو سکتا ہے۔ انتخابی طریقہ کار کے مطابق امید واروں کو ہر ریاست میں ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور ان کی اس حیثیت میں گنتی بھی ہوتی ہے لیکن نتائج کا انحصار اس گنتی پر نہیں ہوتا دراصل عام (پاپولر) ووٹ اہم تو ہیں لیکن الیکٹورل ووٹ ناگریز ہیں۔ امریکی انتخابات میں صدارت کا فیصلہ دراصل الیکٹورل ووٹ کرتے ہیں، یہ الیکٹورل ووٹ ریاستوں میں آبادی کے تناسب سے تقسیم ہیں ۔ان کی کل تعداد 539 ہے اور کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ لینے والا امیدوار کامیاب قرار پاتا ہے۔ اس کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک ریاست (الف) جس کے ووٹر کی تعداد 20 لاکھ ہے اس کے الیکٹورل ووٹ کی تعداد 8 ہے اور دوسری ریاست (ب) جس کے ووٹرز کی تعداد 30 لاکھ ہے اور اس کے 12 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ اب ریاست (الف) کے 20 لاکھ میں سے15 لاکھ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال اور امیدوار (A) نے ان میں12 لاکھ ووٹ لیکر واضح برتری حاصل کی اور مخالف امیدوار (B)کو صرف 3 لاکھ ووٹ حاصل ہوئے لیکن ریاست (ب) میں کل 30 لاکھ ووٹرز میں سے24 لاکھ نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اورامیدوار (B) یہاں سے ساڑھے 12 لاکھ ووٹ لینے اور امیدار (A) ساڑھے 11 لاکھ ووٹ لینے میں کامیاب رہا اس مجموعی طور پر امیدوار (A) نے دونوں ریاستوں میں ساڑھے23 لاکھ اور امیدوار (B) نے ساڑھے15 لاکھ ووٹ حاصل کیے ہیں یوں امیدوار (A) کو امیدوار(B) پر 8 لاکھ ووٹ کی واضح برتری حاصل ہے۔ لیکن الیکٹورل کالج میں امیدوار (B) امیدوار(A) سے 4 ووٹ آگے ہے امیدوار (A) کے الیکٹورل ووٹ کی تعداد 8 اور امیدوار (B) کے الیکٹورل ووٹ کی تعداد 12 ہے۔ ایسی ہی صورتحال2000 کے انتخابات میں سامنے آئی تھی جب الگور کو جارج بش پر پاپولر ووٹس کی واضح برتری حاصل تھی لیکن الگور نے بڑی برتری سے جارج ڈبلیو بش کو ان ریاستوں میں شکست دی تھی جہاں الیکٹورل ووٹ کی تعداد کم تھی اور جارج ڈبلیو بش کی خوش قسمتی یہ تھی کہ زیادہ الیکٹورل ووٹ کی تعداد والی ریاستوں میں وہ کم برتری کے باوجود کامیاب رہا تھا۔ اور معاملہ سپریم کورٹ تک گیا تھاجہاں الیکٹورل کالج ووٹ کو پاپولر ووٹ پر اہمیت دیتے ہوئے جارج ڈبلیو بش کو صدر قرار دیا گیا۔ امریکی انتخابات کا سب سے حیرت انگیز نتیجہ 1876 کے انتخابات میں سامنے آیا۔ جب امیدواراینڈریوجیکسن نے پاپولر اور الیکٹورل کالج دونوں طرح کے ووٹوں میں برتری حاصل کی لیکن صدارتی محل کاقبضہ راتھ فورڈ کو ملا۔
یوں تو جس صدر نے بھی ایک سے زائد ٹرم قصر سفید میں گزار ے ہیں اس نے دوران صدارت پارٹی تبدیل نہیں کی لیکن امریکاکے 23 اور 24 ویں صدر بنجمن ہیری سن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنا پہلا ٹرم ایک پارٹی کے ٹکٹ پرالیکشن لڑ کر گزارا اور دوسرا ٹرم مخالف پارٹی کے ٹکٹ پر اس پارٹی کے امیدوار کو شکست دی۔ بنجمن ہیری سن پہلے ٹرم میں ڈیموکریٹ اور دوسری ٹرم میں ری پبلکین پارٹی کے امیدوار تھے۔
6 امریکی صدور ایسے ہیں جنہوں نے پہلے ٹرم میں جس امیدوار کو شکست دی دوسرے ٹرم کے انتخابات کے موقع پر اُسی امیدوار کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔جان کیونی نے 1824 کے انتخابات میں اینڈریو جیکسن کو اور 1828 میں اینڈریو جیکسن نے جان کیونی کو شکست دی ۔1836 کے انتخابات میں مارٹن وین برن نے ویلم ہنری ہریسن کو اور1840 میں ویلم ہنری ہریسن نے مارٹن وین برن کو 1888 میں بینجمن ہریسن نے گوروکیلوی لینڈ کو اور1892 میںگوروکیلوی لینڈ نے بینجمن ہریسن کو شکست سے دوچار کیا۔ امریکاکے پہلے صدر جارج واشگٹن اپنے معالج کی غلط تشخیص کے نتیجہ میں موت کا شکار ہوئے۔ ابراہام لنکن، جیمز گار فیلڈ،ویلیم میک کینلی اور جان ایف کینیڈی دوران صدارت قتل ہوئے، اینڈریو جیکسن، ہیری ٹرومین، جیرالڈ فورڈ اور رونالڈ ریگن پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ افریقی امریکن صدور میں تھامس جیفرسن،اینڈریو جیکسن، ابراہام لنکن،ورن ہارڈینگ اور ڈی ویٹ ائزن اوور شامل ہیں۔رچرڈ نکسن نے واٹر گیٹ اسکینڈل کے نتیجہ میں استعفیٰ دیا جبکہ اینڈ ریو جانسن اور بل کلنٹن کو احتساب کے نتیجہ میں صدارت سے محروم ہونا پڑا۔اس طرح قصر سفید نے طرح طرح کے سیاسی رنگ ڈھنگ دیکھے ہیں اب ہیلری کلنٹن یا ڈونلڈ ٹرمپ اس قصر کی شان کو کس طرح بڑھاتے یا مٹی میں ملاتے ہیں اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔