میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پیپلزپارٹی کی نئی کروٹ

پیپلزپارٹی کی نئی کروٹ

جرات ڈیسک
جمعه, ۱ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

پیپلز پارٹی کی قیادت نے بجلی کے نرخوں پر عوام کے حق میں آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔پارٹی نے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ عوام کی آواز بنیں، جو لوگ احتجاج کر رہے ہیں ان کا ساتھ دیں۔ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم حکومت کے ان تمام فیصلوں سے لاتعلقی ظاہر کرتی جا رہی ہے جن پر عوامی رد عمل ناگواری پر مبنی ہے،الیکشن کی تاریخ اور پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجنے کے فیصلے کو نامناسب طریقہ کہہ کر پی پی پی اپنے ہی کئے گئے اقدامات سے انکاری ہو رہی ہے۔پیپلزپارٹی کی سیاست میں تبدیلی صاف نظر آرہی ہے۔ حکومت کے خاتمے کے بعد اب انتخابات کے لیے پیپلزپارٹی ایک نئی شکل اور ایک نئی پالیسی کے ساتھ عوام کے سامنے آنے کی کوشش کر رہی ہے۔یہ بات طے ہے کہ اندرون خانہ کچھ ایسا ضرور ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی کے کچھ بڑے خاموش ہیں لیکن اردگرد سے آوازیں ضرور آ رہی ہیں۔ انتخابات کی ممکنہ تاخیر اور بجلی کے بلوں کو بنیاد بنا کر درحقیقت پاکستان پیپلز پارٹی کوئی اور کھیل کھیلنا چاہتی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ یہ جماعت آئین اور قانون کی بات کرتی ہے۔ سیاسی جدوجہد بھی کرتی رہتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت کہ اس کی اس جدوجہد کا فائدہ عام آدمی کے بجائے اس جماعت کے بڑے لوگوں کو ہوا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی چونکہ سب کو ساتھ ملانے اور سب کی ضروریات کو پورا کرنے کی حکمت عملی کے تحت کام کرتی ہے۔ وہ بڑے بڑے ضرورت مندوں کو ساتھ ملا کر کام کرتی ہے۔ چند بڑوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ ریاستی اداروں میں غیر ضروری بھرتیوں سے اداروں کا ستیا ناس ہوتا ہے۔ ملک کمزور ہوتا ہے لیکن اپنے پسندیدہ افراد اور ووٹرز کو خوش کر کے ملک کی مشکلات میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہی حالات ان دنوں بھی ہیں۔اب مہنگائی کرنے آئی ایم ایف سے معاہدے کرنے اور عوام پر بجلی بم گرانے کے فیصلوں میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی حکومت سے نکلنے کے بعد اپنے ہی فیصلوں پر حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے کیلئے پرتول رہی ہے،پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے کہ وہ عوام کو اندھیرے میں رکھتی ہیں، دھوکے دیتی ہیں اور پھر ان کی محرومیوں پر سیاست کرتی ہیں۔شہباز شریف کی اتحادی حکومت میں بجلی بنانے والی کمپنیوں کے کئی لوگ کابینہ میں شامل تھے اس وقت ملکی بہتری کے لیے فیصلے کیوں نہیں ہوئے۔ اگر بجلی کے بلوں پر شور مچاتے ہیں تو انہیں شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر خود سے سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کے معاہدوں کو اپنے دور میں درست کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ کیوں ذاتی و مالی فائدے کے لیے زبان بند رکھی، وسائل سے محروم افراد کو گرمی اور بجلی کے بلوں سے لگی آگ میں جلنے کے لیے کیوں چھوڑا گیا۔ یہی سوال پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی ہونا چاہیے، پاکستان مسلم لیگ نون اور مسلم لیگ ق سے بھی ہونا چاہیے ان سب نے حکومت میں ہوتے ہوئے کس طرح توانائی کے متبادل ذرائع کو نظر انداز کیا اور ان ظالمانہ معاہدوں کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔پی ٹی آئی حکومت کی بہت سی غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن توانائی پالیسی پر اس کی کارکردگی تسلی بخش تھی۔پیٹرول اور بجلی کے نرخ قابو میں تھے، ڈالر کی قدر سے کاروبار متاثر نہیں ہو رہا تھا۔مہمند ڈیم، بھاشا ڈیم پر کام شروع ہوا۔اس پی ڈی ایم جماعتوں نے بھاشا ڈیم پر فنڈ جمع کرنے کی مہم کو متنازع بنا کر رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کی۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کی نگرانی میں فنڈز کے حسابات دیئے لیکن تاثر دیا گیا کہ ثاقب نثار نے فنڈز اپنی جیب میں ڈال لیے ہیں۔اس ساری صورتحال میں بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کا رویہ ریاست کی بہبود کی بجائے سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے جائز ناجائز بیان بازی پر مشتمل رہا۔عوام کے دکھوں کا مداوا چار چار بار اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے پاس نظر نہیں آیا۔ بظاہر پی ڈی ایم جماعتوں کی حکمت عملی یہ دکھائی دیتی ہے کہ اپنی ہی تشکیل دی گئی جو پالیسی عوام کے غصے و ناراضی کا باعث بنے اس سے لاتعلقی اختیار کر لی جائے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اس حکمت عملی سے انھیں عوام کی ہمدردی مل جائے گی،ان کا یہ خواب پوراہوگا یانہیں اور خود اپنے ہی فیصلوں پر شور مچانے سے انھیں عوام کی ہمدردی مل سکے گی یا نہیں اس بارے ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس حکمت عملی سے سیاسی جماعتوں کے متعلق یہ تاثر ضرور مستحکم ہو سکتا ہے کہ وہ عوام اور ریاست کو اپنے مفاد کے وقت ہی یاد کرتی ہیں۔عوام کا مطالبہ رہا ہے کہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کا کڑا احتساب ہو، ملک میں میرٹ کا بول بالا ہو، جمہوری ادارے مضبوط ہوں، آئین کی بالادستی ہو، معاشی ترقی کے مواقع صرف حکمران اشرافیہ تک محدود نہ ہوں، خاندانی اقتدار کا سلسلہ ختم کیا جائے۔نچلے طبقات کو اقتدار میں شامل کیا جائے۔عوام کے یہ مطالبات فقط اس لئے پورے نہیں ہو رہے کہ کرپشن، بے اصولی اور خاندانی اقتدار نے سیاسی جماعتوں کو مفلوج اور عوام سے دور کر دیا ہے۔بجلی کے نرخوں میں اضافہ ظالمانہ فیصلہ سازی کا نتیجہ ہے جس سے پی ڈی ایم جماعتیں اپنا دامن بچا نہیں سکتیں۔ آئی پی پیز پاکستانیوں کا خون چوس رہی ہیں اور اوپر بیٹھے چند لوگ مزے کر رہے ہیں۔ لوگ سخت موسم میں سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں، لوگوں کو بجلی کے بل دیکھ دل دورے پڑ رہے ہیں لوگوں کی زندگیاں ختم ہو رہی ہیں لیکن اوپر بیٹھے چند لوگ پیسہ بنا رہے ہیں۔ اگر ان پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ سب سے آسان عام آدمی کی گردن پر پاؤں رکھنا ہے اور وہ مہنگی بجلی صورت میں رکھا جا چکا ہے۔ کراچی سے خیبر تک لوگ سراپا احتجاج ہیں لیکن پتھر دل سیاست دانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہونے والا کیونکہ یہ دہائیوں سے معصوم پاکستانیوں کا خون چوستے آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یہ خود نہیں چاہتے کہ ملک خودمختار ہو، ادارے پھلیں پھولیں، ترقی کریں، انہیں باہر کے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ کاش ہمارے حکمران ملک و قوم کو ترجیح دیتے تو آج ملک کے یہ حالات نہ ہوتے۔ آئین کی سربلندی کی بہت بات بھی کی جاتی ہے، تو کیا یہ مانا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کو یہ علم نہیں تھا کہ نئی مردم شماری کے حق میں ووٹ ڈالنے پر ملک میں انتخابات میں تاخیر ہو جائے گی۔کیا پیپلزپارٹی اتنی بھولی ہے کہ اسے علم ہی نہیں تھا، اس کے ووٹ ڈالنے سے انتخابات میں تاخیر ہو جائے گی۔ یقینا ایسا نہیں ہے۔ انھیں علم تھا۔ لیکن آج وہ عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ تو 90 دن میں انتخابات کے حق میں ہیں۔ جب کہ دوسری طرف وہ تاخیر کے لیے ووٹ بھی ڈال چکے ہیں۔آئین میں واضح لکھا ہے کہ اگر نئی مردم شماری منظور ہو جائے گی تو نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہی انتخابات ہوں گے۔ کون انھیں ماورا آئین کوئی یقین دہانی کرا سکتا ہے۔پیپلزپارٹی یہ کیسے مان سکتی ہے کہ آئین شکنی کر کے ملک میں انتخابات کروا سکتے ہیں۔ یقینا انھیں ایسی کوئی یقین دہانی کرائی ہی نہیں جا سکتی ہے اور اب پیپلزپارٹی ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ تو بروقت انتخابات کے حق میں ہے، وہ تاخیر کی ذمے دار نہیں ہے۔ایک سوال ہے کہ پیپلزپارٹی ایسا کیوں کر رہی ہے؟ ایک رائے یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں وزارت عظمیٰ کی گیم پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ ان کی ساری گیم الٹ گئی ہے۔ وہ پنجاب میں جن کامیابیوں کی امید لگائے بیٹھے تھے ان کو وہ حاصل نہیں ہوئی ہیں۔ ان کو گلہ ہے کہ مقتدر حلقوں نے ان کی وہ مدد نہیں کی جس کی انھیں امید تھی۔ معلوم یہ ہوتاہے کہ پیپلز پارٹی 90 دن میں انتخابات کا مطالبہ کر کے ملک کی اسٹبلشمنٹ سے اپنی ناراضی کا اؓظہار کر رہی ہے؟ معلوم یہ ہوتاہے کہ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ اس کے پاس عام انتخابات میں عوام کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے۔اس وقت چونکہ عام آدمی 90 دن میں عام انتخابات کا متمنی ہے اس لئے وہ جیسے جیسے وہ نوے دن میں انتخابات پر زور دیں گے ویسے ویسے ان کی بارگیننگ طاقت بڑھے گی اور اسٹبلشمنٹ ان سے بات کرنے پر مجبور ہو جائے گی اور وہ اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔پیپلزپارٹی کا بلوچستان کے حوالے سے بھی یہی روڈ میپ تھا کہ وہاں سے بھی انتخاب جیتنے والے لوگ پیپلزپارٹی میں شامل ہو جائیں۔ باپ پارٹی میں توڑ پھوڑ کا بھی پیپلزپارٹی فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ آصف زرداری کی کوشش تھی کی باپ پارٹی پیپلزپارٹی میں شامل ہو جائے۔اسی لیے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کو پیپلزپارٹی میں شامل کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ لیکن انھوں نے انکار کر دیااورجام کمال گروپ نے ن لیگ کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ آصف زرداری کے لیے ایک جھٹکا تھا،آصف زرداری کو بلوچستان میں ناکامی کا بھی بہت غصہ ہے اور اب اسی غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کی پالیسیوں سے کیا پیپلزپارٹی کو کوئی فائدہ ہوگا؟ کیا جن کاموں میں وہ خود شریک رہے ہیں، ان سے انکار کوئی اچھی پالیسی ہے۔ کیا لوگ یقین کر لیں گے؟ لوگ کہیں گے کہ آپ نے ووٹ دیا، آپ کیسے یہ بات کر سکتے ہیں۔ کیا پیپلزپارٹی کو معذرت کرنا ہوگی یا وہ سمجھتے ہیں کہ معاملہ چل جائے گا، ووٹ بھی دیا اور انکار بھی کریں گے، یہی پاکستان کی سیاست ہے۔ پیپلزپارٹی پاکستان کی ایک پرانی سیاسی جماعت ہے، جو آئین وقانون کوبہت اچھی طرح سمجھتی ہے۔ اس میں آئینی ماہرین کی تعداد بھی زیادہ ہے۔یہ بات واضح ہے کہ نئی مردم شماری کی وجہ سے ہی آج نئی حلقہ بندیوں کی بات ہے، اگر پیپلزپارٹی ووٹ نہ ڈالتی تو آج انتخابات پرانی مردم شماری پر ہی ہورہے ہوتے اور حلقہ بندیوں کی وجہ سے تاخیر کی بھی کوئی بات نہ ہوتی، لیکن آج پیپلزپارٹی ایسے بات کر رہی ہے جیسے ان کا اس میں کوئی قصور ہی نہیں ہے اور90 دن میں انتخابات کرکے وہ آئین پرست ہونے کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔ اب دوسرا سوال ہے شفاف انتخابات کے انعقاد کا یہ بات واضح ہے کہ جب ہم شفاف الیکشن کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ ہر لحاظ سے اس کی شفافیت کو محسوس کیا جاسکے یعنی ایسے دیانتدارانہ انتخاب ہوں، پوری قوم جس کے نتائج کو دل سے مانے اور بیرونی دنیا میں بھی اس کو پزیرائی ملے۔ بدقسمتی سے اب تک پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں کسی بھی انتخاب کو یہ نہیں کہا جاسکتا یہ الیکشن شفاف اور دیانتدارانہ ہوئے ہوں، شفاف الیکشن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بظاہر تو الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تمام ضروری کارروائیاں پوری کی ہوں لیکن اس کے نتائج کہیں کسی ادارے سے بن کر آئے ہوں اور پریزائیڈنگ آفیسر کا کام اس کو پڑھ کر سنانا رہ گیا ہو اور ہمارا الیکشن کمیشن بغلیں بجا رہا ہو کہ ہم نے پورے ملک میں غیر متنازع الیکشن کرائے ہیں اور کہیں پر کوئی بڑا حادثہ ایسا نہیں ہوا جس میں کوئی جانی نقصان ہوتا،انتخابات میں دھاندلی کا مسئلہ صرف انتخابات والے دن ہی کا نہیں ہوتا بلکہ اس کا آغاز انتخابی فہرستوں سے لے کر انتخابی نتائج کے اعلان تک ہوتا ہے ہمارے ملک میں تو 3 اقسام کی دھاندلی معروف ہے ایک پری پول دھاندلی دوسرے پولنگ کے دن والی دھاندلی اور تیسرے پوسٹ پول یعنی بعد از انتخاب دھاندلی یعنی انتخابات کے بعد بعض قوتوں کی طرف سے نتائج کی اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی اور اس کا اعلان۔اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ نگراں حکومت کی نگرانی میں صریحاً جانبدار ثابت ہونے والا الیکشن کمیشن حقیقی معنوں میں شفاف انتخابات کراسکے گا یا اس مرتبہ بھی عوام کے ووٹوں پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے مذکورہ بالا 3 میں سے کوئی ایک یا تینوں طریقے بروئے کار لائے جائیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں