کرپشن کے خلاف سپریم کورٹ کی قابل تعریف کارکردگی!
شیئر کریں
کرپشن کاناسورصرف پاکستان تک محدودنہیں ‘برطانیا اورامریکاجیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی کرپشن کے کئی اسکینڈل سامنے آچکے ہیں
قیام پاکستان کے بعدمہاجرین کو کلیم کے مطابق املاک کی الاٹمنٹ سے میگا کرپشن کاسفر شروع ہوا جو،اب تک ختم ہونے کانام نہیں لے رہا
پاکستان میں مالی کرپشن ہی عام نہیں ‘اخلاقی کرپشن بھی جڑپکڑچکی ہے ‘اس کی سب سے خوفناک شکل جان بچانے والی جعلی ادویات ہیں
شہلا حیات
تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹرفواد چوہدری نے گزشتہ روزسپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ بیرون ملک گئے 3 ہزار کروڑ واپس آئیں اور کرپشن والوں کا سفر جاتی امرا سے اڈیالہ جیل تک مکمل ہو۔فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اگر نیب اپنا کام مؤثر انداز میں کرتا تو کسی کو سپریم کورٹ میں آنے ضرورت نہ پڑتی اور یہ نوبت نہ آتی، ہمارے ادارے کام نہیں کررہے اس لیے پاناماکیس سپریم کورٹ آیا۔ نیب کے پاس یہ کیس 17 سال سے التوا میں پڑا ہوا تھا ،کئی مہینے اور سال گزرنے کے بعد بھی کیس فائل نہیں ہوئے۔ اگر سپریم کورٹ اور ججز پاناما کیس کے پیچھے نہ ہوں تو یہ کیس بھی مکمل نہ ہوتے۔انھوں نے کہا کہ ہماری خواہش صرف اتنی ہے کہ بیرون ملک پڑا ہوا پاکستانیوں کا 3 ہزار کروڑ پاکستان میں واپس لایا جائے اور کرپشن کرنے والوں کا سفر جاتی امرا لاہور سے اڈیالہ جیل تک مکمل ہو ۔
قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور یہ دولت بیرون ملک لے جانے والوں کو قرار واقعی سزا دلوانے کی خواہش کم وبیش ہر پاکستانی کے دل میں موجود ہے اور پاکستان کے ہر شخص کی یہ خواہش ہے کہ اس ملک کو کرپشن سے نجات مل جائے ، لیکن جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو یہ ناسور صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کسی نہ کسی سطح پر اس کاشکار ہے،پاکستان کاشمار تو ترقی پزیر ممالک میں ہوتاہے اور پسماندہ کم وسیلہ ممالک میں اس طرح کے ناسور وں کے پھلنے پھولنے کے وسیع مواقع ہوتے ہیں لیکن دنیا کے سب سے زیادہ مہذب اورترقی یافتہ کہلانے والے برطانیا اور امریکا جیسے ممالک بھی کرپشن سے پاک نہیں ہیں ۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب برطانیا کے ارکان پارلیمان کا اخراجات اسکینڈل سامنے آیاتھا ۔ اور اس حوالے سے برطانیا کے معزز ترین ارکان پارلیمنٹ کے ایسے ایسے اسکینڈل سامنے آئے تھے کہ توبہ ہی بھلی ۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو کرپشن کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے، جتنی انسان کی تحریر شدہ تاریخ، یعنی جب سے تاریخ قلم بند ہونا شروع ہوئی ہے تب سے ہی کرپشن اپنی تاریخ تحریر کررہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ بھی اس سے پاک نہیں ، بعض مفکرین کے مطابق کرپشن کی سرحدیں کتنی دور دور تک متنّوع طریقوں سے پھیلی ہوئی ہیں ۔ مفکرین کے مطابق عام خیال کے برعکس کرپشن صرف ناجائز دولت کمانے تک محدود نہیں ۔ اس کی وسعت ہمارے سماجی روّیوں میں بہت گہرائی تک پھیلی ہوئی ہے۔ مالی، ذہنی، اخلاقی، سماجی، مذہبی غرض ہمارا کوئی سماجی روّیہ اس سے خالی نہیں ۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عام سمجھ بوجھ کے برعکس کرپشن صرف سیاست اور سیاست دانوں تک محدود نہیں ہے۔ ہاں ! یہ ضرور ہے کہ سیاست دان جب مالی کرپشن کرتا ہے تو وہ صرف عوام کی امانت میں ہی خیانت نہیں کرتا بلکہ اپنی سیاسی پارٹی، سیاسی ورکز، اپنے حمایتوں اور سب سے بڑھ کر اپنے ووٹرز کے ساتھ دھوکا کرتا ہے۔ وہ قومی خزانے کو ہی نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ قومی منصوبوں کی ناقص تکمیل سے ملک کا مستقبل بھی خطرے میں ڈالتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ کی ابتدا1947 سے ہوتی ہے، اس کو اس طرح سمجھا جاسکتاہے کہ ملک عزیز کے حصول کے بعد پہلے چند سال تو لْٹے پِٹے مہاجرین کو بسانے اور حکومتی مشینری کی بنیادیں ڈالنے میں ہی صرف ہوگئے۔ جب دھول ذرا بیٹھی تو کرپشن کا جو پہلا کیس سامنے آیاوہ متروکہ املاک بھارت کے مختلف علاقوں سے پاکستان آنے والوں کوجن کی اکثریت مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کی تھی الاٹ کرنے سے شروع ہوئیں ۔ پنجاب میں لاکھوں انسانوں نے بھارت سے پاکستان ہجرت کی۔ اسی طرح پاکستان سے بھی ہزاروں ہندو اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھارت جانے پر مجبور ہوئے تھے۔ پاکستان سے بھارت جانے والے ان ہندوؤں کی پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں میں صرف مکان اور دکانیں ہی شامل نہیں تھیں بلکہ مِل، فیکٹریاں اور وسیع وعریض زرعی اراضی بھی شامل تھی، اپنی املاک ،ملیں ،مکان ،کاروبار اوردکانیں بھارت چھوڑ آنے والوں کوہندوؤں کی چھوڑی ہوئی املاک کی الاٹمنٹ کے لیے متروکہ املاک کے لیے علیحدہ بورڈ بنایا گیا جو ابھی تک قائم ہے۔ مہاجرین سے کلیم طلب کیے گئے تاکہ ان کی چھوڑی ہوئی املاک کے مطابق یہاں الاٹمنٹ کی جائے، بس یہیں سے پاکستان کا میگا کرپشن کا وہ سفر شروع ہوگیا تھا جواب ختم ہونے کانام نہیں لے رہا۔
کرپشن اب ہمارے معاشرے میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اب اسے روزمرہ کامعمول تصور کیاجانے لگا ہے ،اب کرپشن صرف مالی کرپشن تک محدود نہیں بلکہ پاکستان میں ا خلاقی اور سماجی کرپشن بھی عام ہے۔ اس سلسلے میں سب سے خوفناک کرپشن جعلی دوائیں بنانے کا کاروبار ہے اور ان میں جان بچانے والی دوائیں بھی شامل ہیں ۔
جہاں تک سیاستدانوں کی کرپشن کاسوال ہے تو یہ بات واضح ہے کہ سیاست دان یہ سب کچھ بغیر بیورو کریسی کو ساتھ ملائے نہیں کرسکتے،یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے بیورو کریٹس بھی غیر ملکی پاسپورٹ اور بیرون ملک جائیدادوں کے مالک بنے ہوئے ہیں اور جہاں انھیں گرفتاری کاکوئی خوف ہوتا ہے وہ فوری طورپر لندن ، امریکا یادبئی کاٹکٹ لگا کر اڑن چھو ہوجاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں عوام کس پر اعتماد کریں ا ورکسے اپنا لیڈر اور رہبر بنائیں ، جہاں آوے کاآوا ہی بگڑاہواہو، وہاں کسی صادق اورامین کی تلاش سمندر سے موتی تلاش کرنے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ لیکن اس حوالے سے ایک بات یقینی ہے کہ اگر ہماری عدلیہ اسی طرح امیر وغریب کے استثنیٰ کے بغیر کرپٹ عناصر کو کٹہرے میں کھڑا کرکے سزا سنانے کاعمل جاری رکھے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ملک کرپشن سے پاک ہوجائے اور اس ملک کے عوام کی دولت لوٹ کرعیش کرنے کاسلسلہ ختم نہ ہوجائے اور اس طرح ملک کے عوام سے لوٹی جانے والی دولت اگر ان کے مسائل کے حل پر خرچ کرنے کاسلسلہ شروع ہوجائے تو بہت جلد اس ملک کے عوام کومتعدد بنیادی مسائل اور شکایات سے چھٹکارا مل جائے۔