میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آئی ایم ایف سے معاہدہ اور مہنگائی کا عذاب!!

آئی ایم ایف سے معاہدہ اور مہنگائی کا عذاب!!

جرات ڈیسک
اتوار, ۲۴ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے ساتھ آخری جائزہ مذاکرات کی کامیابی کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے اور پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان آخری جائزہ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں، آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیے میں مذاکرات کی کامیابی کی تصدیق کردی گئی ہے۔اس پیش رفت کے نتیجے میں پاکستان کے لیے قرض کی آخری قسط کی مد میں ایک ارب 10 کروڑ ڈالر جاری ہونے کی راہ ہموار ہوگئی، پاکستان کو 2 اقساط کی مد میں آئی ایم ایف سے ایک ارب 90 کروڑ ڈالرز مل چکے ہیں۔آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈکی منظوری کے بعد پاکستان کو آخری قسط جاری کی جائے گی، آخری قسط کے بعد پاکستان کو موصول شدہ رقم بڑھ کر3 ارب ڈالرز ہو جائے گی، آخری قسط ملنے کے ساتھ ہی3 ارب ڈالرکا قلیل مدتی قرض پروگرام مکمل ہوجائے گا۔ معاہدہ طے پانے کی تصدیق کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کی جانب سے پیش گوئی کی گئی ہے کہ رواں سال مہنگائی مقررہ حکومتی ہدف سے زیادہ رہے گی، اس لئے حکومت کو معاشی بحالی کے لیے اصلاحات جاری رکھنی چاہئیں۔اعلامیے میں بتایا گیا کہ حکومت ِپاکستان نے بجلی اور گیس ٹیرف کی بروقت ایڈجسٹمنٹ اور رواں مالی سال گردشی قرضے میں اضافہ روکنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔نومنتخب حکومت نے ٹیکس نیٹ (ٹیکس دہندگان کی تعداد) بڑھانے اور مہنگائی کم کرنے کے کے لیے اقدامات اٹھانے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔علاوہ ازیں حکومت نے آئی ایم ایف کو ایکسچینج ریٹ مستحکم رکھنے اور فاریکس مارکیٹ میں شفافیت لانے کے لیے اقدامات کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیے میں نئے قرض کی شرائط بھی سامنے آگئی ہیں۔ آئی ایم کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں بتایاگیا ہے کہ پاکستان نے نئے وسط مدتی قرض پروگرام کے لیے دلچسپی ظاہر کی ہے، جس پر آئندہ ماہ مذاکرات ہوں گے۔ نئے قرض پروگرام کے تحت ٹیکسوں کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا، کم ٹیکس ادا کرنے والے شعبوں پر ٹیکس لگایا جائے گا، ٹیکس ایڈمنسٹریشن کو بہتر بنایا جائے گا۔ توانائی کے شعبہ کی پیداواری لاگت وصول کی جائے گی، بجلی کا ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوشن کا نظام بہتر کیا جائے گا، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی انتظامیہ کو بہتر کیا جائے گا۔اس کے علاوہ پاکستان کی جانب سے فاریکس مارکیٹ میں شفافیت لانے اور خسارے کا شکار سرکاری اداروں میں گورننس کا نظام بہتر بنانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
پاکستان کے درآمد شدہ وزیر خزانہ نے نہ صرف یہ کہ آئی ایم ایف کو ہر مرحلے پر تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے بلکہ آئی ایم ایف کے وفد  کی واپسی سے قبل ہی ان یقین دہانیوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری بھی دیدی ہے، اور عوام کو 300 یونٹ بجلی ماہانہ مفت دینے کا خواب دکھانے والے وزیر اعظم شہباز شریف رمضان کے مبارک مہینے کے دوران عوام کی گردن کے گرد کسے جانے والے اس شکنجے پر خاموش ہیں اور ان کے برادر بزرگ رمضان المبارک ختم ہونے سے قبل ہی اس ملک کو خیرباد کہنے کی تیاری کرر ہے ہیں،تا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کے بعد آنے والے مہنگائی کے طوفان کا بیرون ملک بیٹھ کر نظارہ کرسکیں۔عوام کو گرانی سے نجات دلانے اور نان 4 روپے میں فروخت کرنے کا وعدہ کرنے والے حکمراں گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کو جنھوں نے عوام کی مشکلات کو مزیددوچند کر دیا ہے لگام ڈالنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔انتظامی چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث حکومتی پرائس لسٹ کو منافع خوروں نے ہوا میں اڑا دیا ہے اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیا ہے۔اگر چہ ہمارا معاشرہ ایک عرصے سے مہنگائی کی زد میں ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تغیرو تبدل معمول کا حصہ ہے مگر رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی پھلوں اور سبزیوں سمیت اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں ہوشربا اضافے سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ اس گرانی کا تعلق مارکیٹ کے اتار چڑھاؤسے نہیں بلکہ اس کے پیچھے وہی مافیا سرگر م ہے جو عوام کے استحصال کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔حکومتی یقین دہانیوں اور کارروائی کے دعوؤں کے باوجود ناجائز منافع خور مافیا کا بھر پور انداز سے سرگرم ہونا انتظامیہ کی اہلیت اور اقدامات پر بہت بڑا سوال ہے۔ موجودہ صورت حال میں یہ ضروری ہے کہ فوری طور پر انتظامی مشینری کو متحرک کر کے اس مصنوعی گرانی کا تدارک کیا جائے۔ رمضان ریلیف پیکیج کے ذریعے ارزاں نرخوں پر فراہم کی جانے والی اشیا کا کماحقہ فائدہ بھی اسی وقت ہوگا جب مارکیٹ پر حکومتی گرفت مضبوط ہو گی۔ حکومت کی نظام پر گرفت ایسی نہیں ہے کہ ناجائز منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیاز کو اس کی کوئی پروا ہو۔ پورے ملک میں ہزاروں افسران انتظامی عہدوں پر کام کررہے ہیں اور انہیں بھرتی ہی اس مقصد کیلئے کیا جاتا ہے کہ وہ نچلے درجے تک گورننس کو بہتر بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ اسی کام کیلئے انہیں دوسرے سرکاری ملازموں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تنخواہ بھی دی جاتی ہے، گاڑیاں، گھر، عملہ اور دیگر مراعات و سہولتیں اس کے علاوہ ہیں لیکن یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ بیوروکریسی گورننس کو بہتر بنانے کی بجائے ساری توانائی اوروسائل صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرنے پر خرچ کرتی ہے اسی لئے ملک آج اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ عام آدمی کو ریاست اور جمہوریت پر اعتماد نہیں ہے۔
اب حالت یہ ہے کہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ملک کے تمام بڑے شہروں میں اشیاخورونوش کی قیمتوں میں اضافہ کردیاگیاتھا۔ پشاور،لاہور اور کراچی سمیت ملک کے دیگر کئی شہروں میں پھل، سبزی، مرغی کے گوشت، آٹا اور چینی سمیت ہر چیز ہی عام آدمی کی پہنچ سے دور کردی گئی ہیں،رمضان کے پہلے عشرے  کے دوران اشیائے صرف خاص طور پر افطار اور سحر پر استعمال ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں کم از کم 30 سے 80 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے رمضان المبارک کے دوران اس ملک کے غریب عوام کو سہولت کی فراہمی کیلئے رمضان پیکیجز کا اعلان کیاہے اور بعض علاقوں میں کچھ لوگوں کو یہ پیکٹ فراہم بھی کئے گئے ہیں حکومتوں کی طرف سے مستحقین کیلئے رمضان پیکیج کا اعلان یقینا ًمستحسن اقدام ہے لیکن اِس سے کہیں بہتر ہوتاکہ اشیا کی قیمتوں کو قابومیں کرلیاجاتا۔ گزشتہ نگران حکومت نے آٹا، چینی، ڈالر اور منشیات اسمگلنگ پر کریک ڈاؤن کیا تھا جس سے کچھ بہتری دیکھنے میں آئی تھی، قیمتوں میں کمی بھی ہوئی تھی۔ موجودہ منتخب حکومتوں کو بھی ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا چاہئے۔ ہمارے ہاں عجیب روایت ہے کہ رمضان سے پہلے قیمتیں بڑھا کرمصنوعی مہنگائی کر دی جاتی ہے، دکاندار اِسے ”کمائی کا سیزن“ بنا لیتے ہیں اور کوئی اُنہیں روکنے والا نہیں۔ مارکیٹ کمیٹیاں موجود تو ہیں لیکن اْن کی کارکردگی صفر ہے ملک میں رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کا رجحان جاری ہے۔ ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 1.31فیصد اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ ہفتے بھی مہنگائی کی شرح میں 1.11فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پچھلے 3 ہفتوں سے مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حالیہ ایک ہفتے میں 18 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جبکہ 10 اشیائکی قیمتوں میں کمی ریکارڈ کی گئی۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق3 ہفتوں میں مہنگائی کا تسلسل موجودہ حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے جو عوام کو ریلیف دینے کے نہ صرف دعوے کر رہی ہے بلکہ ہنگامی بنیادوں پر رمضان پیکیجز اور سستے رمضان بازاروں کا اہتمام بھی کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی کاوشیں اپنی جگہ قابل ستائش ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان تمام حکومتی اقدامات کے باوجود مہنگائی پر قابو نہیں پایا جارہا جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ مصنوعی مہنگائی کرنے والا مافیا رمضان المبارک میں بھرپور طریقے سے سرگرم ہے اور حکومتی رٹ کو بھی چیلنج کررہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ادارہ شماریات جن اشیاکے نرخوں میں کمی کی رپورٹ دے رہا ہے‘ عوام کو ان اشیاپر بھی ریلیف نہیں مل رہا۔ رمضان بازاروں میں جو اشیادستیاب ہیں‘ ان کے غیرمعیاری ہونے کی شکایات بھی سامنے آرہی ہیں‘ جبکہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والے یوٹیلٹی ا سٹورز بھی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ضلعی انتظامیہ کا کام ہے کہ فوٹو سیشنز کی بجائے لوگوں کو سستی اور معیاری چیزیں مہیا کرنے کے لیے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور بہتر منصوبہ بندی سے کام کریں۔ سب سے اہم ذمہ داری پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی ہے۔جن کے قیام کا مقصد ہی قیمتوں پر نظر رکھنا ہے۔ مگر اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی غفلت، لاپروائی اور رشوت خوری کی وجہ سے دکانداروں  سے لے کے ریڑھی والے تک ہر کوئی مرضی کی قیمت وصول کررہا ہوتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ قیمت کنٹرول کرنے والے اپنی ذمہ داری اور اس کے معاشرتی اثرات پر توجہ دینے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے آفیسر مارکیٹوں سے ہفتہ یا دیہاڑی وصول کرتے ہیں اور انہیں من مرضی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دیتے ہیں۔انہیں نہیں معلوم ہوتا کہ جس دکاندار سے وہ ہزار روپیہ رشوت لے رہے ہیں وہ چیزیں مہنگی بیچ کے لوگوں سے لاکھوں روپے زیادہ وصول کرے گا۔وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کی لالچ،غفلت اور بے ایمانی کی وجہ سے عوام کو روزانہ کتنا نقصان ہو سکتا ہے،لوگوں کا یہ کہنا بڑی حد تک درست معلوم ہوتاہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے ارکان اپنے ذاتی مفادات کیلئے ہی فعال ہوتے ہیں۔ ان کمیٹیوں کے لوگوں کا مقصد خدمت عوام نہیں بلکہ اپنی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ حکومت اگر چاہتی ہے کہ ان کی طرف سے کیے گئے اقدامات کے اثرات عام لوگو ں تک پہنچیں تو بہت ضروری ہے کہ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے کا م کرنے کے طریقہ کار کو بہتر کیا جائے۔ضلعی انتظامیہ اپنے افسران پر کڑی نظر رکھے۔ سخت قوانین بنائے جائیں اور کوتاہی کے مرتکب ہونیوالوں کیخلاف انضباطی کارروائیاں کی جائیں تاکہ کسی کو لاپروائی پر سزا ملتی دیکھ کے باقی ملازمین اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے سرانجام دینے کی کوشش کرنے لگیں۔ پاکستان میں گرانی پر آئی ایم ایف بھی سوال اٹھا چکا ہے اور پاکستانی حکام سے یہ سوال کرچکاہے کہ عالمی منڈی میں جن چیزوں کی قیمتوں میں مسلسل کمی ریکارڈ کی جارہی ہے یا جن چیزوں کی قیمتیں مستحکم ہیں پاکستان میں ان اشیا کی قیمتوں
میں مسلسل اضافے کا جواز کیاہے اور پاکستانی عوام کس جرم کی سزا کے طورپر بدترین مہنگائی بھگت رہے ہیں۔یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مہنگائی پر قابو پانے کیلئے جن مافیاز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان کی حمایت کرنے والے بہت سے لوگ پارلیمان اور خود وزیراعظم کی کابینہ میں موجود ہیں۔ایسی صورتوں میں حکومت عوام کا نظام پر اعتمادبحال کرنے کیلئے تمام مافیاز کے خلاف کسی بھی قسم کی رعایت کے بغیر کارروائی کیسے کرسکے گی؟


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں