میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حکمراں مسلم لیگ آگ سے کھیلنے سے گریز کرے

حکمراں مسلم لیگ آگ سے کھیلنے سے گریز کرے

منتظم
هفته, ۵ اگست ۲۰۱۷

شیئر کریں

حکمراں مسلم لیگ ن کے ایک حمایتی ٹی وی چینل نے نواز شریف کی نااہلی اور اس کے بعد ان کے دیرینہ ساتھی شاہدخاقان عباسی کے منتخب ہونے کے بعد کابینہ کی تشکیل میں پیش آنے والی دشواریوں سے لوگوں کی توجہ ہٹانے اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے نااہل قرار دئے گئے نواز شریف کو مظلوم ثابت کرنے کیلئے ایک نئی مہم شروع کی ہے جس کے تحت پہلے جنرل پرویز مشرف کا ایک مبینہ انٹرویو نشر کیاگیا جس میں انھوں نے فوجی حکومتوں کے دور میں ملک میں ہونے والے بعض ترقیاتی کاموں کی نشاندہی کی ،ان کے انٹرویو کے فوری بعد حکمراں مسلم لیگ ن کی خاطر وکلا کی صفوں میں انتشار پھیلانے اور نواز شریف کے استعفیٰ کے مطالبے میں وکلا کی حمایت کو ناکام بنانے کیلئے پیش پیش رہنے والی نام نہاد قانون داں آصمہ جہانگیر کی ایک طویل بات چیت نشر کی جس کے دوران انھوں نے نہ صرف یہ کہ ڈھکے چھپے الفاظ میں پاک فوج کو مطعون کرنے کی بھرپور کوشش کی بلکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو بھی شدید تنقید کانشانہ بنایا،اس کے بعد مسلم لیگ ن کے حمایتی اور اتحادی مولانا فضل الرحمٰن کی ایک تقریر نشر کی گئی جس میں مولانا نے براہ راست فوج کو نشانہ بنانے کی کوشش کی،قطع نظر اس کے کہ ان تمام کوششوں اور کاوشوں سے نواز شریف اور ان کی پارٹی کو کتنا فائدہ پہنچ سکتاہے یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گزشتہ روز اچانک نواز شریف کی نااہلی پر مسلم لیگ ن کا بیانیہ اوراس بعد شروع ہونے والایہ یہ کھیل بڑا خطرناک ہے۔ مسلم لیگی قیادت کوشاید اندازہ نہیں ہے کہ اپنے ووٹرز کو مطمئن کرنے اور انہیں ساتھ رکھنے کی خاطراس نے کس قدر غلط لائن لے لی ہے۔ پانامہ کیس کا سارا ملبہ فوج کے سر تھوپنے کی غلط پالیسی کا انتہائی بھیانک نتیجہ سامنے آسکتا ہے ،نواز شریف کے خلاف فیصلے سے قبل جب مرکزی وزرا اپنی گفتگو میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ پانامہ کیس نواز شریف کے خلاف سازش ہے تو مجبورا فوج کے ترجمان کو وضاحت کرنا پڑی کہ فوج کسی سازش کا حصہ نہیں ہے۔ اس وضاحت کے بعد بھی اشاروں کنایوں میں اور کبھی کھلم کھلا فوج کی مداخلت کی بات کی گئی حالانکہ اس مداخلت کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھا۔ سامنے کی بات ہے کہ جب آپ کے ہاتھ میں کوئی ثبوت لگا توآپ نے حساس ادارے کے سربراہ کی گفتگو کا ٹیپ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو سنادیا تھا۔ اب اگر ایسی کوئی بات ہوتی ہے تو کیا امر مانع تھا کہ سازش بے نقاب نہ کی جاتی۔ آئی بی کے سربراہ اور انٹیلی جنس کا پورا ادارہ سرگرم عمل ہے ، کیا ان کے ہاتھ کوئی ثبوت نہیں لگا۔ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ یہ باتیں ایک ایسے آرمی چیف کے ہوتے ہوئے کی جا رہی ہیں جس نے دھرنے کے دوران ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس میں جمہوریت اور جمہوری حکومت کے حق میں آواز بلند کی اور ان آوازوں کی مخالفت کی جو مارشل لا کو دعوت دے رہی تھیں ۔ یہ وہ آرمی چیف ہیں جنہوں نے موجودہ حکومت کو ڈان لیکس کے مخمصے سے نکالا اور ایک نامقبول فیصلہ کرکے سول برتری کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ ان کی موجودگی میں یہ تاثر دینا کس قدر افسوس ناک ہے کہ خدانخواستہ فوج نے نواز شریف کی رخصتی کا بندوبست کیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے اپنے دورِ حکومت میں فوج کودبائو میں رکھنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں ۔ فوج کے خلاف نواز شریف نے پہلی ہرزہ سرائی اس وقت کی جب وہ کشمیر میں انتخابی مہم چلارہے تھے۔جب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو انہوں نے بھارتی وزیراعظم سے ہونے والی ملاقاتوں میں پاک فوج کے بارے میں کہا کہ یہ ہمارے کہنے میں نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر ہونے والی اس ملاقات کے ”کمنٹس” بھارتیوں نے جاری کیے تو فوجی حلقوں میں اس بات کا بہت برا منایا گیا کہ فوج کے بارے میں نواز شریف اب تک کیسی بدگمانی رکھتے ہیں ۔ بعض تجزیہ نگاروں کی رائے میں جنرل ظہیر الاسلام کے آئی ایس آئی چیف بننے کے بعد فوج نے اس تاثر کو زائل کرنے کی بھرپور کوشش کی جو جنرل پاشا کے وقت موجود تھا۔یہ وہ ظہیر الاسلام ہیں جن کو بعد ازاں بدنام کرنے کیلئے حکومتی حمایت یافتہ ٹی وی چینل نے بھرپور مہم چلائی۔ حکومت کے وزیر اطلاعات کا بیان لوگ آج تک بھول نہیں سکے ہیں ۔ ”ہم دلیل والوں کے ساتھ ہیں ، غلیل والوں کے ساتھ نہیں ہیں ۔” یہ غلیل والے کون ہیں ؟ کیا غلیل والے کسی دوسرے ملک کی فوج کے سپاہی ہیں ؟ کیسی عجیب بات اور گفتگو حکومت کے وزیر اطلاعات نے کی لیکن انہیں عہدے سے فارغ کیا گیا اور نہ ہی ان کی کھلے عام سرزنش کی گئی۔ اپنی فوج کو دبائو میں رکھنے کے لیے حکومت کس حد تک جا سکتی ہے اس کا اندازہ گزشتہ دنوں روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی اس خبر سے لگایا جاسکتاہے جسے پاکستان کے دشمنوں کابیانیہ ہی کہاجاسکتاہے ،ان کوششوں کی اس طرح تشہیر کی گئی کہ اپنے آپ کو غیر ملکی مغربی قوتوں اور بھارت کے سامنے صاف ستھرا بنا کر پیش کیاجائے اور سارا ملبہ فوج پر ڈال کر اسے بدنام کیاجائے۔اس وقت کے وزیرداخلہ نے یہ اعتراف کیاتھاکہ اس خبر سے پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچا اور فوج کی بدنامی ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ فوج کو بدنام کرنے کی راہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے کیوں اپنائی؟ میاں نواز شریف کی سیاست فوج کی سرپرستی میں شروع ہوئی اور اب اپنی فوج سے گلے شکوے ہو گئے ہیں ۔پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے باوجود فوج سے بحیثیت ادارہ مخاصمت کی بجائے مفاہمت کی بات کی حالانکہ 9سال مارشل لا کی سختیاں جھیلنے کے بعدپیپلزپارٹی کا ورکر ٹکرا ئوکے لیے سر بکف تھا۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے بھی ”پاکستان کھپے” کا نعرہ لگایا۔یوں ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی سے گریز کرتے ہوئے پیپلز پارٹی نے بحیثیت سیاسی جماعت اپنی ذمہ داری کو ادا کیا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اس حوالے سے عاقبت نااندیشی کامظاہرہ کرتے ہوئے ایک قومی جرم کا ارتکاب کر رہی ہے۔بحیثیت ادارہ فوج کا پانامہ پیپر مقدمے سے کیا تعلق بنتا ہے؟
یہ بات واضح ہے کہ مسلم لیگ ن اپنی چوری پر پردہ ڈالنے کے لیے فوج کو موردالزام ٹھہرانے کی کوشش کررہی ہے تاکہ اپنا ووٹ بینک کسی طرح بچایا جا سکے۔ پانامہ کیس میں سامنے آنے والے انکشافات سے پتہ چلا ہے کہ نواز شریف اور ان کی فیملی نے غلط طریقوں سے دولت بیرون ملک بھیجی اور بیرون ملک مہنگی جائیدادیں بنائیں ، ان جائیدادوں کو بنانے کیلئے دولت پاکستان سے باہر کس طرح گئی مسلم لیگ ن کے قائدین اس کا کوئی تسلی بخش جواب عدالت عظمی کو نہیں دے سکے۔ عدالت نے مہینوں اس کیس کی سماعت کے بعد نواز شریف کے خلاف اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ اس سارے قضیے میں فوج کہاں سے آ گئی اور فوج کا منفی کردار کیسے بنتا ہے؟ اپنی فوج کے خلاف مسلم لیگی ووٹرز کا ذہن خراب کرنا کیا قومی جرم کے زمرے میں نہیں آتا؟۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف اور ان کے قریبی معاونین کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور ایسے کھیل سے گریز کرنا چاہئے،اور اس طرح کے حربوں کے ذریعے آگ سے کھیلنے کی کوششوں سے باز آجانا چاہئے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں