کیا سندھ اسمبلی اپنی مدت مکمل کرسکے گی ؟ وزیراعلیٰ سندھ نے بیان دے کر سب کو چونکا دیا
شیئر کریں
وزیراعلیٰ سندھ سے آصف زرداری اور فریال تالپر ناراض ہیں،دبائو بڑھتا جا رہا ہے ، ایک حد کے آگے شاید وزیراعلیٰ بھی نہ جاسکیں اور پھر ناراض ہو کر وہ سندھ اسمبلی توڑدیں ،بعض حلقوں کاخیال
پاناما اسکینڈل کے سبب وزیراعظم کی نااہلی کا خطرہ سرپر منڈلانے لگے گا تو پی پی قیادت کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ سندھ اسمبلی توڑدیں گے جس سے قبل ازوقت انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے گی،افواہوں کا بازار گرم
الیاس احمد
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی کبھار ایسی بات کہہ جاتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے اور کبھی کبھار وہ اپنی اور پارٹی کی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے ایسی منطق بیان کرتے ہیں کہ دنیا ہنس پڑتی ہے۔ ان کو قائم علی شاہ کی جگہ اس لیے لایا گیا تاکہ وہ بہتر نتائج دے سکیں وہ متحرک وزیراعلیٰ کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں لیکن وہ پارٹی قیادت یعنی آصف زرداری اور فریال تالپر کے سامنے ایک خدمت گار اور تابعدار وزیراعلیٰ کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ مراد علی شاہ نے ترقیاتی کاموں میں دلچسپی ظاہر کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے دور حکومت میں تعمیراتی کام زیادہ ہوئے ہیں ،صوبہ بھر کی سڑکیں پہلے سے زیادہ بہتر بن چکی ہیں ،وہ روزانہ وقت نکال کر ان سڑکوں کی تعمیرات کا خود جائزہ لینے جاتے ہیں ،ان کے دور میں ترقیاتی منصوبوں کے 391 ارب روپے خرچ نہ کیے جانے کے باعث واپس (لیپس) بھی ہوئے ہیں ۔ان کی اچھی بات یہ بھی ہے کہ وہ وفاق کے سامنے صوبے کا کیس بھرپور انداز میں پیش کرتے ہیں ۔وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر داخلہ چوہدری نثار کے ساتھ زبردست بحث و مباحصہ ہوتا رہتا ہے۔ شاید ان کی اس ادا کی وجہ سے آصف زرداری نے انہیں وزیر اعلیٰ بنایا تاکہ وہ وفاقی حکومت کوٹف ٹائم دے سکیں، چند روز قبل وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بجٹ اجلاس میں حیرت انگیز تقریر کی جس میں انہوں نے باتوں باتوں میں چونکا دینے والی بات کہہ دی کہ شاید موجودہ سندھ اسمبلی اپنی مدت مکمل نہ کرسکے جس کے بعد سیاسی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا کیونکہ 8 1ویں ترمیم کے خاتمے کے بعد اب صدر یا گورنر اسمبلی نہیں توڑ سکتے پھر 18 ویں ترمیم نے صوبوں کو با اختیار بنا دیا ہے ،ہاں وفاقی حکومت کو صرف اتنا اختیار ضرور ہے کہ وہ کسی صوبائی حکومت کو تین یا چھ ماہ کے لیے معطل کرے لیکن وہ اسمبلی کو نہیں توڑ سکتی۔ اب اسمبلی توڑنے کا اختیار صرف وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے پاس ہے تو پھر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے یہ بات کیوں کہہ دی کہ شاید موجودہ سندھ اسمبلی اپنی مدت مکمل نہیں کرسکے۔ تو پھر کئی طرح کی باتیں پھیل گئی ہیں، ایک افواہ یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت جب پاناما اسکینڈل میں مکمل طور پر پھنس جائے گی اور وزیراعظم کی نااہلی کا خطرہ سرپر منڈلانے لگے گا تو عین اسی موقع پر پی پی قیادت کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سندھ اسمبلی توڑدیں گے جس کے بعد عام انتخابات قبل از وقت منعقد کرانے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ دوسری افواہ یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سے آصف زرداری اور فریال تالپر ناراض ہیں اور ان پردبائو بڑھتا جا رہا ہے ، اور ایک حد کے آگے شاید وزیراعلیٰ بھی نہ جاسکیں، اور پھر ناراض ہو کر وہ سندھ اسمبلی توڑدیں ،پھر ایک بحران کھڑا ہو جائے۔ لیکن یہ طے ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سندھ اسمبلی کے توڑنے کی بات کہہ کر نواز شریف یا آصف زرداری میں سے کسی ایک کو دھمکی ضرور دی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس سے تنگ آکر سندھ اسمبلی توڑتے ہیں؟ خود پیپلز پارٹی کی قیادت بھی حیران و پریشان ہے یہی وجہ ہے کہ ظاہری طور پر معاملے کو دبا لیا گیا ہے لیکن درون خانہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو تنگ کرنا کم کر دیا ہے اور پھر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اب بلاول بھٹو زرداری کے قریب ہوگئے ہیں انہیں نوری آباد لے جاکر پاور پلانٹ کا افتتاح کیا، کراچی میں قائد آباد کے قریب اوور ہیڈ برج کا افتتاح بھی کیا اور ان کے ساتھ کراچی کے مختلف ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ بھی لے رہے ہیںجبکہ آصف زرداری تو دبئی میں بیٹھے ہیں اور فریال تالپر سے وہ دور دور رہنے لگے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے سیاسی ماحول میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے لیکن سندھ میں اپوزیشن جماعتیں اس لیے خاموش ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے مراد علی شاہ اتنے طاقتور نہیں ہیں کہ وہ آصف زرداری اور فریال تالپر سے ٹکر لیں لیکن پارٹی کے اندر ایک حلقہ ایسا ہے جو بلاول بھٹو زرداری کو کمزور کرنے پر آصف زرداری اور فریال تالپر سے ناراض ضرور ہے۔ اور اسی حلقے کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ مل کر جرأت مندانہ فیصلے کریں اور آصف زرداری اور فریال تالپر کو غیر اعلانیہ طور پر اہم فیصلوں سے الگ کریں تو شاید عوام اور پارٹی کارکن ان کے ساتھ کھڑے ہو کر انہیں مضبوط بنالیں لیکن اس وقت حکومت اور اپوزیشن وزیراعلیٰ کے اس بیان پر کوئی رائے قائم نہیں کر رہی ہیں کیونکہ کسی کے وہم و گمان میں نہیں ہے کہ سندھ اسمبلی کس طرح وقت سے پہلے ٹوٹے گی؟