رمضان اور عصر حاضر میں ہماری کیفیت ِ ایمان
شیئر کریں
کتنی محرومی کی بات ہے کہ دعاکے وقت جب اللہ تعالیٰ ہماری طرف متوجہ ہوتے ہیں، عین اسی وقت ہم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کچن کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں
مولاناندیم الرشید
رمضان المبارک عبادت اور رب کو راضی کرنے کا مہینہ ہے۔ اس بابرکت ماہ کی سہانی مقدس راتوں میں ایمانی کیفیت سے عبادت اور ریاضت کے لیے ضروری ہے کہ سحر و افطار کے وقت آدمی ایسا کھائے جو اس کے معدے اور طبیعت کو عبادت کے وقت خراب نہ کرے اور اتنا کھائے کہ اس پر سستی، کاہلی اورنیند کا غلبہ نہ ہو۔ بلکہ قیام اللیل کے لیے طبیعت میں داعیہ ، بشاشت چُستی اور توانائی پیدا ہو، کھانے کے بعد انسان کو یہ محسوس ہوکہ افطار کے بعد اللہ کی طرف میلان اور دھیان مزید بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ رمضان درحقیقت لذّاتِ ایمانی کے حصول کا مہینہ ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ عصر حاضر میں وہ کتنے لوگ ہیں جو اس ماہ میں لذّاتِ ایمانی کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں اوروہ کتنے لوگ ہیں جو اس ماہ کو بھی لذّاتِ نفسانی کے حصول کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔ ہمارے ہاں کتنے لوگ ہیں جو رمضان میں اچھی سے اچھی ”پھینی “ ”کھجلہ “ ”پکوڑے“ ”دہی بڑے“ اور”سموسے“ تلاش کرنے کے لیے نکلتے ہیں ، اور وہ کتنے لوگ ہیں جو تراویح میں دلوں کی رقت کے لیے اچھی تلاوت یا اچھا درس تلاش کرنے کے لیے نکلتے ہیں۔
لذتِ ایمانی بھی کیسے حاصل ہو؟ رمضان صبر کا مہینہ ہے لیکن اس میں ہم صبر نہیں کرتے، مہنگائی کرتے ہیں۔ یہ انفاق کا مہینہ ہے لیکن ہم انفاق نہیں کرسکتے کیونکہ اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ کم کھانے اوردوسروں کو کھلانے کا مہینہ ہے، لیکن اس میں ہم خود زیادہ کھاتے ہیں دوسروںکو کم کھلاتے ہیں۔
یہ عبادت کامہینہ ہے۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:” مَن قَامَ رَمَضَان اِیمَاناً وَّاِح±تَسَاباً غُفِرَلَہ‘ مَاتَقَدَّمَ مِن ذَنبِہ“ (متفق علیہ) ترجمہ :” جس نے رمضان کی راتوں میں ایمانی کیفیت اور اجر وآخرت کی نیت کے ساتھ نماز تراویح پڑھی تو اس کے اُن گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیں گے جو پہلے ہوچکے۔
مگر ہمارا حال یہ ہوتا ہے کہ تہجد اورعصر سے مغرب تک خور و نوش کی تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں، بالخصوص خواتین تو اس وقت ”لائیو کوکنگ“ کررہی ہوتی ہیں، اگران سے کہا جائے کہ یہ تلاوت اور تسبیح کا وقت ہے تو وہ کہتی ہیں ہمیں مردوں نے مجبور کیا ہے، کراچی کی خواتین اگر یہ بات کریں تو بالکل اعتبار نہیں آتا۔ کیونکہ سار اسال تو یہاں خواتین مردوں کی بات نہیں مانتیں، لیکن صرف ایک مہینے کے لیے پتا نہیں کیسے اتنی فرماں بردار بن جاتی ہیں۔ اگر مردوں سے پوچھا جائے کہ آپ خواتین کو ماہ مقدس میں عبادت کا موقع فراہم کرنے کے بجائے کھانے پکانے پر کیوں مجبور کرتے ہیں؟ تو ان کی طرف سے جواب آتا ہے صاحب! ہم نے تو مجبور نہیں کیا، ان کا اپنا شوق ہے، اب ہم ان کا دل تو نہیں توڑ سکتے۔ چنانچہ رمضان کی مبارک ساعتوں میں خواتین کا اکثر وقت کھانوں کی ترکیبیں پڑھنے، مارکیٹ سے سبزی گوشت لانے یا مصالا جات تلاش کرنے میںصرف ہوجاتا ہے۔
قارئین کرام!
عجیب بات ہے، عین دعاکے وقت جب اللہ تعالیٰ ہماری طرف متوجہ ہوتے ہیں…. ہم اللہ تعالی کو چھوڑ کر کچن کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ کھانوں کے حوالے سے اس وقت جیسا جوش و خروش اور گہما گہمی ہمارے گھروں میں دکھائی دیتی ہے، وہ پورا سال نظر نہیں آتی، یوں لگتا ہے جیسے ”روزہ “نہ ہو کوئی ”فوڈ فیسٹیول“ منایا جارہا ہو، جونہی روزہ افطار ہوتا ہے ہم اتنا کچھ کھالیتے ہیں کہ نماز کے لیے اٹھنا مشکل ہوجاتاہے، پھر مغرب کے بعد تراویح کی تیاری کرنے کی بجائے ٹی وی کے سامنے لیٹ کر چینل پرچینل بدلتے جانا ہمار امشغلہ بن جاتا ہے، جہاں افطار کی خصوصی ٹرانسمیشن میں یا تو کوئی فلمی اداکارہ واعظہ کے روپ میں استغفار کروارہی ہوتی ہے یا لوگوں کوڈنڈ بیٹھکیں لگوانے والے حضرت صاحب اپنے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے پروگرام میں دین کے نام پر لوگوں سے تُکے لگوارہے ہوتے ہیں، پاکستان کے قریباً پچاس فیصد وہ عوام جو روزانہ دودھ خریدکر تو پی نہیں سکتے لیکن انہیں ٹیلی ویژن اسکرین پر ایسی افطار پارٹیوں کے مناظر دکھا ئے جاتے ہیں، جہاں میزوں پر سجی پچاس ڈشیں غریبوں کے سادا دستر خوانوں کا مذاق اڑارہی ہوتی ہیں۔
سوال یہ ہے کیا رمضان کی مقدس ساعات میں رب کے حضور گڑگڑانے کے بجائے مارکیٹ کے چکرلگانے، نت نئی اقسام کے کھانے پکانے، حدسے زیادہ کھانے اورمغرب کے بعد ٹیلی ویژن کے سامنے آ کر بیٹھ جانے سے ہمیں تراویح میں وہ ایمانی کیفیت حاصل ہوجائے گی جس پر ہمارے پچھلے گناہوں کی بخشش کا دارو مدار ہے؟ آخرکیا وجہ ہے کہ رمضان کے چند ایام گزرنے کے بعد تراویح اور دیگر نمازوں میں نمازیوں کی صفیں کم ہونا شروع ہوجاتی ہیں؟ جبکہ بازار کی رونقیں بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ وہاں رش میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے، حتٰی کہ بعض لوگوں کا روزہ بھی بازار میں افطار ہونے لگتا ہے۔
ہمارے آج کے مضمون کا پیغام یہ ہے کہ اللہ کے پاک پیغمبر نے ارشاد فرمایا جس نے رمضان کی راتوں میں ایمانی کیفیت اوراجر وآخرت کی نیت کے ساتھ نماز تراویح پڑھی تو اس کے پچھلے گناہوں کو اللہ تعالی معاف فرمادیں گے۔ رمضان روحانی لذّاتِ اور ایمانی کیفیات کے حصول کا مہینہ ہے۔ لیکن آج کل ہم جس طرز کی زندگی گزاررہے ہیں، یعنی ہماری موجود ہ لائف اسٹائل اور الیکٹرونک میڈیا یہ ہمیں روحانی لذّات کو تلا ش کرنے کے بجائے مادی لذّات کی تلاش میں لگا دیتے ہیں۔ جس سے ہمیں وہ ایمانی کیفیت صحیح معنوں میں حاصل نہیں ہوپاتی جو رمضان کی خاص وعام عبادات کے لیے مطلوب ہے۔ جس پر ہماری بخشش کا دار ومدار ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اب سے ہی یہ سوچ لیاجائے کہ ہمیں بقیہ رمضان کیسے گزارنا ہے جبکہ یہی تیاری ہمیں ہر سال رمضان سے قبل مکمل کرلینی چاہیے۔ دعا فرمائیں اللہ رب العزت ہمیں صحیح معنوں میں رمضان کی قدردانی نصیب فرمادیں۔ آمین۔