میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بنیادی وجوہات

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بنیادی وجوہات

جرات ڈیسک
جمعه, ۱۵ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

مولانا محمد الیاس گھمن

اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام (قرآن کریم) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا حقیقی مقصد آپ کی تعلیمات پردل و جان سے عمل کرنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات واجب الاطاعت ہے،اسی اطاعت رسول میں دنیوی و اخروی نجات مضمر ہے، اسی میں خدائے لم یزل کی رضا موجود ہے اور اسی پر انعام الٰہی کا وعدہ ہے۔
رسول چونکہ وحی الٰہی کا پیغامبر ہوتا ہے، اس کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت شمار ہوتی ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہَ۔(سورۃ النساء آیت نمبر 80)
ترجمہ: جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی۔
خود اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا۔(سوررۃ الحشر آیت نمبر 7)
ترجمہ: جس چیز کا میرا رسول تمہیں حکم دے وہ کام کرو اور جن باتوں سے روکے ان سے باز آ جاؤ۔
یہ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت سے بے انتہا محبت ہے، بے پناہ شفقت ہے، بلکہ محبت و شفقت کے الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قلبی کیفیات کو بیان کرنے سے قاصر ہیں اس لیے قرآن کریم نے اس کو حریص علیکم سے تعبیر کیا ہے، تو جو ذات بے انتہا اور بے پایاں شفقت و محبت کرتی ہو ہمارے انجام سے بخوبی واقف ہو، بالخصوص جب کہ اس کی واقفیت وحی الہٰی اور مشاہدہ کی صورت میں ہو، تو وہ ذات لازمی طور پر اس قابل ہے کہ اس کی کامل اطاعت کی جائے اور یہ اطاعت پیداہوتی ہے محبت کی انتہا سے، جس قدر محبت میں کمال آتا جاتاہے اسی قدر جذبہ اطاعت باکمال اور لازوال ہوتا چلا جاتا ہے اور اس محبت کو پیدا کرنے کی بہت ضرورت ہے جو ہمیں حقیقت کے قریب کرے، رسول کی اطاعت پر ابھارے، اللہ کی فرمانبرداری پر پُرجوش کرے۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ محبت کرنے کی جتنی وجوہات ہو سکتی ہیں وہ ساری کی ساری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔
پہلی وجہ کمال:اگر محبت کی وجہ کسی ذات کا باکمال ہونا ہے تو تمام کمالات میں مکمل کامل اور اکمل ذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، عزت و عظمت، فضیلت و منقبت، شرف و مقام اور مرتبہ وکمال یہ سب کچھ اس باکمال ذات کا صدقہ ہے جن کی وجہ سے ان اوصاف کے حقائق سے دنیا واقف ہوئی ہے۔ عقل کامل، سوچ کامل، تدبر کامل، فکر کامل، شکر کامل، عبدیت کامل، انسانیت کامل، حیا کامل، سخا کامل، شجاعت کامل، وجاہت کامل، تمام اوصاف کامل۔ اسی کاملیت پر نگاہ دوڑاتے ہوئے قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہے
تیرے کمال کسی میں نہیں مگر دوچار
دوسری وجہ احسان:اگر محبت کی وجہ کسی ذات کا محسن ہونا ہے تو محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف مسلمانوں پر ہی نہیں تمام انسانوں پر بلکہ ساری مخلوقات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان عظیم ہے۔احسان کا یہ سلسلہ عالم ارواح سے عالم آخرت تک پھیلا ہوا ہے۔عالَم ارواح میں جب اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو ایک جگہ جمع فرما کریہ سوال کیا کہ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ۔ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو سب سے پہلے روح محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب عنایت فرمایا: بَلٰی۔ کیوں نہیں آپ ہی ہمارے رب ہیں، آپ کا جواب سن کر تمام انبیاء کرام کی ارواح نے جواب دیا پھر درجہ بدرجہ تمام ارواح نے بَلٰی کا اقرار کیا۔ عالم دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا نہ ختم ہونے والا طویل سلسلہ ہے، انسان کی تخلیق سے لے کر انسانیت کی معراج تک سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دم قدم سے ہے، وجہ تخلیق کائنات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ عالم آخرت چونکہ سب سے بڑا عالَم ہے اس لیے اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان بھی سب سے بڑا ہوگا، آپ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ حساب وکتاب شروع فرمائیں گے، اتنا ہولناک وقت ہو گا انبیاء کرام علیہم السلام تک نفسی نفسی پکار رہے ہوں گے، صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک لبوں پر یارب امتی یارب امتی کی صدا ہوگی، خدا تعالی کے جلال کو جمال میں بدلنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت طویل سجدہ فرمائیں گے، بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی: اے محمد اپنا سر مبارک اٹھائیے، مانگیے آپ کو عطا کیا جائے گا، گناہ گاروں کی سفارش کیجیے آپ کی سفارش کو قبول کیا جائے گا۔ چنانچہ آپ میدان حشر میں جہاں کہیں (میزان، پل صراط وغیرہ پر) اپنی امت کو مشکل میں دیکھیں گے وہاں آ کر اللہ تعالیٰ سے شفاعت کی درخواست کریں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی سفارش کو قبول فرما کر اس امت کے گناہ گاروں کو جہنم سے آزاد فرما کر جنت عطا فرمائیں گے۔ اتنے بڑے محسن کا حق بنتا ہے کہ آپ کی کامل اطاعت کی جائے، تاکہ ہم آپ کی شفاعت کے حقدار بن جائیں۔
تیسری وجہ جمال:اگر محبت کی وجہ کسی کا خوب صورت ہونا ہے، حسین وجمیل ہونا ہے، تو کائنات میں سب سے زیادہ حسین و جمیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہے، آپ پیکر حسن و جمال، مجسم حسن و جمال، منبع حسن و جمال اور مرکز حسن و جمال ہیں۔ آپ ہی کے جلووں سے کائنات کا حسن اپنی روشنیاں بکھیر رہا ہے، آپ کی تابانیاں اور رعنائیاں ہر سو پھیل رہی ہیں، زمین و زمن، ارض و فلک، شمس و قمر اور شام و سحر الغرض خدا تعالیٰ کی تمام خدائی کو آپ کے حسن و جمال نے احاطہ کر رکھا ہے۔ قرآن کریم پڑھ کر دیکھ لیجیے آپ کی ذات مبارک کس طرح حسن و جمال کی مالا میں پروئی ہوئی ہے۔
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
معلوم ہوا کہ اگر وجہ محبت حسن و جمال بھی ہو تب بھی سب سے زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنی چاہیے۔
چوتھی وجہ اخلاق:اگر محبت کی وجہ اخلاق و کردار ہے، تو پھر انک لعلیٰ خلق عظیم کے حقیقی مصداق ہی اس قابل ٹھہرتے ہیں کہ آپ سے محبت کی جائے،جس کے خلق عظیم کی گواہی قرآن کریم میں خالق کائنات خود دے رہے ہیں، ایسا بااخلاق انسان دنیا کہاں سے لائے گی جس کی اخلاق حسنہ کا اعتراف اس کے دشمن بھی کریں، صادق،امین، صلح جو، ہمدرد، مونس و غمخوار اور سخی و فیاض ذات درحقیقت ذات حبیب کبریاء صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ الغرض وجوہ محبت کمالات ہوں یا احسانات، حسن و جمال ہو یا اخلاق و کردار ہر حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کے لیے اسوہ حسنہ ہیں۔ جب دل میں محبت رسول موجزن ہو جائے تو اطاعت کرنا کوئی مشکل نہیں رہتا۔ آج ہمیں اپنے دل میں محبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے محبت سے ہی اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اور اگر محبت کو اطاعت کے قالب میں نہ ڈھالا جائے تو دعویٰ میں صداقت نہیں آ سکتی۔
افسوس!صد افسوس!آج ہم اس جذبہ اطاعت سے دور ہو چکے ہیں، ہماری تنزلی آج بھی ختم ہو سکتی ہے اگر ہم بغاوت کو چھوڑ کر اطاعت کو اپنا لیں، اپنی زندگی کے ہر پہلو کو اطاعت رسول کے سانچے میں ڈھالیں، خوشی و غمی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنائیں، مقصد بعثت رسالت پر غور کریں، سمجھیں، اور دل و جان سے عمل کریں۔ اطاعت کے بغیر دنیا میں ناکامی ہوگی، اگر اپنی روش کو نہ بدلا تو یہی ناکامی کل قیامت کو حسرت کا روپ دھار لے گی پھر انسان کہیں گے:یَا لَیْتَنَا أَطَعْنَا اللّہ وَأَطَعْنَا الرَّسُوْلَا۔(سورۃ الاحزاب آیت نمبر66)
ترجمہ: اے کاش ہم اللہ کی اطاعت کرتے اور رسول کی اطاعت کرتے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اطاعت رسول کا جذبہ عطاء فرمائے، اسی جذبہ کے تقاضوں پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ مطاع ثم امین۔ صلی اللہ علیہ وسلم


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں