
(سیپا )ضلع وسطی کے انچارج کامران کی پیدا گیریاں ، سرکاری حکم نظر انداز
شیئر کریں
عالمی یوم حیاتیاتی تنوع کے موقع پر بلڈروں اور صنعت کاروں سے نقد وصولیاں جاری ، ذرائع
دفتر میں مشکوک سرگرمیاں ، دانستہ طور پر سیمینار میں شریک نہیں ہوئے ، ڈائریکٹر بننے کی کوشش
محکمہ ماحولیات کے ماتحت سیپا میں کینیڈین نیشنل بگھوڑے افسر نے ڈی جی کے احکامات کی دھجیاں اڑادیں، ماحولیاتی سیمینار میں شرکت کے بجائے دفتر میں مبینہ طور پر لاکھوں روپے کی وصولی۔ جرات کی رپورٹ کے مطابق محکمہ ماحولیات کے ماتحت سندھ انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے ڈپٹی ڈائریکٹر لیبارٹری اور ضلع وسطی کے انچارج کامران خان نے ڈی جی کے حکم کی دھجیاں اڑاتے ہوئے، عالمی یوم حیاتیاتی تنوع کے موقع پر بھی اپنی جیبیں بھرنے کا فریضہ انجام دیا۔ ایک طرف اعلیٰ حکام این ای ڈی یونیورسٹی میں ماحولیاتی سیمینار کی گہرائیوں میں غوطہ زن تھے، وہیں ہمارے موصوف نے چمڑہ چورنگی میں اپنی ”کرپشن کی دکان” سجا رکھی تھی۔ ڈی جی سیپا نے تمام افسران کو سیمینار میں شرکت کی ہدایت کی تاکہ وہ ماحولیاتی شعور بیدار کریں، لیکن کامران خان کے لیے یہ موقع سیمینار میں شرکت کا نہیں، بلکہ ”ڈائریکٹ وصولی” کا تھا۔ دفتر خالی تھا، کوئی پوچھنے والا نہیں، اور بس پھر کیا تھا! بلڈروں اور صنعتکاروں کو بلا بلا کر ان سے لاکھوں روپے نقد اینٹھے گئے، کیونکہ اس وقت ان کے کمرے کے باہر ہونے والی غیر معمولی چہل پہل کو نوٹس کرنے والا کوئی موجود نہیں تھا۔ سابق ڈی جی کا سایہ اٹھتے ہی ڈپٹی ڈائریکٹر نے ”آزادی” سے وصولی کی ہے۔ اندرونی ذرائع سے پتا چلا ہے کہ کامران خان سابق کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے بے یارو مددگار ہو چکے ہیں۔ نئے ڈی جی وقار پھلپوٹو، جو نظم و ضبط کے پکے قائل ہیں، ان کے ہوتے ہوئے کامران خان کی ”من مانیاں” مشکل ہو گئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے سنہری موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں جب دفتر خالی ہو اور وہ کرپشن کا بازار بے خوف ہو کر گرم کر سکیں۔ سابق ڈی جی کے دور میں تو یہ صاحب ”کھلی چھٹی” پر تھے، کیونکہ ان کے تمام ”بڑوں” کو ان کا ”معقول حصہ” باقاعدگی سے ملتا تھا، لیکن اب لگتا ہے کہ یہ ”ڈپٹی ڈائریکٹر” صرف ”ڈپٹی” ہی رہ گئے ہیں اور ”ڈائریکٹر” بننے کے لیے انہیں نئے ”باس” کی تلاش ہے۔