میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سویلینز ٹرائل، الزام کے بغیر آرمی ایکٹ کا مرتکب نہیں کہا جا سکتا،آئینی بینچ

سویلینز ٹرائل، الزام کے بغیر آرمی ایکٹ کا مرتکب نہیں کہا جا سکتا،آئینی بینچ

ویب ڈیسک
بدھ, ۲۹ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی ، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کی جانب سے دلائل دیے گئے۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی ۔ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ کا حصہ ہیں۔وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آرمی ایکٹ اور پولیس کی ایف آئی اے میں چارج فریم کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کر دیا۔جسٹس حسن اظہر نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ میں انکوائری کون کرتا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ چارج کے بعد انکوائری کمانڈنٹ آفیسر کرتا ہے، تفتیش کا مکمل طریقہ کار بتاں گا۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ فرد جرم عائد کرنے کے بعد انکوائری کیسے کرتے ہیں؟ ایف آئی اے کیسے ہوتی؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ الزام لگا دیتے ہیں، چارج اسی کے لیے لفظ استعمال ہوتا ہے، چارج کی بنیاد پر تفتیش کی جاتی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جب تک الزام نہ ہو تو اسے آرمی ایکٹ کا مرتکب نہیں کہا جا سکتا، چارج فریم ہونا ضروری ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا دوران ٹرائل بھی چارج فریم ہوتا ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ چارج الگ ہوتا ہے اور دوران ٹرائل چارج فریم ہوتا ہے۔وکیل وزارت دفاع سے جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا فوجی عدالتوں میں ججز یونیفارم میں ہوتے ہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ کورٹ مارشل میں ججز فوجی یونیفارم میں ہی ہوتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تفتیش میں چارج نہیں ہوتا۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ ٹرائل میں بھی چارج فریم ہوتا ہے، ہم نے شروع میں کہا تھا کہ جن کے خلاف ثبوت نہیں ہیں ان کا فیصلہ تو کریںوکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کورٹ مارشل کے فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں