میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۲ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

مفتی غلام مصطفی رفیق
منگنی کے بعد دوسری جگہ شادی کرنا
سوال:کیامنگنی ہوجانے کے بعد بھی لڑکی کسی دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے یانہیں؟
جواب:منگنی وعدہ¿ نکاح ہے ،نکاح نہیں، شریعت کاحکم یہ ہے کہ حتی الامکان وعدہ¿ نبھایاجائے بلاشرعی عذر کے وعدہ¿ خلافی نہ کی جائے۔لہذا منگنی کے بعد کسی دوسری جگہ شادی کرنے سے شادی ہوجائے گی تاہم بلاعذر اگرمنگنی توڑی ہے تو وعدہ¿ خلافی کا گناہ ہوگا۔ (مشکوة المصابیح،باب الکبائروعلامات النفاق، الفصل الاول،1/17،ط:قدیمی کراچی- فتاویٰ شامی، کتاب النکاح، 3/11، ط: ایچ ایم سعید)
جمعہ کی قضاءکا طریقہ
سوال:مجھ سے کئی جمعے قضاہوئے ہیں اب میں انہیں کیسے اداکروں؟
جواب:جمعہ کی نماز کے لیے جماعت شرط ہے ، اگرکسی شخص کو جمعہ کی نماز نہ ملے تونماز جمعہ کی قضاءنہیں،بلکہ وہ ظہرکی نماز ادا کرے گا۔اس لیے اگرآپ سے کئی جمعے قضاہوگئے ہیں تو اب آپ ان کی جگہ ظہر کی نماز ادا کریں گے۔(فتاویٰ شامی، باب الجمعہ،2/151،ط:سعید-فتاویٰ ہندیہ،الباب السادس عشر فی صلوة الجمعة، 1/145، ط:رشیدیہ)
صلوة التسبیح کا وقت
سوال:صلوة التسبیح کا وقت کون ساہے؟
جواب:صلوة التسبیح کا کوئی وقت معین نہیں ہے،مکروہ اوقات کے علاوہ دن رات کے تمام اوقات میں صلوة التسبیح پڑھنادرست ہے، البتہ زوال کے بعد پڑھنازیادہ بہتر ہے۔حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ روزانہ ظہر کے وقت اذان اور اقامت کے درمیان صلوة التسبیح ادا فرماتے تھے۔(فتاویٰ شامی، مطلب فی صلاة التسبیح،2/27،ط:دارالفکر-دارتحفة المسلمین، ص:197،ط:مکتبہ معارف القرآن کراچی)
منت کا گوشت خود کھاناجائزنہیں
سوال:ہمارے ہاں نذر ماننے کا دستور عام ہے، بہت سارے مرد اور عورتیں نذر مان لیتی ہیں ، کہ فلاں کام ہوگیایابیمار تندرست ہوگیا توجانور ذبح کریں گے، سوال یہ ہے کہ اس طرح جب وہ کام ہوجائے توجانور ذبح کرکے اس کا گوشت خود کھاسکتے ہیں یانہیں؟ہمارے ہاں عام طورپراس طرح نذرکے بعد اس جانورکو ذبح کرکے سب کی دعوت کرتے ہیں۔
جواب:نذرکاگوشت خودکھانادرست نہیں ہے ،اسے صدقہ کرناواجب ہے، اور صدقہ غریب محتاج لوگوں پر کیاجائے،خود کھانااور صاحب حیثیت رشتہ داروں کودینادرست نہیں اس سے نذر پوری نہیں ہوگی۔(بدائع الصنائع،کتاب الزکوة،مصارف الزکوة، 2/157، ط:رشیدیہ-فتاویٰ ہندیہ،کتاب الاضحیة، 5/300،ط:رشیدیہ)
شام کے وقت ناخن کاٹنے کا حکم
سوال:کیاشام کے وقت ناخن کاٹنامنع ہے ؟
جواب:شام کے اوقات میں بھی ناخن کاٹ سکتے ہیں شرعاً کوئی ممانعت نہیں۔
ناخن کاٹنے سے وضو نہیں ٹوٹتا
سوال:ایک آدمی باوضوہو اور اس حال میں وہ ناخن کاٹے توکیاناخن کاٹنے کی وجہ سے اسے دوبارہ وضو کرناہوگا؟
جواب:ناخن کاٹنے کے بعد بھی طہارت باقی رہتی ہے، اس لیے وضوکرنے کے بعد اگرناخن کاٹے جائیں تواس سے وضوختم نہیں ہوتااور نہ ہی دوبارہ وضوکی ضرورت ہے۔
ایک آیت مبارکہ کی تشریح
سوال:قرآن کریم کی آیت ”واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا“میں ”حبل“رسی سے کیا مراد ہے؟
جواب:مذکورہ بالا آیت کریمہ میں ”حبل“رسی سے مراد قرآن کریم ہے،چنانچہ تفسیرعثمانی میں ہے:”یعنی سب مل کر قرآن کو مضبوط تھامے رہو جو خدا کی مضبوط رسی ہے۔ یہ رسی ٹوٹ تو نہیں سکتی ہاں چھوٹ سکتی ہے۔ اگر سب مل کر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے، کوئی شیطان شر انگیزی میں کامیاب نہ ہو سکے گا اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل اختلال ہو جائے گی۔ قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیاتِ تازہ حاصل کرتی ہے لیکن تمسک بالقرآن کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کو اپنی آراءو اہواءکا تختہ مشق بنا لیا جائے، بلکہ قرآن کریم کا مطلب وہی معتبر ہوگا جو احادیث صحیحہ اور سلف صالحین کی متفقہ تصریحات کے خلاف نہ ہو“ ۔معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:”اللہ کی رسی سے مراد قرآن مجید ہے ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کتاب اللّٰہ ھو حبل اللّٰہ الممدود من السماءالی الارض ۔ یعنی کتاب اللہ اللہ تعالی کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے ۔ (ابن کثیر) زید بن ارقمؓ کی روایت میں” حبل اللہ ہو القرآن“کے الفاظ آئے ہیں ۔ (ابن کثیر)محاورہ عربی میں ”حبل “سے مراد عہد بھی ہوتا ہے اور مطلقا ہر وہ شے جو ذریعہ یا وسیلہ کا کام دے سکے ، قرآن کو یا دین کو رسی سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ تعالی سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن کے اس ایک جملہ میں حکیمانہ اصول بتلائے گئے ، ایک یہ کہ ہر انسان پر لازم ہے کہ اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے نظام حیات یعنی قرآن پر مضبوطی سے عامل ہو ، دوسری یہ کہ سب مسلمان ملکر اس پر عمل کریں، جس کا نتیجہ لازمی یہ ہے کہ مسلمان سب باہم متفق و متحد اور منظم ہوجائیں، جیسے کوئی جماعت ایک رسی کو پکڑے ہوئے ہو تو پوری جماعت ایک جسم واحد بن جاتی ہے “۔
اپنے سوالات اس پتے پر بھیجیں:
انچارج ”فہم دین“ روزنامہ جرا¿ت ‘ ٹریڈ سینٹر ‘ نویں منزل 907‘ آئی آئی چندریگر روڈ کراچی
masail.juraat@gmail.com


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں