
اصلاح معاشرہ میں ‘تعلیماتِ نبوی ﷺ کی اہمیت
شیئر کریں
مفتی ابوہریرہ محی الدین
آج ہمارا معاشرہ کئی قسم کی برائیوں میں مبتلا ہے مثلا ًذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش، لوٹ مار، ڈاکا زنی، انسانوں کا اغوائ، قتل و غارت گری، وعدہ خلافی، خیانت، بددیانتی، چغل خوری، بہتان، غیبت، رشوت خوری، جوا اور سود وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ معاشرہ ان برائیوں سے کیسے پاک ہو؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ سربراہانِ معاشرہ اپنے کردار کو درست کریں اور صرف ایک برائی کو چھوڑنے کی کوشش کریں تو معاشرہ بتدریج اصلاح کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ لیکن اس وقت ہم انفرادی سطح پر معاشرہ کی درستگی کے حوالہ سے بات کریں گے کہ ہم صرف اخلاق کی اچھائی سے ہی معاشرے کی اصلاح کرسکتے ہیں اور پاکستان کو ان تمام برائیوں سے پاک کرکے صحیح معنوں میں پاکستان بناسکتے ہیں۔
یہ بات قطعی طور پر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ اسلام کی آمد کے بعد اب ہمیں کسی اور مصلح یا رہبر کی ضرورت نہیں رہی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں واضح طور حکم دیا ہے کہ اﷲ کی رضا اور خوشنودی صرف رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی ہی سے حاصل ہوسکتی ہے، بلکہ خدا نے ہم سے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ تم اﷲ کے رسول کی پیروی کروگے تو اﷲ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔ کسی انسان کے لیے اس سے زیادہ بڑا مرتبہ اور کیا ہوسکتا کہ خود اﷲ اس سے محبت کرنے لگے۔
تو اصلاحِ معاشرہ کے لیے ہمیں سب سے پہلے اتباعِ رسول کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ کے آخری رسول کی پوری زندگی ہمارے اسلاف نے ہمارے لیے محفوظ کردی ہے۔ اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو کامیابی حاصل کی وہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا اور سب سے اہم واقعہ ہے۔ عرب کے باشندے مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے، جہالت و سرکشی نے انہیں ایسے اوصاف سے محروم کردیا تھا جو پر امن معاشرہ مہیا کرتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں اﷲ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذمہ یہ کام لگایا کہ اس معاشرے کو برائیوں سے پاک کریں اور اس کی اس طرز پر اصلاح کریں کہ یہ دنیا کا مثالی معاشرہ بن جائے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جن بنیادی اصولوں پر عمل کیاان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جس پر آپ خود عمل نہ فرماتے ہوں یعنی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا، جو بات ارشاد فرماتے تھے اس پر عمل بھی فرماتے تھے۔ تو معلوم ہوا کہ اصلاح معاشرہ کی کوئی کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اصلاح کرنے والا خود اس پر عمل نہ کرتا ہو۔ رسول اﷲ کی تعلیم اور اصلاح معاشرہ کی یہ کوشش ایسی بار آور ثابت ہوئی کہ لوگوں کی کایا پلٹ گئی۔ آپ سے قبل سقراط، افلاطون، ارسطو اور بیسیوں دوسرے حکماءاور مصلحین جو وعظ و نصیحت کرتے تھے اور انہوں نے عقل و دانائی کی بنیاد پر جو شان دار عمارتیں کھڑی کی تھیں ان کا معاشرے پر کوئی اثر اس لیے نہیں پڑا کہ وہ دوسروں کو تو روشنی دکھاتے تھے لیکن خود تاریکی سے باہر نہیں آئے تھے، وہ رحم و محبت کا سبق پڑھاتے رہے، لیکن خود غریبوں پر رحم کھانے سے عاری تھے۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارے آج کے معاشرہ میں بھی سیاست دان اصلاح کی تلقین کرتے رہتے ہیں، وعظ و تبلیغ کا ایک سلسلہ ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے برابر جاری ہے، لیکن ان تمام کوششوں کا بظاہر کوئی مثبت نتیجہ نظر نہیں آتا۔ اس کی بہت بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم جو بات یا کام کرنے کو کہتے ہیں خود اسے نہیں کرتے۔ چونکہ یہ طریقہ¿ اصلاح سنتِ رسول کے خلاف ہے، اس لیے کبھی بار آور ثابت نہیں ہوسکتا۔ اسلام میں اصلاحِ معاشرہ کا یہی بنیادی نکتہ ہے کہ جو دوسروں کو کہو خود بھی اس پر عمل کرو۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اوائل زندگی ہی سے سچائی اور راست بازی پر سختی کے ساتھ عمل کیا اور مسلمانوں کو جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرتے رہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اپنے صحابہ کو بھی اس فعل سے احتراز کرنے کی تاکید فرماتے رہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت بعثت سے قبل بھی اس قدر نمایاں تھی کہ کفار و مشرکین بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو صادق اور امین مانتے تھے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ معاشرے کی تمام برائیوں میں سرفہرست جھوٹ ہے۔ اسلام کی لغت کا سخت ترین لفظ ”لعنت“ ہے، قرآن پاک میں اس کا مستحق شیطان اور اس کے بعد مشرک، کافر اور منافق کو تو بتایا گیا ہے لیکن مومن کو بھی جھوٹ کے کسی فعل کی بناءپر لعنت سے یاد کیاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹ ایسی برائی ہے کہ اگر کسی مسلمان سے بھی سرزد ہو تو اس کے لیے لعنت کی وعید ہے۔
اب جب کہ ہم نے بگاڑ کا تعین کر لیا اور اس کے تفصیلی عناصر سے بھی واقفیت حاصل کر لی تو ہمارے لئے اصلاحِ معاشرہ کے اقدام کا تعین کرنا بھی نہایت آسان ہوگیا ہے۔ اصل میں اصلاح نام ہے درستی یا ازالہ¿ فساد کا لہٰذا معاشرہ میں جہاں جہاں بھی فساد ہو گا اس کو درست کرنے کا نام اصلاح ہو گا۔اسلام جہاں اجتماعی فلاح کا ضامن ہے وہیں افراد کو بھی نظر انداز نہیں کرتا بلکہ فرد کی اصلاح کو اصلاح کا نقطہ¿ آغاز قرار دیتا ہے کیونکہ فرد معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ لہٰذا فرد کی اصلاح دراصل معاشرہ کی اصلاح ہے۔ انفرادی سطح پر اصلاحِ معاشرہ کے لئے درج ذیل اقدام مو¿ثر ثابت ہو سکتے ہیں:
1۔سب سے پہلے افراد کے ذہنوں میں عقیدہ کی درستگی پر محنت کرنی ہوگی۔ اسلام میں خدا کی وحدانیت کا تصور اور عقیدہ¿آخرت کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے تاکہ لوگ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے افعال میں خداوند کریم کے سامنے جواب دہی کے تصور کو مردہ نہ ہونے دیں اور صحیح نصب العین اور اعلیٰ و ارفع اقدارِ حیات کے حصول کی خاطر کوشاں رہیں۔
2۔معاشرے کے اندر ادارہ سازی کی جائے جو فساد کو دور کرنے کی قابلِ عمل تدابیر اختیار کرے۔ دینی نقطہ¿ نظر سے اس ادارہ کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کہہ سکتے ہیں لیکن چونکہ اصل میں یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے لہٰذا ہم اس ادارہ کو ترغیب و ترہیب کے نام سے بھی موسوم کرسکتے ہیں۔
3۔ مندرجہ بالا ادارہ کے ذریعہ معاشرے میں اجتماعی شعور بیدار کیا جائے تاکہ کوئی شخص بھی بگاڑ کی طرف مائل نہ ہو۔
4۔ تعلیم و تبلیغ کی وہ تمام صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں جو دورِ حاضر میں نشر و اشاعت کے کام آرہی ہیں۔ مثلاً اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن پر مذاکرات وغیرہ کے ذریعہ سے دینی اقدار اور اسلامی طرزِ حیات کی تفہیم کو فروغ دینے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دورِ حاضر میں یہ ذرائع عوامی رجحانات کو بدلنے اور نیا رخ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، معاشرے کے اندر غلط رجحانات کی ترویج میں ان اداروں کا بڑا حصہ ہے۔
5۔ اپنے اخلاق کو عمدہ نمونہ اور مثال بناکر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ اس نہج پر پورے معاشرے کو ڈھالا جا سکے۔ اصلاح معاشرہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ نمونے کے چند افراد پر مشتمل ایک ایسی جماعت قائم ہونی چاہئے جس کو سامنے رکھ کر پورے معاشرے کو استوار کیا جا سکے۔
6۔معاشرے میں مسجد کی دینی اور سماجی حیثیت کو اجاگر کیا جائے اور اصلاح معاشرہ کے لئے مسجد کو مرکزی حیثیت دی جائے کیونکہ کسی اجتماعی کام کے لئے ایک مرکز کا ہونا ضروری ہے۔
7۔تعلیمی ادارے معاشرے میں اہمیت کے حامل ہیں لہٰذا اصلاحِ معاشرہ میں اساتذہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے ایسے اساتذہ کا انتظام کیا جائے جو طالب علموں میں اسلامی اقدار کو راسخ کریں۔ اس کے علاوہ تعلیمی نصاب میں ایسی تمام چیزیں جو روحِ دین کے منافی ہوں ان کو پڑھاتے وقت تنقیدی طریقہ اختیار کیا جائے تاکہ طالب علم ان کی حقیقت سے واقف ہو جائیں، نیز ان داروں میں بنیادی دینی تعلیمات کا انتظام بھی کیا جائے تاکہ طلباءاسلام کی اصلیت اور اس کی روح سے مکمل واقفیت حاصل کر سکیں۔
ان تمام گذارشات کے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرہ میں اسلامی نظام کی تشکیل اس طرح ہو کہ غیر اسلامی نظریات کی بجائے اسلامی تعلیمات کی گرفت مضبوط ہو۔ اور اس کے لیے سب سے اہم بات جس کی واضح طور پربار بار نشان دہی کی گئی ہے یہ ہے کہ ہر فرد سب سے پہلے اپنی اصلاح کے اصول کو اپنائے، دوسروں کی اصلاح کرنے سے پہلے اپنے اخلاق کی اصلاح کرے۔ یہ اصلاح معاشرہ کا سب سے بنیادی اصول ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کا آغاز انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ پہلے اپنی اصلاح کرنے سے ان تمام پیچیدگیوں کا بھی علم ہوجاتا ہے جو دوسروں کی اصلاح کرنے کی صورت میں پیش آسکتی ہیں۔ سب سے پہلے اپنی اصلاح کے اصول پر عمل کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ افراد کے سامنے اصلاح کا ایک معیاری تصور واضح صورت میں نمایاں ہوتا ہے اور ہر شخص اس معیار کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتا چلا جاتا ہے۔ جس معاشرہ کا پورا نظام اسلامی ہو، جس معاشرہ کے افراد روحِ دین سے سرشار ہوں، جس معاشرہ میں غیر اسلامی نظریات سر نہ ا±ٹھا سکیں تو یقین رکھیں کہ اس معاشرہ کی فلاح و ترقی اور اس معاشرہ پر خدا کی رحمتوں کے نزول کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔