سعودی عرب کی سرمایہ کاری کے لیے منصوبہ کہاں ہے؟
شیئر کریں
پاکستان اپنے ابتدائی دنوں میں انتہائی پرکشش ملک تصور کیا جاتا تھا، اس ملک میں ایک اچھا معاشرہ اور معیشت ترقی پزیر تھی۔اپنے قیام کی دوسری دہائی کے آخر تک پاکستان کی اقتصادی ترقی ہمسایہ ملکوں سے زیادہ تھی اور اس کی صنعتی ترقی کی رفتار نوآبادیاتی دور کے بعد معرض وجود میں آنے والے کسی بھی ملک سے زیادہ تھی۔ کسی زمانے میں پاکستان کی ساکھ ایک متحرک معاشرے کی تھی۔ معاشرہ رنگا رنگ تنوع، فنون لطیفہ، شاعری، لوگ اور صوفی موسیقی کی تخلیق کے عمل میں مصروف تھا۔پاکستان پرامن ملک تھا جس کی آبادی آج کے مقابلے میں ایک چوتھائی سے بھی کم تھی۔ زراعت اور صنعتی ترقی کے لیے کافی آبی وسائل موجود تھے۔70 کی دہائی کے آخر تک دنیا بھر کے خاص طور پر یورپی ممالک سے ہزاروں سیاح ہمارے بازاروں، ثقافتی مقامات پر اور پہاڑی ٹریلز پر نظر آتے تھے، لیکن کچھ عرصے بعد ہی ہمارے تمام مخلص رہنما ہم سے بچھڑ گئے اور اس کے ساتھ ہی مسائل بھی بڑھنا شروع ہوگئے ،اس سے ظاہرہوتاہے کہ اس ملک کے مسائل کی جڑیں ملک کی متنازع سیاسی تاریخ میں ہیں، جہاں جھگڑے، اشرافیہ کی بدعنوانی ،تشدد اور انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر موجود ہے۔ملک نے پچھلی نصف صدی میں شورشیں، سیاسی تشدد اور داخلی انتشار کا سامنا کیا ہے جس کے نتیجے میں آج ہم ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔حالات کی نزاکت ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آرہی۔اب حالات ہمیں نازک نہیں خطرناک موڑ پر لے آئے ہیں۔ اب بعض حلقوں کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کے قریب نہیں پہنچا بلکہ ڈیفالٹ کر چکا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے اپنے مفادات کے تحت اسے ڈیفالٹ ظاہر نہیں کررہے ہیں۔ ہم سرکاری طور پر اس بات کا اعتراف نہیں کر رہے کہ اس وقت پاکستان کے پاس ملک کا معاشی نظام چلانے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف بھی پاکستان سے زیادہ خوش نہیں ہے۔ اسی لیے اس کی طرف سے شرائطپر شرائط عائد کی جارہی ہیں اور حکومت کی جانب سے عوام کو دی جانے والی معمولی رعایت پر بھی اعتراض جڑ دیاجاتاہے۔ ابھی ہم نے اپنے قرضوں کی ادائیگی بھی نہیں کی ہے اور مزید قرضے لے رہے ہیں اسی لیے کہا جارہا ہے کہ ہم ڈیفالٹ کے قریب نہیں بلکہ ڈیفالٹ کر چکے ہیں مگر سیاسی وجوہات کی بنیاد پر اس کا اعتراف نہیں کیا جا رہا۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ ہم نے 3دوست ممالک کے 16 بلین ڈالرز فوری ادا کرنے تھے جو ادا نہیں کر پائے اور ان سے بمشکل مہلت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ ان دوست ممالک نے یہ رقم پاکستان کے خزانے میں اس لیے جمع کرا رکھی تھی کہ پاکستان کا کیش فلو چلتا رہے۔ اس میں چین کے 8 ارب ڈالرز ہیں۔ 4 ارب ڈالرز اکاؤنٹ میں رکھے ہوئے ہیں اور 4 ارب ڈالرز کے قرضے دیے ہوئے ہیں پھر سعودی عرب کے 15 ارب ڈالرز ہیں۔ اسی طرح 3 ارب ڈالرز یو اے ای کے ا سٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں رکھے ہوے ہیں تاکہ ہمارا کیش فلو چلتا رہے۔ یہ16 ارب ڈالر ہمیں گزشتہ جون اور جولائی میں ادا کرنے تھے مگر ہم ادا نہیں کر پائے۔ جس کے بعد ہم نے ان ممالک سے درخواست کی کہ ان قرضوں کو رول اوور کر دیا جائے۔ہمارے وزیر خزانہ گزشتہ دنوں چین گئے تھے اور درخواست کی تھی کہ اس سلسلے میں ہمیں 3سال اور دے دیں فی الحال ادائیگی ممکن نہیں۔اس پر چینی حکومت نے سوال کیا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ پلان شیئر کریں کہ 3سال کے بعد کیا ہوگا۔ 3 سال کے بعد بھی اگر ادائیگی کے قابل نہیں ہوتے تو پھر کیسے ادائیگی ہوگی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں مہلت کیسے ملے گی؟ اس کے لیے یہی راستہ اختیار کیا جاسکتا تھا کہ ان ممالک سے ایک دفعہ پھر درخواست کی گئی جس میں اطلاعات کے مطابق پرانی دوستی کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ پرانی دوستی کی لاج رکھتے ہوئے ہمیں مزید مہلت دے دیں تاکہ اس دوران ہم حالات کی بہتری کے لیے کام کر سکیں۔ اطلاعات کے مطابق اس طرح سے کچھ مہلت مل گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مہلت ملنے کے باوجود حالات میں بہتری نہ آسکی تو کیا ہوگا؟ کیونکہ ہمارے اکاؤنٹ میں تو پیسے نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ قرضہ ہے کہ سود در سود بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں ہمارے پاس کوئی پلان بھی نہیں ہے جس سے ہم اپنی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کر سکیں۔ آئی ایم ایف اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہا ہے، اس صورت حال کے پیش نظر ضروری ہے کہ ہم معاشی استحکام کے لیے کوئی پلان بنائیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران معاشی استحکام کے لیے زبانی دعوے تو بہت کرتے رہے ہیں لیکن اس گمبھیر صورتحال سے نکلنے کیلئے کوئی پلان نہیں بناسکے۔
وزیراعظم کے حالیہ سعودی عرب اور قطر کے دوروں میں دونوں ممالک نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے اور سعودی عرب نے سرمایہ
کاری کے حجم میں اضافہ کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے وزیراعظم سعودی حکومت کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی اس یقین
دہانی کو اپنی بہت بڑی کامیابی ظاہر کررہے ہیں لیکن عوام کو یہ نہیں بتایا جارہاہے کہ سعودی عرب پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کیلئے
کوئی بڑا مضبوط اور مربوط پلان طلب کررہا ہے۔ سعودی عرب کا کہناہے چھوٹی چھوٹی سرمایہ کاری کا فائدہ کوئی نہیں ہے ،سعودی عرب کی
جانب سے سرمایہ کاری کاپلان طلب کئے جانے کے باوجود ہماری وزارت صنعت اور خزانہ نے اطلاعات کے مطابق سرمایہ کاری پلان کی
تیاری کا ابھی تک آغاز تک نہیں کیا گویاہماری طرف سے اس سلسلے میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ مسقبل میں بھی اس حوالے سے کچھ نہیں
کہا جا سکتا۔ اطلاعات کے مطابق سعودی عرب قطر اور دوسرے خلیجی ملکوں کی سرمایہ کاری کیلئے پاکستان کے صنعت کاروں اور تاجروں
ماہرین معاشیات کو کو نظر انداز کرکے ایسی غیر ملکی کمپنیوں کے ماہرین سے پلاننگ اور تجاویز لی جارہی ہیں جو پاکستان کے حقیقی مسائل کا
ادراک ہی نہیں رکھتیں۔جبکہ یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کے تاجروں اور صنعت کاروں میں ایسے قابل اور باصلاحیت لوگ موجود ہیں جو
پاکستان میں محدود وسائل اور انفرااسٹرکچر کی شدید کمی کے باوجود منافع بخش بنیادوں پرکاروبار اور صنعتیں چلارہے ہیں اور نئے صنعتی ادارے
لگانے اور انھیں منافع بخش بنیادوں پر چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔فی الوقت ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے تمام تر حالات کا جائزہ لے
کر معاشی منصوبہ بندی کی جائے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا وہ کون سے حالات تھے جن کے سبب 1200 سے زائد کمپنیاں پاکستان چھوڑ کر دبئی منتقل
ہوگئیں؟ اور خود پاکستانی صنعت کار اپنی صنعتیں کسی دوسرے ملک منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے بیشتر صنعتی
ادارے بند کیوں پڑے ہیں؟ تاجر حضرات سڑکوں پر ہاحتجاج کیوں کر رہے ہیں ان کو منانے کیلئے ہمارے آرمی چیف کو اپنی مصروفیات
چھوڑ کر کیوں آنا پڑرہاہے۔ ان کے مسائل کیا ہیں؟ ہماری ہنر مند افرادی قوت کی کھپت کیسے ہوگی؟ اعلیٰ تعلیم کے بعد میدان میں آنے
والے نوجوانوں کے لیے مواقع کیسے پیدا کرنے ہیں؟ جب تک ان امور کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا تب تک مربوط اور موثر معاشی پالیسی
ترتیب نہیں دی جاسکتی۔ پوری دنیا میں ڈالر کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہے وہ ہے برآمدات مگر برآمدات کو کیسے بڑھایا جائے ہماری
برآمدات اس لیے ختم ہو کے رہ گئی ہیں کہ ہمارے ہاں کسی قسم کی پروڈکشن نہیں ہورہی۔ سارے صنعتی ادارے غیر فعال ہوچکے ہیں کیونکہ ان
اداروں کی ضرورت کے مطابق بجلی، گیس، پٹرول اور گیس مہنگی اور کم یاب ہونے کے سبب دستیاب نہیں ہے۔ اگر دستیاب ہے بھی تو اتنی مہنگی
ہے کہ جو مال یہاں تیار ہوتا ہے وہ بیرونی منڈیوں میں اپنی زیادہ قیمت کی وجہ سے اپنی جگہ نہیں بنا پارہا۔ ایک شے اگر چین یا کسی دوسرے
ملک کی ہے وہ 5 یا10روپے کی دستیاب ہے جب کہ وہی پاکستانی شے کی قیمت اس سے تین گنا نہیں تو دگنی ضرور ہوتی ہے کیونکہ انرجی
سورسز کے مہنگے ہونے کے سبب پروڈکشن کاسٹ مہنگی ہوجاتی ہے اس طرح ہم برآمدات کیسے بڑھا سکتے ہیں؟ برآمدات میں اضافہ نہیں ہوگا
تو ڈالر کیسے آئیں گے،اس صورت حال کی وجہ سے اب صرف تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصول کر کے اور اشیائے ضرورت پر ٹیکس لگا معاملات
کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان حالات میں بھی کسی قسم کا احساس نہیں کیا جا رہا۔ افسر شاہی اور وزرا کے اللے تللوں پر بے
دریغ خرچہ کیا جارہاہے۔ مہنگی سے مہنگی گاڑیاں خریدی جارہی ہیں،وزرا کیلئے خریدی گئی نئی گاڑیاں اس کا ثبوت ہیں۔تنخواہوں میں اضافہ کیا
گیا ہے۔ پر تعیش زندگی کے تمام لوازمات فراہم کیے جارہے ہیں۔ارباب حکومت کے عمل سے ظاہرہوتاہے کہ حالات کی ابتری کا رونا
صرف عام اور غریب آدمی کے لیے ہے۔اس صورت حال میں عام آدمی کی مشکلات میں کمی کیسے ہو سکتی ہے؟ محض عارضی اور وقتی سہاروں
سے مستقل بیماری کا علاج تو نہیں ہو سکتا۔ آپ اصلاح احوال کے نام پر پرانی اتھارٹی کو ختم کرکے نئی اتھارٹیز بنا دیتے ہیں جس پر دوبارہ نئے
سرے سے اخراجات ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور وہ اخراجات نہ صرف بڑھ جاتے ہیں بلکہ نتیجہ بھی کچھ نہیں نکلتا ماسوائے چار دن کی ذاتی
تشہیر۔اس وقت ملک مکمل معاشی مسائل کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ حکومت’ ریاستی ادارے اور خواص عدم توازن کا شکار ہو چکے ہیں۔ پورانظام اور افراد شکستگی کا شکار ہیں۔ اتنا اندھیرا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔گزشتہ 60-65 برسوں میں اتنی بدحالی دیکھنے میں نہیں آئی تھی جو دو ڈھائی برس میں ملک کا خاصہ بن چکی ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے اور عام لوگوں کے دل میں اشرافیہ کے خلاف نفرت پنپ چکی ہے۔ یہ نفرت روز بروز نہیں’ بلکہ ہر لمحہ بڑھتی جا رہی ہے۔ ملک پر قابض سیاسی حکومتیں اس امر کو بخوبی جان گئی ہیں۔ وزیراعظم سے لے کر وزرا اور عام ورکر تک اس منفی عنصر کو پہچان چکا ہے۔ مگر وہ بیساکھیوں کے سہارے کھڑے ہیں۔ سیاسی معذور ہونے کے باوجود دوڑ میں ورلڈ چمپئن بننا چاہتے ہیں۔ ایک ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے پوری دنیا کی نظریں ہم پر لگی ہوئی ہیں لیکن ہماری سیاسی حکومتوں کے قول وعمل کے سبب اب پاکستان دنیا کے لیے مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ مگر اس بدنمائی کو لیپا پوتی کر کے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صورت حال دیکھ کر لگتا ہے حالات مزید خراب ہونگے، اس کھیل کا انجام کیا ہو گا۔ اس کا تصور کرتے ہوئے بھی دل دہلتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم اٹھتے بیٹھتے کفایت شعاری کا راگ الاپتے ہیں اور حکومت کے ہڈی بردار ڈھنڈوچی اس سر میں سر ملانے کی کوشش میں زمین وآسمان کے قلابے ملارہے ہیں جبکہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم اور ان کے سیاسی رفقا جن میں اطلاعات کے مطابق ان کے خاندان کے کچھ لوگ بھی شامل تھے طیارہ بھر کر اقوام متحدہ کے جنرل سیشن کے لیے نیویارک تشریف لے جاتے ہیں اقوام متحدہ میں
پاکستان کے مستقل مندوب اور ان کا عملہ موجود ہے لیکن اس دورے میں وزیر اطلاعات یہاں تک کہ مبینہ طورپر بعض رشتہ داروں کو مشیروں کے نام پر وفد میں شامل کرلیاگیا تاکہ انھیں سرکاری خرچ پر سیر سپاٹا کرایا جاسکے اب وزیراعظم ہاؤس یہ بتانے کو تیار نہیں کہ اقوام متحدہ کے ایک گفتند شنیدن والے اجلاس میں وزیر اطلاعات کی کیا ضرورت تھی کفایت شعاری کا درس دینے والے وزیراعظم نے جس ہوٹل میں قیام فرمایا اس کا یومیہ کرایہ’ 5 سے7 ہزار ڈالر تک ہے۔ یہ 5 ستارہ ہوٹل’ امیر امریکی لوگوں کے لیے بھی تصور سے باہر ہے۔ دنیا سے بہت سے وزرائے اعظم اور حکومتی ارکان’ اقوام متحدہ کے اس بے معنی سے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ کئی ممالک کے وزیراعظم’ سرکاری پیسوں کو برباد کرنے کے بجائے’ اپنے ہم وطنوں کے گھروں میں قیام پذیر تھے۔لیکن پاکستان جیسے غریب ملک کے حکمرانوں نے مین ہیٹن کے قیمتی ترین ہوٹل سے کم کسی جگہ قیام کرنا گوارا نہیں کیا۔ وزرا کیلئے نئی لگژری گاڑیاں خرید لی گئیں اور پنجاب کی بیوروکریسی کو خوش کرنے کیلئے ان کیلئے بھی لگژری گاڑیوں کی پوری کھیپ خریدی گئی اس خریداری سے ایک طرف بیوروکریسی پنجاب حکومت کی ممنون احسان ہوگئی اور دوسری طرح کک بیکس بھی اکاؤنٹ میں منتقل ہوگیاہو گا، اس سے زیادہ قومی توہین مزید کیا ہو سکتی ہے۔ حکمرانوں کو اس طرح ملکی خزانہ لٹاتے وقت یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارا موجودہ Hybridنظام’ اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر ان لوگوں نے اپنی خو نہ بدلی تو چند سیاست دان’ مزید دربدر ہونگے۔ اور ملک میں قیامت خیز عدم توازن’ تشدد کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ اس وقت شاید کوئی نہیں بچے گا اور نہ ہی کوئی مزید سازش۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ اس عدم توازن کو فہم و فراست سے کم کرنے کی کوشش کریں شاید بہتری کی کوئی صورت نکل آئے۔