میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انتخابات کے انعقاد کا مقدمہ

انتخابات کے انعقاد کا مقدمہ

جرات ڈیسک
اتوار, ۷ مئی ۲۰۲۳

شیئر کریں

سپریم کورٹ میں ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا ہے کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آئین استعمال کر سکتے ہیں، انتخابات والے فیصلے پر نظرِ ثانی کا وقت اب گزر چکا۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عمل داری کا معاملہ ہے، 90 دن میں انتخابات کرانے پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے،مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی، آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کے لیے آئین استعمال کر سکتے ہیں، عدالت اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ چیف جسٹس نے خیال ظاہر کیا کہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے، ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہوا ہے، 6 فوجی جوان ہم نے گزشتہ روز کھو دیے، یہ ہمارا بہت بڑا نقصان ہے، ملک کی خاطر بہت بڑی قربانیاں دی جا رہی ہیں۔معاشی حالات کے علاوہ ہمیں آج سیکورٹی کا اہم مسئلہ بھی درپیش ہے، اگر سیاست دانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو آئین کہاں جائے گا؟ سپریم کورٹ میں الیکشن کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران ھکومت نے مذاکرات کے لیے سپریم کورٹ سے مزید وقت مانگ لیا اور عدالتِ عظمیٰ سے انتخابات سے متعلق کوئی ڈائریکشن نہ دینے کی بھی استدعا کی چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا کسی قسم کی کوئی ہدایت کا ارادہ نہیں،ہم مذاکرات میں مداخلت نہیں کریں گے نہ کوئی ہدایات دیں گے،، مذاکرات کرنے ہیں تو آغاز کر دیا جائے، مذاکرات نہ ہوئے تو ایک دو روز بعد اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے رات کو درخواست تیار کی جس کو نمبر لگائے بغیر ہم سن رہے ہیں، ہم اس معاملے میں صرف سہولت کاری کرنا چاہتے ہیں، ایک ہی روز انتخابات کی تاریخ پر اتفاقِ رائے ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ انتخابات کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے ان ریمارکس سے ظاہر ہوتاہے کہ چیف جسٹس ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے کسی نہ کسی طوربحفاظت نکالنے کے خواہاں ہیں لیکن جیسا کہ چیف جسٹس نے خیال ظاہر کیا ہے نظر بظاہر حکومت انتخابات کو کسی نہ کسی طورپر ٹالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اپنے اس مقصد کی تکمیل کیلئے کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہے۔حکومت اور عدلیہ کے درمیان یہ اختلافات اپنی نوعیت کے نئے نہیں ہیں،مسلم لیگ ن کی پوری تاریخ عدلیہ اور فوج سے محاذ آرائی پر مبنی ہے،مسلم لیگ کے قائد نواز شریف نے اپنے سابقہ دور میں عدلیہ کو بے وقعت کرنے کیلئے جو کھیل کھیلے اور عدلیہ کو دباؤ میں لانے کیلئے عدالت عظمیٰ پر جس طرح حملہ کرکے توڑ پھوڑ مچائی تھی وہ ابھی لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہے اور ان کے اثرات کی بازگشت آج تک ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔پاکستان کی قومی اسمبلی سے آج کل بھی جس قسم کے بیانات اور اقدامات سامنے آ رہے ہیں ان کے بعد عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان ایک غیر معمولی محاذ آرائی کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں رہا۔سوال یہ ہے کہ صرف ایک سال قبل اسی سپریم کورٹ کے حکم نے جب موجودہ قومی اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچایا جس کے نتیجے میں تحریک انصاف حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور پی ڈی ایم برسراقتدار آئی اس وقت رات گئے عدالت لگانے کے چیف جسٹس کے فیصلے کو آئین کے عین مطابق قرار دیاگیاتھا،لیکن اب قومی اسمبلی میں چیف جسٹس کو طلب کرنے کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔اس وقت عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہاہے کہ پارلیمان اور عدلیہ کی اس لڑائی میں اگلہ مرحلہ کیا ہو گا اور کیا سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مطالبے کے مطابق قومی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ چیف جسٹس کو طلب کر سکے۔چیف جسٹس کو قومی اسمبلی میں بلانے کامطالبہ کرنے والے شاہد خاقان عباسی کو یہ معلوم نہیں رہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 68 کے مطابق پاکستان کی مجلس شوری یعنی پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے ججوں پر فرائض کی ادائیگی کے دوران ان کے کنڈکٹ پر بحث کی ممانعت ہے۔ آئین میں اداروں کے اختیارات کو طے کر دیا گیا، جس کے تحت ایگزیکٹیو، پارلیمان اور عدلیہ کا اپنا اپنا کردار ہے۔آئین میں ایسی کوئی چیز نہیں لکھی جو پارلیمان کو یہ اختیار دیتی ہو کہ وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو طلب کر سکے۔دراصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت الیکشن نہیں کروانا چاہتی اور یہ سب کچھ اسی لیے کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کو روکا جائے۔ تاہم اس کھینچاتانی اور حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو سپرکورٹ کے مد مقابل کھڑا کرنے کی کوششوں سے اب اس بات کا خدشہ بڑھ گیاہے کہ سپریم کورٹ وزیر اعظم یا کابینہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کر سکتی ہے اور اسی لیے قومی اسمبلی اپنی طاقت دکھا رہی ہے دراصل حکومت عدالت کو باور کرانا چاہتی ہے کہ ہم چپ نہیں رہیں گے۔
فی الوقت درحقیقت پاکستان اپنے وجود کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس بھنور سے نکلنے کے لیے پاکستان کا سیاسی نظام تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ازسرِ نو آئینی اصلاحات کمیشن بنا کر عوامی مفاد کے تحت ترمیم کر کے ملک میں ایسا انتخابی نظام وضع کیا جائے جس سے ملک میں استحکام پیدا ہونے کے اثرات سامنے آئیں اور انتخابی نتائج کو تمام اسٹیک ہولڈرز تسلیم کر یں تاکہ ملک میں مضبوط سیاسی حکومت تشکیل دی جائے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل کے لیے ایسا طریقہ وضع کیا جائے کہ کسی بھی جماعت کی طرف سے تحفظات کا اظہار نہ کیا جائے لیکن یہ سب کچھ بھی عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی حکومت ہی آئین میں ضروری ترامیم کے بعد کرسکتی ہے۔ ملک میں صاف گو، جاندار اور باوقار شخصیت کا فقدان نہیں ہے، صرف نیک نیتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلہ کرنا ہوگا۔پاکستان کے انتخابی نظام نے سوائے بدعنوانی، قرضے معاف کروانے اور بیرونِ ممالک اثاثے بنانے کے قوم کو کچھ نہیں دیا۔ اس آئین شکنی کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ملک میں سیاسی انتشار نہایت تشویش ناک ہے۔ معاشی استحکام اور عوام کی فلاح کے لیے سیاسی استحکام لازمی ہے۔ اتحادی حکومت اور معزول حکومت کے درمیان مذاکرات کا فیصلہ ایسے ماحول میں سامنے آیا تھا جب حکومت اور حزب اختلاف میں خلیج بہت بڑھ گئی تھی، دونوں طرف سے آگ اُگلتے بیانات دیے جارہے تھے۔ یہ منظرنامہ اب بھی موجود ہے، اس کے باوجود حکومت اور حزب اختلاف دونوں نے نہ صرف مذاکراتی ٹیم کا تعین کیا بلکہ مذاکراتی عمل بھی شروع ہوگیا۔ اسی دوران میں عدالت عظمیٰ میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک دن اور ایک تاریخ کا مقدمہ بھی آگیا جبکہ 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے کا عدالت عظمیٰ کا فیصلہ موجود ہے، جس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتے لیکن صورت حال اس کے قطعی برعکس نظر آرہی ہے۔حکومتی جماعت کے رہنما جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اصولی طورپر آئین کے تحت پارلیمان کو قانون ساز ادارہ ہونے کی حیثیت سے تمام اداروں پر فوقیت حاصل ہے، لیکن پارلیمان منتخب سیاست دانوں سے بنتی ہے۔ لیکن فی الوقت ایسا معلوم ہوتاہے کہ سیاست دانوں کی اکثریت زندگی کا کوئی اعلیٰ مقصد نہیں رکھتی۔ بدعنوانی، مفاد پرستی، ہوس دولت و اقتدار روایتی سیاست دانوں کی پہچان بن گیا ہے۔ اس لیے پارلیمان کی بالادستی کے دعوے کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ اس کے باوجود قومی زندگی کی اصلاح کی اصل ذمے داری سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے۔ ملک اس وقت جس آئینی، سیاسی اور معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے اس سے نکالنے کے لیے سیاست دانوں کو آپس میں بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کرنے ہوں گے۔ نئے انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے کے بغیر موجودہ سیاسی تعطل کا کوئی حل نہیں ہے۔ سیاسی افراتفری اور انتشار کے ہوتے ہوئے معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ قوم کو موجودہ ہیجانی کیفیت اور سیاسی بحران سے نکالنے کا واحد راستہ قومی انتخابات ہیں۔ لیکن کیا پاکستان کے سیاست دان تدبر اور بصیرت کا مظاہرہ کریں گے۔ کیا سیاسی جماعتوں میں کوئی اجتماعی دانش موجود ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں