میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں کی دیدہ دلیری

امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں کی دیدہ دلیری

جرات ڈیسک
جمعه, ۲۴ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

پاکستان میں عام انتخابات کی گہماگہمی اگرچہ ابھی تک پوری طرح شروع نہیں ہوئی اور مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سوا کسی بھی دوسری جماعت کی جانب سے کوئی خاص انتخابی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے لیکن انتخابات کے قریب آتے ہی امریکہ اور برطانیہ کے سفیر انتہائی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے متحرک ہو گئے ہیں اور انھوں نے تمام تر سفارتی آداب کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی سیاست میں اثر انداز ہونے کیلئے سیاستدانوں سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں،امریکہ کے سفیر ڈونلڈ بلوم نے خاص طورپر ان سیاستدانوں سے ملاقاتیں کی ہیں جو اپنے بارے میں اس تاثر کو تقویت دینے کی کوشش کررہی ہیں کہ اس الیکشن میں وہ مقتدر طاقتوں کی پسند ہیں اور اقتدار ان ہی کو ملے گا،امریکہ کے سفیر ڈونلڈ بلوم نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، استحکام پاکستان پارٹی کے قائد جہانگیر ترین اور سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی سے ملاقاتیں کی ہیں جبکہ برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری سے کراچی میں ملاقات کی۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور ڈاکٹر عاصم بھی موجود تھے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی سفیر نے جاتی امراء رائے ونڈ میں نواز شریف سے ملاقات کے دوران انہیں پاکستان سے متعلق امریکی ترجیحات سے آگاہ کیا اور پاکستان کی سیاسی، اقتصادی صورتحال اور عام انتخابات کی تیاریوں پر ان سے تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے اس دوران پاکستان امریکہ مشترکہ شراکت داری کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ میاں نواز شریف نے اس موقع پر پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات کی اہمیت پر زور دیا اور مختلف مواقع پر امریکی رہنماؤں سے اپنی ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام امریکی رہنما پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے اس ملاقات کے دوران امریکی سفیرڈونلڈ بلوم سے ملاقات کے دوران انھیں یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اگلی پاکستان مسلم لیگ ن ہی کی ہوگی،اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون پر گفتگو کی۔ امریکی سفیر نے ملتان میں سید یوسف رضا گیلانی سمیت جنوبی پنجاب کے مختلف سیاستدانوں سے ملاقاتیں کیں جس کے دوران پاکستان امریکہ تعلقات کی مضبوطی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ان سے ملاقات کے لئے سید یوسف رضا گیلانی کی میزبانی میں منعقد ہونے والی نشست میں مسلم لیگ (نون)، پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کے عہدے دار بشمول سابق گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ، سابق وزیر اعلیٰ سردار دوست محمد کھوسہ، سینیٹر رانا محمود الحسن، ایاز خاں نیازی، سابق ایم این اے مینا لغاری، خالد خاں خاکوانی، نتاشہ دولتانہ، شہناز سلیم، عبدالقادر گیلانی، ایاز مجتبیٰ گیلانی اور سابق صوبائی وزیر علی حیدر گیلانی بھی شریک ہوئے۔ اس نشست میں جنوبی پنجاب کے سیاسی منظرنامے پر مفصل بات چیت کی گئی۔ اسی طرح امریکی سفیر نے استحکام پاکستان پارٹی کے قائد جہانگیر ترین سے ان کی اقامت گاہ پر ملاقات کی جس میں اسحاق خاکوانی اور عون چودھری بھی شریک ہوئے۔ دوران ملاقات پاک امریکہ تعلقات اور اقتصادی اصلاحات کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ ان قائدین اور امریکی سفیر کے مابین آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے بھی مفصل بات چیت ہوئی اور امریکی سفیر نے کہا کہ امریکہ پاکستان میں انتخابات کا شفاف انعقاد چاہتا ہے۔ جہانگیر ترین نے بتایا کہ ان کی پارٹی بھرپور انداز سے اپنی انتخابی اور سیاسی سرگرمیاں شروع کر چکی ہے اور عام انتخابات کیلئے تیار ہے۔اسی طرح برطانوی ہائی کمشنر نے کراچی میں آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات کے دوران پاکستان برطانیہ تعلقات کے فروغ پر بات کی جبکہ آصف علی زرداری نے شاہ چارلس کے جنم دن کے حوالے سے مسرت کا پیغام دیا اور ڈیوڈ کیمرون کے وزیر خارجہ بننے پر نیک تمنا?ں کا اظہار کیا۔ انہوں نے برطانیہ پر غزہ میں مصالحتی کردار ادا کرنے پر بھی زور دیا۔
یہ صحیح ہے کہ کسی ملک میں دوسرے ممالک کے سفارتکاروں کی مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں سے ملاقاتیں معمول کا معاملہ سمجھی جاتی ہیں اور ہر سفیر کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جس ملک میں تعینات ہے اس کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کی بہتری میں معاون بنے اور اس کے شہریوں کو اپنے ملک کیلئے ویزے یا سفر کی دوسری رکاوٹیں درپیش ہیں تو انہیں دور کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اسی طرح سفارت کار دونوں ممالک میں تجارتی، ثقافتی تعلقات مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی فضا سازگار بنانے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں جس سے پرامن بقائے باہمی سے متعلق اقوام متحدہ کے چارٹر پر عملدرآمد کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیں۔ تاہم امریکہ اور برطانیہ کے سفارت کاروں نے پاکستان میں انتخابات کا عمل شروع ہونے کے بعد جس انداز میں پاکستانی سیاستدانوں سے کھلے عام ملاقاتیں کی ہیں،وہ معنی خیز ہیں،کیونکہ سفارتی اصولوں کے مطابق تمام ممالک کو اپنے میزبان ملک کی آزادی کا احترام کرنا چاہئے یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی عین انتخابات سے قبل کوئی سفیر کسی سیاسی جماعت کے رہنما سے خواہ وہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو ملاقاتیں نہیں کرتا،کیونکہ اس طرح کی ملاقاتوں سے انتخابات کی شفافیت مجروح ہوتی ہے،امریکی سفیر کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ اس نے نگراں حکومت سے انتخابات کی شفافیت یقینی بنانے کا تقاضہ بھی کیا ہے، سوال یہ پیداہوتاہے کہ کسی ملک کے سفیر کو اپنے میزبان ملک کے انتخابی عمل میں اس ننگے بھونڈے طریقے سے مداخلت کا حق کس نے دیا،امریکی سفیر کی اس طرح کی باتوں سے ایک آزاد و خودمختار مملکت کے خالصتاً اندرونی معاملات میں مداخلت کا تاثر اجاگر ہوتاہے۔اور تمام سیاسی جماعتوں خاص طورپر ان انتخابات کے تناظر میں عملاً دیوار سے لگائی جانے والی سابق حکمران پی ٹی آئی کی جانب سے اظہار کئے جانے والے تحفظات کو بے بنیاد نہیں کہا جاسکتا اور پی ٹی آئی کا یہ اعتراض اپنی جگہ 100 فیصد درست ہے کہ امریکی سفیر کی نواز شریف سے ملاقات پاکستان کے اندرونی معاملات میں سنگین مداخلت ہے اور ملاقات کے جاری کئے گئے اعلامیہ کے مندرجات اس سازش کا تسلسل ہیں جس کے تحت پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔امریکہ اور برطانیہ کے سفارت کاروں کی پاکستان کے انتخابات کے حوالے سے کھلے عام سرگرمیاں ایک دوسرے کے مخالف سیاستدانوں کی جانب سے اعتراض کی گنجائش نکالتی رہیں گی اور اس سے یقینی طور پر پاکستان کی آزادی و خودمختاری کا سوال بھی اٹھے گا۔ اگر امریکی سفیر کی جانب سے پاکستان میں انتخابات کی شفافیت پر بات کی گئی ہے تو اس سے یقینی طور پر الیکشن کمشن کا غیر جانبدارانہ کردار متاثر ہو سکتا ہے اور بالخصوص پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے جاری رکھی گئی اپنی سیاست کو مزید بھڑکانے کا موقع مل سکتا ہے اور مسلم لیگ ن کے ساتھ حکمرانوں کے سلوک سے پیدا ہونے والے اس تاثر کو مزید تقویت ملے گی کہ نواز شریف کو ایک ڈیل کے تحت وطن واپس لایا گیا ہے اور اگلے عام انتخابات کے بعد اقتدار دوبارہ ان ہی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
ان ملاقاتوں پر نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کی معنی خیز خاموشی اور مسلم لیگ ن کو دئے جانے والے غیر معمولی پروٹوکول پر اٹھنے والے اعتراضات پر کسی قسم کی وضاحت پیش کرنے سے گریز کی وجہ سے اس تاثر کو تقویت ملنا یقینی ہے کہ پاکستان کا سسٹم خالصتاً آئین و قانون کی منشا اور اس کے تقاضوں کے مطابق کام نہیں کر رہا ہے،کیونکہ پاکستان کے آئین کے تحت ہر رجسٹرڈ پارٹی کو انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور اپنے امیدوار انتخابی میدان میں اتارنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے اور اگر قانون کسی پارٹی کو اس کی مخصوص سرگرمیوں کے باعث انتخابی میدان میں اترنے کی اجازت نہ دے یا کسی امیدوار کے لئے کوئی قانونی اور آئینی قدغن آڑے آ جائے تو اسے آئین شکنی ہی قرار دیاجائے گا۔ دنیا کے کسی بھی ملک کا سسٹم وہاں کے آئین و قانون کی عملداری کے ساتھ ہی چلتا ہے اور اس کا کوئی شہری آئین و قانون پامال کرتا ہے تو وہاں کے مروجہ عدالتی نظام کے تحت اس کی پکڑ کی جاتی ہے جس میں لازمی طور پر تمام فریقین کے لئے انصاف کی عملداری کے تقاضے نبھائے جاتے ہیں۔ اس مروجہ سسٹم پر بیرون ملک سے کسی قسم کی مداخلت یا ڈکٹیشن اس ملک کی آزادی و خودمختاری میں مداخلت سے ہی تعبیر کی جائے گی۔ بادی النظر میں امریکی اور برطانوی سفارتکاروں کی پاکستانی سیاسی قیادتوں سے ملاقاتیں پاکستان کے سسٹم میں مداخلت ہی سے تعبیر ہوں گی۔ اس حوالے سے سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا پاکستان کے سفارتکاروں نے کبھی امریکہ یا کسی دوسرے ملک میں وہاں کے سیاسی، قانونی اور آئینی معاملات پر ایسی کوئی سرگرمیاں کی ہیں جن سے ان ممالک کی خودمختاری میں مداخلت کا کوئی تصور اجاگر ہوتا ہو۔ ایک دوسرے کی آزادی و خودمختاری کا احترام تو ویسے بھی یو این چارٹر کا حصہ ہے۔ پھر کسی ملک کو اپنے تئیں یہ حق کیونکر حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے انتخابی عمل میں مداخلت کریں اور وہاں کے سیاستدانوں کو ڈکٹیشن دیتے نظر آئیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا قومی تشخص ہماری معیشت پر مسلط ہونے والے آئی ایم ایف کے ایجنڈے کے باعث پہلے ہی خراب ہو چکا ہے۔ اب اگر ہمارے انتخابی عمل میں بھی بیرونی مداخلت اور ڈکٹیشن کا سلسلہ شروع ہو گیا تو کل کو کوئی بھی ملک ہم پر اپنا رعب جماتا نظر آئے گا چنانچہ امریکی، برطانوی سفارتکاروں کی ان سرگرمیوں کا پاکستان الیکشن کمیشن کو بھی نوٹس لینا چاہئے اور سیاسی قیادتوں کو بھی احتیاط کے تقاضے ملحوظ خاصر رکھنے چاہئیں ورنہ انتخابات میں کسی جماعت کی کامیابی کی اس کے مخالفین کی جانب سے قبولیت مشکل ہو جائے گی۔اسرائیل کی حمایت کرنے کے بعد امریکی لابی کے بارے میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہ اسرائیل کی حامی ہے۔اسی بنا پر ؎انصاف کے حامی بڑے حلقے اس سے خوش نہیں ہیں اور پاکستان کے عوام تو فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کا ذمہ دار براہ راست امریکہ ہی کو گردانتے ہیں، اسرائیل کی ننگی جارحیت کی حمایت کرکے امریکہ نے عالمی رائے عامہ اس حد تک اپنے خلاف کرلی ہے کہ اب مغربی دنیا میں بھی مسلمان، اور ترقی پسند رجحان رکھنے والے یہودی بھی امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔غرض امریکہ اور اس کے اتحادی نفرت کا استعارہ بن چکے ہیں،اس صورت حال میں اگر کوئی سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ وہ امریکی اور برطانوی سفیروں کی ملاقاتوں کو اپنی کامیابی کی نوید بناکر عوام کو بیوقوف بنالے گی تو یہ اس کی بھول ہے،اور حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جو بھی سیاسی جماعت ان کے ساتھ ملاقاتیں کرے گی،آنے والے انتخابات میں عوام انھیں امریکیوں اور اسرائیلیوں کا حامی تصور کرتے ہوئے اسی طرح مسترد کرسکتے ہیں جس طرح امریکی اور دیگر غیر ملکی اشیا کا بائیکاٹ کر رہے ہیں،ا ب یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ اگر تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے برابری کے مواقع نہ دیے گئے تو انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھیں گے۔ مسلم لیگ نون کے ایک سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس وقت لیول پلینگ فیلڈ کے نہ ہونے کا سب سے بڑا نشانہ تحریک انصاف ہے جسے نہ تو جلسے کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی وہ ورکرز کی سطح پر کارنر میٹنگ کر سکتی ہے حتی کہ اعلیٰ عدالتوں کے احکامات کے باوجود اسے جلسے نہیں کرنے دیے جا رہے۔ آگے چل کر یہ معاملہ کیا شکل اختیار کرتا ہے اور جب انتخابی شیڈول سامنے آئے گا تو اس وقت کیا صورت ہوگی تحریک انصاف کے امیدوار کاغذات نامزدگی داخل کرا سکیں گے یا اس موقع پر بھی ان کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رہے گا؟ ایسی صورت میں انتخابات کے غیر جانبدارانہ انعقاد کے امکانات خاصے معدوم ہو جائیں گے۔ ایک بڑی سیاسی جماعت ہونے کی حیثیت سے تحریک انصاف اگر انتخابات میں آزادانہ حصہ نہیں لے سکتی تو یہ ان دعووں کی نفی ہوگی جونگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور چیف الیکشن کمشنر مسلسل کر رہے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں آزادانہ حصہ لینے کے مواقع دیے جائیں گے۔ یہ سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اجتماعی آواز اٹھائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں