میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
فطرت سے قربت ۔۔قربِ الٰہی کا سبب

فطرت سے قربت ۔۔قربِ الٰہی کا سبب

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۸ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

ندیم الرشید
بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے ایک دوسرے کے پیچھے آنے میں اور کشتیوں (اور جہازوں) میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے کے لیے رواں ہیں اور بارش میں جس کو خدا آسمان سے برساتا ہے اور اُس سے زمین کو مرنے کے بعد زندہ کر دیتا ہے اور زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہواﺅں کے چلانے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں ، عقلمندوں کے لیے (خدا کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔
قارئین گرامی!
سورة بقرہ کی آیت نمبر164 آپ کے سامنے پیش کی گئی ہے جس میں ذات لم یزل خدائے بزرگ و برتر اور خالق حقیقی نے کائنات میں بکھری اپنی قدرت اور فطرت کی نشانیوں کو بیان کرتے ہوئے حضرت انسان کو ان کے مشاہدے کی دعوت دی ہے، علم تفسیر کی اصطلاح میں یہ مبارک آیت دلیل عقلی آفاقی ہے جس میں زمین آسمان، رات دن، کشتیوں، دریا، بارش، بادل، زمین کی سیرابی، اُس میں جانوروں کی افزائش اور ہواﺅں کے چلنے کا تذکرہ کیا گیا ہے مقصد ان چیزوں کو بیان کرنے کا یہ ہے کہ انسان آفاق میں بکھری ان نشانیوں کا مطالعہ، مشاہدہ، تجزیہ کرے، ان میں تدبر، تفکر اور غورو فکر کے، پھر اس کے نتیجے میں اپنے پالن ہار رب کا مطیع، فرمانبردار مقرب اور شکر گزار بندہ بن جائے۔
حضرات محترم!
کلام پاک میں بیان کردہ یہ نشانیاں جہاں خدا کے وجود کی دلیل اور لوگوں کے لیے اُس کے حصول قرب کا ذریعہ ہیں وہیں کرہ ارض پر موجود ہمارے سرسبز اور قدرتی ماحول کا وجود بھی ان ہی آیاتِ الٰہیہ پر موقوف ہے۔
اس اعتبار سے آیت کریمہ کا پہلا سبق تو یہ ہے کہ انسان فطری اور قدرتی زندگی سے انحراف کرکے مصنوعی اور غیر فطری زندگی کے پیچھے نہ بھاگے، کیونکہ فطرت سے دور زندگی میں انسان کے لیے آیات الٰہیہ کا وہ مشاہدہ ممکن نہیں جو اُسے خدا کے قریب کر دیتا ہے جبکہ دوسرا سبق یہ ہے کہ انسان فطرت اور ماحول کو کسی طرح بھی خراب نہ ہونے دے کیونکہ ماحول کا تحفظ جہاں انسان کی جسمانی حیات کے لیے ضروری ہے وہیں یہ انسان کی روحانی حیات کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، وجہ یہ ہے کہ قرآن نے اسے وجود خدا کی دلیل اور لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بتایا ہے۔ مگر عصر حاضر کا المیہ یہ ہے کہ آج کا جدید انسان فطری اور قدرتی زندگی سے انحراف کرکے مصنوعی زندگی اختیار کرتا چلا جا رہا ہے، جس کے نتیجہ میں نہ صرف ماحولیات کی سطح پر بڑے بڑے مسائل جنم لے رہے ہیں بلکہ انسان کی اپنی ذات بھی خدا کے قرب اور اعلیٰ انسانی قدروں سے محروم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس موضوع کو ہم دونشستوں میں مکمل کریں گے۔ پہلی نشست میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ فطری زندگی سے انحراف کے نتیجے میں انسان کس طرح خدا کے قرب اور اعلیٰ انسانی قدروں سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے، جبکہ دوسری نشست میں ہم اس بات کے ماحول پر اثرات کا جائزہ پیش کریں گے۔ اس حوالے سے دیہاتی اور جدید شہری زندگی کا موازنہ بہترین مثال ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دیہات کا آدمی خدا، رسول اور مذہب کے زیادہ قریب ہے۔ مساجد کے ائمہ، خطیب، مو¿ذن اور خادم ان لوگوں کی اکثریت بڑے بڑے شہروں کی بجائے قصبوں اور دیہاتوں میں پلی بڑھی ہوتی ہے۔ اسی طرح مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والے بھی زیادہ تر دیہات اور گاﺅں کے رہنے والے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہات کا عام آدمی بھی شہری لوگوں کی نسبت زیادہ ملنسار اور زیادہ مہمان نواز ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں دیہاتی آدمی جدید شہری لوگوں کے مقابلے میں زیادہ دیندار ہوتا ہے کیونکہ دیہات کی ساری زندگی، سارا تمدن ساری ثقافت ”دیہات کی زمین“ سے وابستہ ہوتی ہے اور یہ زمین اُسے خدا سے جوڑے رکھتی ہے۔ صبح سویرے اٹھنا، وضو کرکے نماز پڑھنا، جانوروں کو چارہ ڈالنا، دودھ دوہنا، پھر کھیتوں کی طرف نکل جانا، پرندوں کی میٹھی بولیاں سننا، فصل کاشت کرتے ہوئے مسلسل خدا سے دعا کرنا کہ وہ اُس کے کاشت کیے ہوئے بیجوں کی حفاظت کرے، انہیں خراب ہونے سے بچائے، فصل کی روزانہ دیکھ بھال کرنا، کھلا آسمان، کھلی زمین، برستی بارش، ندی کا بہتا پانی۔ پانی کھیت کو لگابیج سے کونپل پھوٹی، اُس کو نپل کی حفاظت کے لیے خدا سے دعا، فصل کو بیماری سے بچانے کے لیے زرعی طریقوں کے ساتھ ساتھ خدا کے حضور فریاد، وقت پر بارش آجائے اس کے لیے خدا کے در پر حاضری، بزرگوں سے دعا کی درخواست حتیٰ کہ جب فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے تو اُس فصل سے خدا کے نام پر عشر نکالنا، غریبوں میں تقسیم کرنا، اب فصل کٹ گئی ہے تو بازاروں میں رونقیں آئیں گی، خریداری ہوگی، نئے رشتے جڑیں گے، شادیاں ہوںگی، نئے گھر بسیں گے ،خاندانی نظام میں وسعت پیدا ہوگی۔ جس سے روایتی معاشرت مزید مستحکم ہوگی۔ الغرض زمین سے جڑی دیہات کی زندگی فرد کو ہر آن، ہر لمحہ اور ہر گھڑی آیات الٰہیہ کے مشاہدے کے ذریعے خدا سے جوڑ کر رکھتی ہے۔ اسی لیے قرآن ایمان نہ لانے والوں کی توجہ زمین کی طرف کرکے کہتا ہے ”کیا انہوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا ہم نے اس میں ہر قسم کی کتنی نفیس چیزیں اگائی ہیں، کچھ شک نہیں کہ اس میں خدا کی نشانی ہے مگر یہ اکثر ایمان لانے والے نہیں۔ سورة الشعراءآیت 7,8 ۔
حضرات محترم!
فطری زندگی انسان کو صحیح معنوں میں خدا کا بندہ بنا کر رکھتی ہے کیونکہ ایک حقیقی فطری زندگی میں انسان بے زبان مخلوقات درختوں، پودوں، جانوروں اور پرندوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتا ہے، ان بے زبانوں کی زندگی اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ہر شخص کے قلب اور ذہن کا تقاضا ہے۔ اسی لیے قربانی کے ایام میں امیروں کے بچے بھی قربانی کے جانوروں سے بے پناہ محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کو چرانا، ان سے کھیلنا، ان کے جمال سے ہم آہنگ ہو کر وہ فطرت کی تکمیل کے عمل سے گزرتے ہیں۔ یہ فطری زندگی صفتِ رحم، محبت اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے تعلق کے لیے اس لیے ضروری ہے کہ اس کے نتیجے میں انسان کمزوروںسے، بے زبانوں سے، جانوروں سے محبت کے مراحل اور مراتب سیکھتا ہے۔ جب کسی بچے کا بلبل ، کسی فرد کا پالا ہوا مرغ، کسی انسان کا پرورش کیا ہوا پرندہ، کسی شخص کا لگایا ہوا خوبصورت پودا، درخت مرجھاتا اور مرجاتا ہے تو دل پر کیا گزرتی ہے۔ انسان دکھ کے دریا سے گزرتا ہے۔ اپنے آنسو ضبط نہیں کرپاتا۔ بچے جس پرندے یا جانور کو پالتے ہیں اُسے ذبح نہیں ہونے دیتے، محبت، کھانے کی طلب اور لذت پر غالب آجاتی ہے۔ اللہ رب العزت فطری زندگی کے ذریعے انسان کو اُس کے گرد و نواح سے محبت کے جذبات عطا فرماتے رہتے ہیں وہ انسان جو بے زبان پودوں اور جانوروں سے محبت کرنے لگتا ہے وہ بھلا انسانوں سے کیسے نفرت کرسکتا ہے، وہ اُن کو تکلیف پہنچا کر کیسے خوش ہوسکتا ہے یا خوش رہ سکتا ہے؟ اس لیے دیہات کا آدمی زیادہ ملنسار، زیادہ محبت کرنے والا، دکھ درد میں زیادہ شریک ہونے والا اور زیادہ مہمان نواز ہوتا ہے۔ وہ بے وقوف نہیں ہوتا، سادہ زندگی بسر کرنے کے باعث سیدھا سادہ اور جفا کش ہوتا ہے یعنی صحیح معنوں میں اگر وہ عبادت گزار بھی ہوتو المومن غر کریم (مومن بھولا بھالا ہوتا ہے) کا مصداق ہوتا ہے۔
اس کے مقابلے میں اگر جدید شہری زندگی کا مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے تو جدید شہروں میں درد مند انسانوں کی جگہ بے حس ہجوم نے لے لی ہے۔ نرم زمین کی جگہ پحتہ فرش نے لے لی ہے اور نیلے آسمان کی جگہ کنکریٹ کی بلند و بالا عمارتوں اور فیکٹریوں کے سیاہ دھوئیں نے لے لی ہے۔ فلیٹوں میں زندگی بسر کرنے والا ٹی وی پر چاند دیکھتا ہے کیونکہ آلودگی کی وجہ سے چاند آسمان پر دکھائی نہیں دیتا ۔ دنیا کے بائیس شہروں میں چاند ستارے تو نظر ہی نہیں آتے۔ آلودگی اتنی ہے کہ کہکشاں، دُب اکبر، دُب اصغر اور قوس و قزح بھی نظر نہیں آتی۔ شہری لوگ سبزہ، جنگل، تتلی، جگنو، آبشار، باغ اور پھولوں کی کیاریاں اپنے اینڈ رائیڈ موبائل کی اسکرین پر تو دیکھ سکتے ہیں لیکن اپنے گھر کے آس پاس نہیں کیونکہ اُن کے گھر کے آس پاس تو صرف دھول، مٹی، دھواں، ریت اور گندگی کے ڈھیر ہیں، جس سے چکن گونیا جیسی نئی نئی بیماریاں پھوٹ رہی ہیں یا پھر ٹریفک اور جنریٹروں کا شور ہے جوصوتی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ یہ اس عہد کا المیہ ہے کہ قرآن قرب الٰہی کے لیے جس جس منظر اور جس جس مشاہدے کا انسان سے مطالبہ کرتا ہے جدید شہری زندگی میں وہ آثار کائنات تو لوگوں کو اب پوری طرح دکھائی بھی نہیں دیتے چہ جائے کہ شہری لوگ اُن میں تدبر اور تفکر کرکے قرآن پر عمل کریں۔
مثلاً سورہ النحل کی آیت نمبر6 میں قرآن بتاتا ہے کہ زمین پر جانوروں کی نقل و حرکت، صبح کے وقت اُن کا چرنا اور شام کو آفتاب ڈھلتے ہوئے اُن کا چرتے ہوئے گھروں کو واپس آنا مظاہرہ جمال مہیا کرتا ہے اور اُس میں حس جمالیات کے لیے سبق ہے۔ سوال یہ ہے کیا جدید شہری زندگی میں قرآن کی ان آیات پر عمل ممکن ہے؟ عصر حاضر میں کون اُسے زندگی کی رونق تصور کرسکتا ہے؟ کیا گھوڑے، خچر، گدھے، اونٹ سگنل فری کو ریڈور، اوور ہیڈ بریج اور اسپیڈ بریکرز پر سے گزر سکتے ہیں؟ اور تو اور کراچی جیسے شہر میں تو مقامی حکومت نے 2010 ءمیں دفعہ 144 کے تحت ان جانوروں سے متعلق چلنے والی گاڑیوں پر مٹی کے مہینے میں مکمل پابندی عائد کر دی۔
قرآن بتاتا ہے کہ برسات کے بعد مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے، یہ ایک نشانی ہے سننے والوں کے لیے (سورة النحل آیت65 ) سوال یہ ہے کہ شہروں میں جہاں ہر طرف تارکول کی سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے، زرعی زمین سرے سے ہے ہی نہیں وہاں بارش کے بعد سبزے کے پھوٹنے سے آثارِ الٰہی کا مشاہدہ کیسے ہوگا؟ قرآن بتاتا ہے کہ جانوروں کی زندگی میں بھی تمہارے لیے سبق ہے کہ گوبر اور خون کے درمیان سے ہم تمہیں ایک چیز پلاتے ہیں یعنی خالص دودھ جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے (سورة النحل آیت 66 ) سوال یہ ہے کہ اس مبارک آیت کا مشاہدہ اُس تیز رفتار شہری لائف اسٹائل میں کیسے ممکن ہے جہاں گائے بھینس کے تازہ اور خالص دودھ کی بجائے ٹیٹرا پیک ڈبوں میں بند دودھ دستیاب ہے اور ہر جگہ اُسی کو کام میں لایا جا رہا ہے، حالانکہ اسی برس 2017 ءمیں پنجاب فوڈ اتھارٹی سپریم کورٹ کے حکم پر یہ ثابت کرچکی ہے کہ ان دودھ کے ڈبوں میں گنے کارس، برتن دھونے والا پاﺅڈر اور مُردوں کو محفوظ رکھنے والا کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دودھ کے ڈبے کینسر کا باعث ہیں۔ لیکن اس کے باوجود شہروں میں یہ دودھ ہر ہر دکان پر دستیاب ہے اور دن رات کینسر کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔
قارئین گرامی!
جب لوگوں کے لیے دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں آیات الٰہیہ کا وہ مشاہدہ پوری طرح ممکن ہی نہیں ہے جس کا مطالبہ قرآن کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان فطرت سے ہم آہنگ ہو کر اپنے رب کے قریب ہو جاتا ہے تو اُس کا نتیجہ جدید شہری زندگی میں خدا سے دوری اور دین بیزاری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قدرتی زندگی سے انحراف کرکے مصنوعی اور غیر فطری زندگی بسر کرنے کے باعث ایسی غیر فطری زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھنا شروع کر دیتا ہے کچی اور نرم زمین کو چھوڑ کر ماربل ٹائل کے فرش پر اکڑ کر چلنے والوں کے دل بھی پتھر یلے اور سخت ہو جاتے ہیں۔ پورا معاشرہ ہمدردی، ایثار، خلوص، محبت کے احساس سے عاری ہو کر مارکیٹ سوسائٹی میں تبدیل ہو جاتا ہے جہاں ہر فرد پروفیشنل ہوتا ہے۔ اُسے دوسرے کے دکھ درد کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ اُسے صرف اپنے کام سے غرض ہوتی ہے۔ اس لیے نہ وہ مہمان نواز ہوتا ہے۔ نہ ملنسار ہوتا ہے اور نہ ہی اُس کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ ہر خوشی غم میں شریک ہو یا دوسروں کے کام آئے۔ کیونکہ وہ ایک دوڑ میں شریک ہوتا ہے مفادات کی دوڑ، پیسے کی دوڑ، طرز حیات کی دوڑ، وہ پھر انسان نہیں رہتا۔ ریس کا گھوڑا بن جاتا ہے اُس کے پورے وجود میں حیوانیت بھر جاتی ہے۔ دوسروں کو گراکر پچھاڑ کر آگے نکلنا ہی اُس کا مقصدِ حیات بن جاتا ہے۔ چاہے دوسروں گو گرانے اور پچھاڑنے کے لیے اُسے ظلم کا سہارا لینا پڑے، نفرت، عداوت دروغ گوئی اور منافقت کا ساتھ دینا پڑے یا دوسروں کی جان مال اور عزت آبرو سے کھلواڑ کرنا پڑے، یہ سب کچھ کر گزرنے پر تیار ہوجاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ آپ علیہ السلام کے فرمان والفاجرخب لئیم کا پورا پورا مصداق ہوتا ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ جدید شہری زندگی میں انسان کے لیے آیات الٰہیہ کا مشاہدہ ممکن نہیں ہوتا۔ کار خانوں فیکٹریوں اور ملوں کے شہر میں جہاں ہر طرف پختہ سڑکیں، بلند و بالا عمارتیں، ٹریفک کا اژدہام، ہجوم، رہائش کے لیے تنگ و تاریک مکانات جہاں سے کھلا آسمان تک نظر نہیں آتا، ہوا کا گزر نہیں ہوتا۔،اوپر سے سارے دن کی تھکاوٹ، کام کا بوجھ ، صبح سورج نکلنے کے بعد اٹھنا بغیر نماز، تلاوت قرآن اور ناشتہ کیے صرف چائے کا ایک کپ پی کر نوکری کے لیے بھاگتے چلے جانا ،کیا اس زندگی میں آثار کائنات کا مشاہدہ کرنا کو ہلو کے ایک بیل کے لیے ممکن ہے؟ جس لائف اسٹائل اور طرز حیات میں انسان کے پاس سونے کے لیے وقت نہیں یہ وہ آیات الٰہیہ میں تدبر تفکر اور غورو فکر کب کرے گا؟ جس آدمی کی زندگی نیلے آسمان، سرسبز زمین، پھول تتلی، خوشبو ہوا، بارش ندی، آبشار، چرند، پرند، چراگاہ دھوپ اور درخت سے ہم آہنگ نہیں ہے اُس کے دل میں محبت، رحم، خیر خواہی، بھلائی، ایثار اور خلوص کے جذبات دو دو شفٹوں میں کام کرنے سے تو پیدا نہیں ہوں گے، اقبال نے سچ ہی کہا تھا
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
قارئین گرامی! اب تک کی گفتگو میں ہم نے دیہاتی اورجدید شہری زندگی کا تقابل پیش کیا تاکہ زیردرس آیت کا پہلا سبق یہ کہ انسان فطری زندگی سے انحراف کرکے غیر فطری یا مصنوعی زندگی کے پیچھے نہ بھاگے ،ہمیں سمجھنا چاہیے کیونکہ یہ چیز انسان کو خدا سے دور کر دیتی ہے آئندہ خطبے میں ہم مصنوعی زندگی کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ پیش کریں گے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں