میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شافع محشر نبی رحمت خاتم النبیین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و درگزر

شافع محشر نبی رحمت خاتم النبیین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و درگزر

جرات ڈیسک
جمعه, ۲۰ ستمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی

در گزر کرنا،معاف کرنا اللہ کے ہاں انتہائی محبوب و مقبول ہے،اللہ عزوجل خود معاف کر نے کو پسند کرتا ہے،اس کا جو بندہ اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے،نادم ہو تا ہے،تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرماتے ہیں، درگزر کرنا،معاف کرنا ایک ایسا عمل ہے،جس سے انسان کا دل صاف ہو تا ہے آپس میں پیار محبت کا اضافہ ہوتا ہے،جو کوئی بدلہ لینے کا دل میں سوچ بھی رہا ہوتا ہے در گزر کر نے سے وہ یہ عمل نہیں کرسکتا،یہی تعلیمات نبی رحمت شافع محشر حضورﷺنے ہمیں بتلائیں، حضور پر نورﷺعفو و درگزر کے عظیم پیکر تھے،آپﷺ اعلیٰ و عمدہ اخلاق کے پیکر تھے،حتیٰ کہ آپ کے مخالفین آپؐ پر ہر قسم کے مظالم کرتے،دکھ دیتے،لیکن جناب نبی کریم ﷺنے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا،بلکہ ان کیلئے ہدایت کی دعا کی اور فرمایا کہ میں رحمۃ للعالمین بن کر آیا ہوں،رسول اللہ ﷺسے بڑھ کر کوئی بھی اس دنیا میں درگزر کر نے والا معاف کر نے والا نہیں دیکھا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:اے میرے رب، تیرے بندوں میں سے کون تیری بارگاہ میں زیادہ عزت والا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:وہ بندہ جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود معاف کر دے۔(شعب الایمان)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺپر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اورجب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے اورآپ کو جب بھی دوچیزوں کا اختیار دیاگیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو(جامع الترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی حضورﷺ کو دوچیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے، رسول اکرم ﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ ان کا انتقام لیتے تھے (سنن ابوداؤد) حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم ﷺ سے ملا، میں نے ابتداً آپ کا ہاتھ پکڑلیا اورمیں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺنے مجھے فضیلت والے اعمال بتائیے، آپ نے فرمایا: اے عقبہ، جوتم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو، جو تم کو محروم کرے، اس کو عطاکرو، اورجو تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کرو(مسند احمد بن حنبل)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت ﷺنے ارشاد فرمایا: جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پھر دوسری بار اعلان کرے گا کہ جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے۔منادی کہے گا: ان کا جو لوگوں (کی خطاؤں)کو معاف کرنے والے ہیں۔ پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں
داخل ہو جائیں گے۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد)حضور نبی کریمﷺ کے اگلے چار دانت شہید ہو گئے۔ سر مبارک اور چہرہ انور بھی زخمی ہو گیا۔ یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رنج واضطراب کی حالت میں گزارش کی یا رسول اللہﷺ! کاش آپؐ ان دشمنان دین پر بددعا کرتے۔ آپ ﷺنے فرمایا:”میں لعنت اور بددعا کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ بلکہ لوگوں کو راہ حق کی طرف بلانے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔“حضور پاکﷺکی ہجرت کے بعد مکے میں سخت قحط پڑا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ قریش چمڑا اور مردار کھانے لگے۔ ابوسفیان کو یہ بات معلوم تھی کہ حضور ﷺ کی دعا قبول ہوتی ہے، وہ مدینہ پہنچے اور آپﷺ سے ملتجی ہوئے کہ محمدﷺ! آپؐ کی قوم قحط سے ہلاک ہو رہی ہے، آپﷺ ان کے لیے دعا کیجیے۔ اس کے جواب میں آپ ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ میں ان لوگوں کے حق میں کیوں دعا کروں جنہوں نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو تکلیفیں پہنچائیں اور ہمیں اپنے گھروں سے نکالا؟ بلکہ آپ ﷺ نے فی الفور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور آپ ﷺکی یہ دعا قبول ہوئی۔آپ ﷺ نے فر ما یا: ”میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ جو کوئی مجھ پر ظلم کرے میں اس کو قدرت کے انتقام کے باوجود معاف کردوں۔ جو مجھ سے قطع کرے، میں اس کو ملاؤں، جو مجھے محروم رکھے میں اس کو عطا کروں، غضب اور خوش نودی دونوں حالت میں حق گوئی کو شیوہ بناؤں“۔اللہ کے نبی ؐنے بہت ایذائیں جھیلیں، لیکن سخت ترین دن وہ تھا جب آپﷺ تبلیغ اسلام کے لیے طائف گئے۔ وہاں دعوت اسلام کے جواب میں لوگ سخت بد اخلاقی سے پیش آئے اور بازاری لفنگوں اوباشوں کو آپؐ کے پیچھے لگایا، یہ بدمعاش آ پؐ پر ٹوٹ پڑے اور ذات اقدسﷺ پر بے پناہ سنگ باری شروع کر دی۔ آپﷺ جدھر کا رخ کرتے یہ غول آپؐ کا پیچھا کرتا، لیکن جب چاروں طرف سے پتھر برس رہے ہوں تو کہاں تک آپ ﷺمحفوظ رہ سکتے تھے؟ اتنی سنگ باری ہوئی کہ جسم مبارک لہولہان ہو گیا اور نعلین مبارک خون آلود ہو گئے۔ آخر آپ ؐنے بڑی مشکل سے ایک باغ میں انگور کی بیلوں میں پناہ لی اور اوباشوں سے پیچھا چھڑایا۔ حضرت زیدث نے آپ ؐکے جسم کا خون پونچھا۔نبی رحمت ﷺ نے فرمایا: یہ میرے لیے سخت ترین دن تھا۔ میں باغ سے نکل کر غم زدہ آرہا تھا کہ اچانک بادل کے ایک ٹکڑے نے میرے اوپر سایہ کر دیا، میں نے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو جبرئیل علیہ السلام تھے، جبرئیل ؑنے کہا جو کچھ آپ ﷺکے ساتھ ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے دیکھا او راگر آپؐ کی مرضی ہو تو طائف کے دونوں پہاڑوں کو ملا کر یہاں کی جملہ آبادی کو تہس نہس کر دیا جائے، میں نے کہا، نہیں! میں ان کی ہلاکت وبربادی نہیں چاہتا، بلکہ مجھے خدا کے فضل سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ عفو ودرگزر کا یہی نتیجہ نکلا کہ گیارہ سال بعد یہی طائف والے تھے جو آپﷺ کی عداوت سے دست بردار ہو کر آپ ﷺکے قدموں میں گر پڑے۔شہر مکہ میں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی تھی، اناج یمامہ سے آتا تھا، یمامہ کے حاکم حضرت ثمامہ مسلمان ہو گئے اور انہوں نے مکہ معظمہ کی طرف غلے کی آمد بند کر دی۔ اس بندش سے قریش میں کہرام مچ گیا، انہوں نے سخت اضطراب اور بدحواسی کے عالم میں حضور ﷺ سے مدینہ میں رجوع کیا۔ آپ ﷺ نے حضرت ثمامہؓ کے نام پیغام بھیجا کہ اناج کی بندش اٹھالو۔ چنانچہ اناج مکہ پہنچنے لگا، حالانکہ یہ اہل مکہ وہی تھے جنہوں نے مسلسل تین سال تک آپؐ کے خاندان والوں کا ایسا مقاطعہ کیا تھا کہ اناج کا ایک دانہ تک نہیں پہنچنے دیتے تھے۔ ہاشمی بچے بھوک سے تڑپتے اور بلبلا اٹھتے تھے۔ لیکن ان ظالموں کے پتھردل کسی طرح نہ پسیجتے تھے، بلکہ یہ گریہ وبکاسن کر رحم کرنے کے بجائے ہنستے اور خوش ہوتے تھے۔ آپ
ﷺ نے ان کی یہ سب باتیں بھلا کر ان کے لیے اناج کی بندش ختم کر دی۔ یہ عفو ودرگزر کی اعلیٰ مثال ہے،جو ہمیں دنیا کے کسی بھی شخصیت میں نہیں ملتی۔حضور کریم ﷺکا یہ جذبہ میدان جنگ میں بھی رہتا تھا۔ بدر کے میدان جنگ میں لڑائی شروع ہونے سے پہلے مشرکین کی فوج کے آدمی اس حوض پر پانی پینے آتے، جو اسلامی لشکر کے قبضے میں تھا، مسلمانوں کی فوج نے یہ حوض اپنی ضرورت کے لیے تیار کیا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے مشرکین کو پانی پینے سے روکنا چاہا تو آپ ﷺنے فرمایا:”پانی پینے سے منع نہ کرو، پینے دو“۔ان چند واقعات سے ہمیں آپﷺ کے عفو ودرگزر اور دین کے دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کا پتہ چلتا ہے۔آج بھی اگر ہم نبیﷺکے ان اصولوں کو اپنانے کی کوشش کریں تو اس دنیا میں بھی کام یاب ہوں گے اور اخرت میں بھی رب ذوالجلال کے ہاں سرخرو ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں