مسلمان کب بیدارہوں گے ؟
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
امریکامیں چنددہائیاں پیشتر،گوروں کے ہوٹلزاورکلبزکے باہربورڈآویزاں ہوتاتھاجس پرلکھاہوتاتھا”کتوں اورکالے لوگوں کاداخلہ ممنوع ہے”لیکن مکافاتِ عمل نے وہ دن بھی دکھایاجب ایک سیاہ فام وائٹ ہاس میں داخل ہوا،اورآٹھ سال تک قصرسفیدمیں ملک کے سیاہ وسفیدکامالک بن گیا۔امریکامیں کالوں اورگوروں کاتعصب اتناوسیع رہاہے کہ سیاہ فام کولن پال سابق وزیرخارجہ امریکا اورسیاہ فام وزیرخارجہ کنڈولیزارائس گوروں کیلئے مخصوص گرجاؤں میں عبادت کیلئے داخل نہیں ہوسکتے تھے۔
2008کے کالے اورگورے امریکی عوام نے اس الیکشن میں ثابت کیاکہ انہوں نے رنگ ونسل کے تعصب کومٹاڈالا،قصرسفیدکے فرعون بش کی ظالمانہ وحشیانہ قتل وغارت گری سے بھرپورتعصب اوربڑ ے سرمایہ داروں کوتحفظ فراہم کرنے والی،عوام کو کچل دینے والی پالیسیوں کو امریکی عوام کی اکثریت نے مستردکرتے ہوئے بش کے خاص ساتھی جان میک لین کے مقابلے میں بارک اوباما کے حق میں ووٹ دیے۔ امریکاکے89فیصد مسلمانوں نے اوباماکواور2فیصد نے جان میک لین کوووٹ دیئے۔اوباما کو ووٹ دینے والوں میں اکثریت ان عیسائی ووٹرز کی تھی جوانسان ہیں،انسانی شکل میں وحشی درندے نہیں جوظلم کے خلاف تھے، جودین اسلام اورمسلمانوں کے خلاف امریکی جارحانہ جنگ کے خلاف تھے ۔آج بھی اوباماکے ووٹرزکے بارے میں یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ ان میں کوئی متعصب عیسائی نہیں ہوگا۔ چودہ صدیاں قبل قرآن مجید کی آیات میں رنگ ونسل کے امتیازکا خاتمہ کیا جا چکا ہے:اے انسانو!ہم نے تم کوایک مرداورایک عورت سے پیداکیاہے اورتم کومختلف قومیں اورمختلف خاندان بنائے تاکہ ایک دوسرے کوشناخت کرسکو۔اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑاعزت والاوہی ہے جوسب سے متقی ہو۔اللہ خوب جاننے والاپوراخبردارہے۔(حجرات:13)
رسول للہ ۖ کے خطبہ حجتہ الوداع میں بھی یہ یاد دہانی موجودہے۔آپ ۖ نے ارشادفرمایا:تم سب اولادِآدم ہو،اس لئے کسی گورے کو کالے پراورعربی کوعجمی پرکوئی فوقیت نہیں ہے کیونکہ اللہ کے نزدیک وہی باعزت ہے جوزیادہ متقی ہو۔متقین وہ لوگ ہیں جو اللہ کی ناراضگی اوراس کے دنیاوی اورآخرت کے عذابوں سے ڈرتے ہیں،ایمان اوعمل میں پکے مسلمان ہیں۔اسی خطبہ میں رسول اللہ ۖ نے ارشادفرمایا:میں تمہارے پاس دومرکزثقل چھوڑے جارہاہوں۔اگرتم انہیں مضبوطی کے ساتھ تھامے رہوگے توکبھی گمراہ نہ ہوگے، ایک کتاب اللہ اوردوسری میری سنت”۔
اوباما کیلئے صدارت پاکستان کے حکمرانوں کی طرح آسان،عیاشیوں،فضول خرچیوں،اورقوم سے غداریوں کی مانندنہیں تھی۔ امریکی صدارتی کرسی اوباماکیلئے ایک امتحان ثابت ہوئی کیونکہ اوباماکواپنے ووٹرزکی توقعات پرپورااترناتھاجنہوں نے پہلی بار ایک کالے فردکوبطورامریکی صدرکیلئے منتخب کیا۔ایسانہیں ہواکہ بش کی طرح اوبامانے خودکوامریکااور دنیا بھرکاشہنشا ہ سمجھنا شروع کردیااورکانگرس اورامریکی عوام کواپنی انگلیوں پرنچانے لگ گیا۔اوبامانے اپنی عوام اوردنیابھرکے پرامن لوگوں سے یہ وعدہ کیاکہ زمین پرجگہ جگہ انسانوں کاقتل عام بندکرکے،جھوٹ سے گریزکرتے ہوئے زمین پرامن قائم کرے گالیکن صدافسوس کہ اوبامابھی اپنے ہاں کی نمک کی کان میں داخل ہوتے ہی نمک بن گئے اورانہیں قصر سفیدمیں پہلی روایتی بریفنگ میں اداروں نے اپنی ترجیحات سے مطلع کردیاکہ اوباماکوبھی بش کی پالیسیوں کی پیروی کرناہوگی جبکہ امریکی عوام نے”تبدیلی کے بینر”ہاتھوںمیں لئے امریکی الیکشن میں بھرپورحصہ لیاتھا،معیشت کوتباہ کردینے والی وحشیانہ خونی جنگی پالیسیوں میں تبدیلی کیلئے اوباما کوکرسی صدارت پربٹھایاتھا۔2008کاامریکی الیکشن دراصل عوامی ریفرنڈم کی حیثیت رکھتاتھاجس میں امریکی عوام نے بش کی تمام پالیسیوں کوٹھوکرماردی تھی لیکن اس کے باوجوددرپردہ قصرسفیدکے سرکش گھوڑے کاچابک انہی اداروں کے پاس رہاجو پچھلی کئی دہائیوں سے اپناکام کررہے ہیں ۔
یہ درست ہے کہ دنیاکے اکثرلوگ،درندہ صفت شیطان بش اوراس کے ساتھیوں کی شکست اورامریکی عوام کی فتح پرخوش تھے لیکن سوال ہے کیااوباماامریکامیں متعصب یہودیوں کے مضبوط جال سے باہرنکل کرامریکی عوام کی توقعات پر پورااترسکے؟ اس کاجواب نفی میں ہے۔ پینٹاگون اوروائٹ ہاس کے اندریہودی ایک مضبوط سازشی زمین پرفتنہ وفساد پھیلا نے والی ایسی قوت ہیں جن کی مرضی کے بغیرامریکی حکومت کوئی ایسی پالیسی بھی وضع نہیں کرسکتی۔خودامریکاکے مشہور زمانہ سینیٹر”’پال فنڈلے”’جنہوں نے اپنی ساری عمر امریکی اقتدارکی غلام گردشوں میں گزاری،امریکی حساس اداروں کے اعلی عہدوں پربراجمان رہے لیکن بالآخر1985میں اپنی کتاب”دے ڈئیرٹواسپیک آؤٹ” میں اس یہودی لابی کاساراکچاچٹھاکھول کررکھ دیا۔کئی برس تک ان کی کتاب کوشائع نہیں ہونے دیاگیااوراس ساری صورتحال کا بھی اسی کتاب کے آغازمیں تفصیلاً ذکرموجودہے۔
صدارتی فتح حاصل کرنے کے بعداوباماکی طرف سے پہلااعلان وائٹ ہاؤس کے نئے چیف آف اسٹاف کی تقرری کاسامنے آیااور انہوں نے”ریم ایمانوئیل”اسرائیلی نژاد یہودی کووائٹ ہاؤس کانیاچیف آف اسٹاف بناکرطاقتورحلقوں کے ہاتھوں شکستِ فاش اوراپنی اطاعت کااعلان کردیا۔الیکشن رزلٹ کے بعد9نومبر2008کویہ اعلان بھی سامنے آگیاکہ اوبامانے شرپسند،فتنہ انگیزہندوتنظیموں کی پشت پناہی کرنے والے متعصب بھارتی ہندو”سونل شا”کواپنااقتصادی مشیرمقررکردیاہے۔دنیاکے لوگوں بالخصوص مسلمانوں کواس صورتحال کودیکھ کریہ اندازہ توہوگیاکہ اوباماالیکشن رزلٹ کے فورابعدیہودوہنود،اسرائیل وبھارت کے جادوکاشکارہوچکا ہے اوراب اوباما انتخابات میں کئے گئے وعدوں کی پاسداری کرنے کی بجائے اس کرہ ارض پرامن کاراستہ اختیارکرنے سے قاصرہے اوروہ بھی بش کی شروع کی گئی کروسیڈ(صلیبی جنگ)کوجاری رکھے گابلکہ اوباماکے ہاتھوں اس جنگ میں مزیدشدت پیداکی جائے گی۔وہ جنگ جو2001 سے جاری ہے،وہ اب اک نئے اندازسے جاری رہے گی جہاں مسلم حکمرانوں کے سامنے امریکی امن کی خواہش اورمسلمانوں سے مزیدقربت کااظہاراوردرپردہ اس خطے میں اپنی جارحیت پرپردہ ڈال کراپنی کامیابی کاحصول ہوگا۔پھروقت نے یہ ثابت کردیاکہ اوبامانے تمام مسلم دنیا کوخطاب کرنے کیلئے اپنے پٹھومصری حکمران حسنی مبارک کی میزبانی میں قاہرہ مصرکاانتخاب کیااوراپنی چکنی چپڑی باتوں سے مسلم امہ کو یقین دہانی کروانے کی کوششیں کیں لیکن تاریخ نے یہ ثابت کردیاکہ اوباما کاکردارکسی طورپربھی بش سے کم خوفناک نہیں رہااوراوباماکی تقریر پر میراتجزیہ صدفی صددرست رہا۔
ہمارے ہاں بیشتراس غلط فہمی میں رہے کہ امریکامیں جنگی جنون میں مبتلاحملہ آورکر وسیڈیوں کے خلاف مزاحمتی جنگ اس وقت تک جاری رکھنی ہوگی جب تک صلیبی افواج افغانستان اورعراق سے اپنے مما لک میں واپس نہیں چلی جاتیں لیکن میرااس وقت بھی یہ کہناتھاکہ امریکا یہودی نژاد”ہنری کسینجر”کے مرتب کردہ خوفناک پلان”ون ورلڈآرڈر” پراس وقت تک پیچھے نہیں ہٹے گاجب تک خودامریکااپنی غلط پالیسیوں کی بناپرٹوٹ نہیں جاتاجس طرح سوویت یونین بالآخرچھ ٹکڑوں میں تقسیم ہوکرروس بن گیاہے۔یہ بات سب لوگوں کے علم میں ہے کہ2001میں امریکی صدربش نے اعلان جنگ کرتے ہوئے اس جنگ کانام کروسیڈ (صلیبی جنگ)پکاراتھا۔ماضی میں تما م صلیبی جنگیں صرف دین اسلام کوختم کرنے،مسلمانوں کوہلاک کرنے اوران کے ممالک پرقبضہ کرنے کیلئے لڑی جاتی رہی ہیں ۔ امریکانے زیادہ چالبازی سے کام لیتے ہوئے کروسیڈکے کئی دیگرنام بھی رکھے مثلا ”وارآن ٹیررازم کے خلاف جنگ،دہشتگردی کے خلاف جنگ، انتہا پسندی کے خلاف جنگ،شدت پسندوں کے خلاف جنگ، عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ” وغیرہ ۔2001سے آج تک بنائے گئے اہداف میں کسی عیسائی،یہودی،ہندوسکھ کونشانہ نہیں بنا یاگیا،کسی مندر،گرجاگھر،آتشکدہ کوزمین دوزنہیں کیاگیا۔کسی کرسچن ملک یالادین (سیکولر) ملک پرحملہ نہیں کیاگیا۔
کئی ناموں سے لڑی جانے والی صلیبی جنگ میں حملہ آوروں کاہد ف صرف اورصرف مسلمان،ان کے ممالک واحدمعبود اللہ تعالی ، رسولۖ قرآن مجید،مساجداورقرآن پڑھانے والے،نمازسکھانے والے دینی مدارس رہے۔پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کی بدقسمتی یا کمزوری یہ تھی کہ اس زمانے میں ہمارے ہاں اقتدارکے سیاہ وسفیدکے مالک ڈکٹیٹرپرویزمشرف اوراس کے تمام مشیراس صلیبی جنگ میں حملہ آور کفارکے خاص اتحادی اورمددگاربن گئے اورشاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کاثبوت دینے لگ گئے۔ان صلیبی افواج نے ہمارے قبائلی علاقوں اورسوات میں فضائی بمباری کے ذریعے اورافغانستان کی سمت سے امریکی ونیٹو افواج اور جاسوس طیاروں کوسرزمین پاکستان پر حملہ آورہونے کے مواقع فراہم کرکے تقریباًہرروزمسلمانوں کاقتل عام کیا۔ستم ظریفی کی بات تویہ ہے کہ اس پرائی جنگ میں جان ومال کی قربانی دینے والے ملک پر430ڈرون حملوں1750/ افرادکے پرخچے اڑا دیئے گئے بلکہ جونہی 18جون2004 کو واناوزیرستان میںنیک محمدسمیت5افرادکواپناہدف بناتے ہوئے پہلے”ایم کیونائن ڈرون”حملہ میں شہیدکردیا تو مشرف نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے قوم کے سامنے جھوٹ بولالیکن فوری طورپرپینٹاگون نے اپنے غلام کے جھوٹ کاپردہ چاک کرتے ہوئے اسے اپناکارنامہ قرار دے دیا۔
اپریل 2011 میں پاکستانی فوجی اور سیاسی حکام نے امریکا سے ڈرون حملے بند کرنے کے لیے کہا، زخمیوں کا علاج کرنے والے طبیبوں نے بتایا ہے کہ امریکی ڈرون کے ذریعہ کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ حملہ کے بعد امدادی کارروائی کرنے والوں پر امریکی ڈرون دوبارہ حملہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مرنے والوں کے جنازہ پر بھی ڈرون پھر حملہ کرتے ہیں۔ ان ڈرون کو امریکی فوجی اور کارندے چلاتے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ہرہفتے قتل کیلئے افرادکاانتخاب خود امریکی صدربارک اوباما کرتاتھا۔ اوباما نے 2012 میں دوبارہ صدارت جیتنے کے بعدبھی پاکستان پرڈرون حملے جاری رکھے اورامریکی تاریخ میں سب سے زیادہ ڈرون حملے اوباماکے حکم پر کئے گئے۔پاکستان کے علاوہ دیگرمسلمان ممالک،افغانستان،یمن اورصومالیہ پربھی ڈرون حملوں کے ذریعے مسلمانوں کوتہہ تیغ کیاگیا۔
ٹاپ سیکرٹ دستاویزات اور سفارتی مراسلوں کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ سی آئی اے نے پاکستانی حکام سے ڈرون حملوں پر معلومات کا تبادلہ کرنے کیلئے خصوصی دستاویزات تیار کیں۔ پاکستانی حکام نے نہ صرف کئی برسوں سے امریکی ڈرون حملوں کی توثیق کی ہے بلکہ انھیں ان حملوں اور ہلاکتوں کے بارے میں بریفنگ بھی دی جاتی رہی ہے۔ امریکی اخبار نے سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات جن میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں درجنوں ڈرون حملوں کا ذکر کیا گیا اور ان کے ساتھ نقشے اور حملے سے قبل اور بعد کی تصاویر بھی ہیں۔امریکی اعداد و شمار کے مطابق 2006سے لیکرآخری ڈرون حملہ تک پاکستان میں 389ڈرون حملے کئے گئیجن میں2ہزار 797 افرادکوٹارگٹ کرکے قتل کیاگیا جبکہ اس کے علاوہ200کے لگ بھگ عام شہریوں کوبھی شہیدکردیاگیاجبکہ مقامی افرادکے مطابق حقیقت میں صحیح اعدادوشماراس سے کئی گنازیادہ ہیں۔قصرسفیدکے فراعین نے صرف مسلم ممالک پاکستان کے علاوہ افغانستان،صومالیہ،یمن اورلیبیامیں بھی ڈرون حملوں کے ذریعے ہزاروں مسلمانوں کوشہیدکیا۔سب سے زیادہ ڈرون حملوں کاحکم اوبامانے دیا۔
اس پرائی جنگ میں73ہزارافرادکی قربانی اور100بلین ڈالرکے نقصان کے باوجودہمارے سیاسی جمہوری حکمرانوں کی تائید اور سپہ سالا ر کی کمان میں،پاکستانی قوم کی تنخواہ دار افواج نے نمک حلالی اورجوانمردی کی بے شمارمثالیں قائم کیں۔امریکانے ہزاروں بستیوں کو رہائشیوں سمیت جلا ڈالا،ہزاروں مساجداورلاکھوں قرآن مجیدکے نسخے شہید ہوئے ۔کئی لاکھ مسلمان ہلا ک کردیئے گئے،کئی لاکھ مفلوج اور کئی لاکھ بے گھرکردیئے گئے اورآج بھی پاکستان میں مختلف افغان مہاجرین کے کیمپ اس ظلم وستم کی گواہی کیلئے موجودہیں ۔
ابھی یہ ستم ختم نہیں ہواتھاکہ غزہ میں گ وخون کاہولناک کھیل جاری ہوگیا۔درجنوں پڑوسی مسلم ممالک صرف زبانی احتجاج سے آگے نہ بڑھ سکے ۔پچھلے چھ مہینوں سے غزہ کے مسلمان اس جوانمردی سے مقابلہ کررہے ہیں کہ خوداسرائیل جوفرعونی طاقتوں کی زبان میں فلسطین کانام ونشان مٹانے کادعویٰ کررہاتھا،اب تک اپنے مغویوں کوبازیاب نہ کراسکا اوربالآخراپنی شکست کااعتراف کرتے ہوئے مذاکرات کی میزپربیٹھاالتجاکررہاہے۔یادرہے کہ نیتن یاہواپنی سیاسی مکاریوں اورداؤپیچ کی بنا پراسرائیل کا طویل ترین وزیراعظم کاریکارڈقائم کر چکا ہے۔ 2017میں کرپشن کے سنگین الزامات کے بعداس کے مخالفین اس کی دائمی سیاسی موت کیلئے بڑے پریقین تھے کہ یہ2022میں انتہائی دائیں بازوکی جماعتوں کی مددسے چھٹی باروزارتِ عظمی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔اقتدارمیں آتے ہی اپنی کرسی کومضبوط کرنے کیلئے کچھ اہم عدالتی اختیارات پارلیمنٹ کومنتقل کرنے کی کوشش کی جس پرحزبِ اختلاف اورسول سوسائٹی نے ایسی سخت مزاحمت کی کہ لگتاتھاکہ اب یقینانیتن یاہوکابسترگول ہوجائے گالیکن اچانک 7/اکتوبرکوحماس کے ساتھ جنگ شروع ہونے پرسیاسی دلدل میں غرق ہونے سے صاف بچ گیا۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی سیاسی تجزیہ نگاربھی غزہ میں طویل جنگ جاری رکھنے پریہ کہنے پرمجبورہوگئے ہیں کہ جنگ بندی کی صورت میں نیتن یاہو پردوبارہ استعفیٰ کیلئے دباؤبڑھ جائے گا اوراستعفیٰ کی صورت میں پرانے الزامات اورمقدمات ان کی راہ بے چینی سے تک رہے ہیں جن کے نتیجے میں نیتن یاہوکی بقیہ زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرے گی۔نیتن یاہو کیمپ کانظریہ ہے کہ جب ملک حالتِ جنگ میں ہو تو انتخابات چہ معنی دارد۔ویسے بھی رائے عامہ کے مختلف جائزوں کے مطابق اس وقت اوسطا70فیصدسے زائداسرائیلی شہری یرغمالیوں کے بے یقین مستقبل کے باوجود غزہ کی مہم کو منطقی انجام تک پہنچانے کے حق میں ہیں۔ادھرنیتن یاہوبھی یہ سمجھتاہے کہ اس کی سیاسی بقا بھی خطے میں ایسی جنگ میں مضمرہے جہاں اسرائیلی باشندوں کویہ یقین دلادیاجائے کہ اسرائیل کی سلامتی کیلئے نیتن یاہوکس قدرضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہونے انتہائی مکاری سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دمشق شام میں ایران کے سفارت خانے پر حملہ کرکے وہاںالقدس فورس کے دو اعلی عہدیداروں سمیت آٹھ افرادکوہلاک کردیاجس کاواضح مطلب یہ ہے کہ وہ اس علاقے میں جنگ کے شعلوں کوہوادیکرایک بڑی جنگ کا آغازکرناچاہتا ہے جہاں ایک مرتبہ پھرنئی صلیبی جنگ کاماحول پیداکیاجاسکے ۔ایران نے اپنے فوری اورشدیداحتجاج میں یہ واضح کردیاکہ وہ اس جارحیت کاجواب ضرور دے گااوراس نے اسرائیل کے مربی امریکاکوبھی آگاہ کردیاجس پر امریکی صدرجوبائیڈن نے چنددن قبل عالمی میڈیاپرایرانی حملے کے خدشات کااظہاربھی کردیاتھا۔
بالآخرایران نے اپنے سفارت خانے پرحملے کے جواب میں ہفتہ کی رات محدودجنگ کانام دیتے ہوئے اسرائیل پر170دھماکہ خیز ڈرون،360مختلف خطرناک ہتھیاروں ، کروزمیزائل،120بیلیسٹک میزائل داغ دیئے جبکہ اسرائیلی فوج کادعویٰ ہے کہ 99فیصد میزائلوں اورڈرونزکوہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی”ایرو”نامی فضائی دفاعی نظام اورخطے میں موجود اپنے دفاع میں مددکرنے والے ممالک میں امریکااوراردن سمیت اتحادیوں کی مددسے ناکام اورناکارہ بنادیاہے۔
امریکی وزیردفاع لائیڈآسٹن کے مطابق امریکی فوج نے درجنوں میزائلوں اورڈرونزکوناکام بنایاہے۔برطانوی لڑاکا طیارے بھی اس حملے میں شامل تھے اوراسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہناتھا کہ فرانس نے فضائی حدود میں گشت کر کے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ادھر جو بائیڈن نے اسرائیل پرایرانی حملے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے ساتھ فون پربات چیت میں کہا کہ امریکاایران پر ممکنہ اسرائیلی جوابی حملے میں حصہ نہیں لے گا۔اس وقت عالمی سیاسی منظرپرعجیب کھچڑی پک رہی ہے۔اگرنیتن یاہواپنے اقتدارکی جنگ جیتنے کیلئے یہ اقدام کررہاہے تو کیاایران واقعی غزہ میں قتل وغارت کے چھ ماہ بعدہوش میں آیاہے کہ مٹھی بھر یہودیوں کوڈیڑھ ارب مسلمانوں کویرغمال بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ایسی صورتحال میں قرآن مجید مسلمانوں کی رہنمائی کرتاہے:جولوگ پکے ایمان والے ہیں وہ تواللہ کی راہ میں جہادکرتے ہیں اورجولوگ کافرہیں وہ شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں توتم شیطان کیساتھیوں سے جہادکرو۔واقعی شیطانی تدبیرلچرہوتی ہے(نسا: 76)۔بلاشک جولوگ ہماری آیات کے منکرہوئے ہم ان کوعنقریب ایک سخت آگ میں داخل کریں گے جب ایک دفعہ ان کی کھال جل چکے گی توہم اس پہلی کھال کی جگہ فورادوسری کھال پیداکردیں گے تاکہ عذاب بھگتتے رہیں۔بلاشک اللہ تعالی زبردست حکمت والے ہیں(نساء :86)
سرے محل اورسوئس اکاؤنٹ والے زرداری اورشریف خاندان،وزرااورمشیران وغیرہ اوردیگرتمام مقتدرحلقے جو2001سے لیکرامریکی اوراتحادی افواج کے انخلاتک امریکی پرچم کے زیرسایہ لڑی جانے والی صلیبی جنگ میں کروسیڈکے اتحادی یا مددگاررہے،آیات مبارکہ سے ہرچیزواضح ہوجاتی ہے کہ وہ شیطان کے ساتھی رہے۔یہ فیصلہ اللہ تعالی کاہے جس کی سلطنت آسمانوں اورزمین میں ہے۔وقت کی یہ پکارہے کہ دنیاکے مسلمان سورہ توبہ کوبغورپڑھیں ۔ کچھ بھی نہیں،پہلے کون رہا ہے یہاں،جواب رہے گا۔کچھ بھی تونہیں رہے گا،بس نام رہے گامیرے رب کا۔