فوجی عدالتوں میں سویلینز کو کتنی سزا ہوگی، حکومت سے جواب طلب
شیئر کریں
فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے کیس میں اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعہ پر فوج نے لچک کا مظاہرہ کیا۔سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔اٹارنی جنرل نے 9 مئی واقعات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کور کمانڈر ہاؤس لاہور ، میانوالی ، سیالکوٹ ، راولپنڈی ، بنوں میں واقعات پیش آئے، پی ایف بیس میانوالی کی باؤنڈری دیوار کو نشانہ بنایا گیا، جہاں میراج فائٹر طیارے موجود تھے، حمزہ کیمپ آئی ایس آئی آفس راولپنڈی، سگنل میس اور اے ایف آئی سی ، چکلالہ راولپنڈی پر بھی حملے ہوئے۔یہ واقعات اچانک نہیں منظم طریقے تھیانہوں نے بتایا کہ فیصل آباد میں آئی ایس آئی دفتر پر حملے میں ملوث افراد مسلح تھے، 62 واقعات صرف پنجاب میں پیش آئے، جن میں 198 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 250 لوگ زخمی ہوئے، نو مئی واقعات میں مجموعی طور پر 2.5 بلین روپے کا نقصان ہوا، یہ واقعات اچانک نہیں منظم طریقے سے کیے گئے، پاکستان کو اندرونی اور بیرونی دہشت گردی کا سامنا رہا۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعے پر فوج نے لچک کا مظاہرہ کیا، فوج ہتھیار چلانے میں مکمل تربیت یافتہ ہوتی ہے، فوجی افسران کی پولیس کی طرح مظاہرین سے نمٹنے کی تربیت نہیں ہوتی، انہیں اس طرح کے جتھوں کو منتشر کرنا نہیں سکھایا جاتا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوجی صرف گولی چلانا جانتے ہیں؟اٹارنی جنرل نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ان وجوہات کی بنا پر فل کورٹ تشکیل دیکر مقدمے کی سماعت کرے، فل کورٹ کی استدعا کی ایک وجہ پہلی مرتبہ سیاسی جماعت کی جانب سے عسکری تنصیبات پر حملے ہیں، دوسری وجہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا شرپسندوں پر اطلاق ہونا ہے، اس نوعیت کا مقدمہ پہلی مرتبہ سپریم کورٹ میں آیا ہے اس لئے فل کورٹ کی استدعا کی، سپریم کورٹ ماضی میں بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل درست قرار دے چکی ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ماضی میں فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے نتیجے میں بنی تھیں، اصل سوال یہ ہے کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں۔