میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ میں خواتین پر مظالم کی انتہا‘ قتل اور اغوا کی وارداتیں معمول بن گئیں!

سندھ میں خواتین پر مظالم کی انتہا‘ قتل اور اغوا کی وارداتیں معمول بن گئیں!

ویب ڈیسک
جمعه, ۳۰ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

صرف پانچ ماہ میں 44عورتوں کو کاروکاری کے الزام میں قتل اور 76عورتوں کو اغواکیاگیا،75خواتین نے خودکشیاں کرلیں
ہندو لڑکیاں گھر سے بھاگ کر اسلام قبول کرکے مسلمان لڑکوں سے شادیاں کرتی ہیں تو اپنے فیصلے پر قائم رہتی ہیں
(ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی چونکا دینے والی رپورٹ)
الیاس احمد
سندھ کو صدیوں سے صوفیوں اور ولیوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ یہاں امن وآشتی کے قصے سناکر مثالیں دی جاتی تھیں لیکن اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔ سندھ میں عورت کی عزت وتکریم ایسی کی جاتی رہی ہے کہ دنیا بھی حیران رہ جاتی تھی لیکن اب خواتین کے ساتھ ناروا سلوک اور وحشیانہ کارروائیوں کے باعث دنیا میں ندامت اُٹھانا پڑ رہی ہے۔ کیونکہ اب عورت کو اغواء کرنا‘ قتل کرنا معمولی بات ہوگئی ہے۔ کتنی بھی قانون سازی کی جائے کتنے بھی آئینی اختیارات استعمال کیے جائیں لیکن خواتین اب غیر محفوظ ہوتی جارہی ہیں۔
ہیومن رائٹس گروپ کے چیئرمین احسان احمد کھوسو نے اس ضمن میں ایک چونکا دینے والی رپورٹ جاری کی ہے لیکن اس پر حکومت سندھ نے تاحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا کیونکہ حکومت سندھ کو صرف اپنے مفادات کی پرواہ ہے حکومت سندھ کی خواتین کے حقوق اور عزت واحترام کا یہ حال ہے کہ سندھ کابینہ میں ایک صو بائی وزیر شمیم ممتاز تھیں جن کو ہٹاکر ضیاء الحسن لنجار کو صوبائی وزیر بنادیاگیا۔ اب سندھ میں ایک بھی خاتون وزیر نہیں ہے۔ ہیومن رائٹس گروپ نے سوئی ہوئی حکومت سندھ کوجگانے کی ایک کوشش کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت سندھ جاگتی بھی ہے یا پھر سوئی رہتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق صرف پانچ ماہ میں سندھ کے اندر50 سے زائد خواتین پر گھریلو تشدد کیا گیا۔ 44عورتوں کو کاروکاری کے الزام میں قتل کیاگیا۔75خواتین نے مظالم اور ناانصافیوں سے تنگ آکرخودکشیاں کرلیں۔ سندھ میں76عورتوں کو ان پانچ ماہ کے اندر اغوا کیاگیا۔ قانون کے مطابق 16سال سے کم عمر لڑکی کی مرضی سے یا زبردستی جنسی عمل کیا جانا زنا کے زمرے میں آتا ہے۔18سال سے کم عمر لڑکی کی شادی جائز نہیں ہے اور اگر کوئی مرد چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کرے گا تو اس کے لیے عمر قید کی سزا مقرر ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ نکاح خواں لڑکی اورلڑکے کا نکاح کرنے سے قبل دونوں کا شناختی کارڈ چیک کریں۔ سندھ میں خواتین کو بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ خواتین کے ساتھ ناانصافیوں کے 379 واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں اغواء‘ قتل‘ زنابالجبر‘گھریلو تشدد جیسے واقعات شامل ہیں۔ 22خواتین کی آبروریزی کی گئی۔ صرف ضلع خیرپور میں خواتین کے ساتھ49واقعات پیش آئے ہیں جن میں14خواتین کو اغواء کیاگیا ہے اور6خواتین نے تنگ آکرخودکشیاں کی ہیں۔ 3 خواتین کو کاروکاری کے الزام میں قتل کیاگیا اور 2خواتین کی آبرورزی کی گئیں۔ نوشہروفیروز میں10خواتین کو اغوا کیا گیا۔ 6خواتین کو قتل کیاگیا4خواتین نے خودکشیاں کرلیں۔9 خواتین پر گھریلو تشدد کیاگیا اس طرح33واقعات پیش آئے۔ ضلع لاڑکانہ میں24واقعات پیش آئے جس میں8خواتین کواغواکیاگیا۔ تھرپارکر میں8خواتین نے خودکشیاں کیں۔ ضلع نوشہروفیروز میں 10 خواتین کو اغوا کیاگیا اورشکارپور میں7خواتین کو اغوا کیاگیا ہے۔ نوشہروفیروز میں33‘شکارپور میں24‘ لاڑکانہ میں24‘ سکھر میں21‘ گھوٹکی میں22‘ حیدرآباد میں18‘ دادو میں19‘جامشورو میں14‘کراچی میں14‘ حیدرآباد میں18‘ دادو میں19‘جامشورو میں14‘ کراچی میں14‘سانگھڑ میں18‘ بدین میں13‘ میرپورخاص میں9‘ تھرپارکر میں12‘ عمرکوٹ میں8‘ٹھٹھہ میں6‘کشمور میں12‘ نوابشاہ میں8‘ مٹیاری میں7‘ ٹنڈوالہیار میں4واقعات پیش آئے ہیں جس میں خواتین کو نشانا بنایاگیا۔
رپورٹ میں اعتراف کیاگیا ہے کہ ہندو لڑکیاں گھر سے بھاگ کر مسلمان ہوجاتی ہیں اور مسلمان لڑکوں سے شادی کرتی ہیں تو وہ اپنے فیصلے پر قائم رہتی ہیں اور عام تاثر یہ ہے کہ وہ اپنے سماج سے تنگ آکر انتہائی قدم اٹھاتی ہیں۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ 12سال قبل ضلع جیکب آباد سے فضیلہ سرکی کو اغواکیاگیا تھا اور تاحال اس کو بازیاب نہیں کرایا گیا۔ جس وقت فضیلہ سرکی اغواہوئی تھی اس وقت اس کی عمر بمشکل8برس تھی ان کے اغواء کے بعد ان کے والدین دربدر ہوگئے ہیں اور دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ سندھ پولیس 12سالوں میں فضیلہ سرکی کو بازیاب نہیں کراسکی۔ سندھ اسمبلی نے متعدد قوانین پاس کیے ہیں لیکن تاحال کسی ایک قانون پر عمل نہیں ہوا ہے۔ کم عمر بچیوں کی شادی کرانے والے نکاح خواں نکاح نامہ میں عمر18سال لکھ دیتے ہیں تاکہ وہ سزا سے بچ سکیں۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ نکاح نامے میں شناختی کارڈ نمبر بھی درج کرائے تاکہ پتہ چل سکے کہ لڑکی کی عمر کتنی ہے؟ رپورٹ میں ملیر میں سدرا سندیلو کو جلاکر قتل کرنے کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ اتنے انسانیت سوز واقعہ میں تاحال پولیس ایک بھی ملزم کو بھی گرفتارنہیں کرسکی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر خواتین کے ساتھ بربریت کے واقعات رونما ہورہے ہیں کسی ایک بھی ملزم کوتاحال سخت سزا نہیں ملی ہے جس کی وجہ سے دوسرے ملزم بھی ہوشیار ہوجاتے ہیں اور وہ خواتین کو مظالم کا نشانا بنانے سے باز نہیں آتے۔
رپورٹ میں حکومت سندھ اور انسانی حقوق کی تنظیموں‘ سماجی تنظیموں‘ سیاسی و مذہبی جماعتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس اہم ایشو پر مل بیٹھ کر ایک حل نکال لیں تاکہ خواتین کے ساتھ جوظلم اور ناانصافی ہورہی ہے وہ ختم ہوجائے۔ اس رپورٹ کے منظرِعام پر آنے کے بعد تاحال حکومت سندھ نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ۔حکومت سندھ اتنے بڑے مسئلہ کو سنجیدہ سے ہی نہیں لے رہی۔ روزانہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا ایسی خبریں دے دے کر تھک گئے ہیں۔ روزانہ کہیں نہ کہیں کوئی عورت قتل یا اغواہورہی ہے یا اس کی آبروریزی ہورہی ہے یا پھر ان کو گھریلو تشدد کا نشانا بنایا جارہا ہے لیکن اس پر حکومت سندھ نے کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی۔ پولیس کو واضح احکامات بھی نہیں دیے گئے ہیں کہ وہ ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرکے انہیں عدالتوں میں پیش کریں اور انہیں سزائیں دلوانے کے لیے کیس مضبوط بنائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی گھنائونی حرکت نہ کرسکے۔ پولیس بھی اب سیاسی رہنمائوں کی غلام بن چکی ہے۔ ان کو اپنی نوکری کی فکر ہے وہ بھی سیاسی رہنمائوں کے حکم پر عمل کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کے ساتھ ظلم کے باوجود پولیس متحرک نہیں ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں