منفی سوچ کیوں پیدا ہوتی ہے…؟؟ رائے سے پہلے تجزیہ ضروری ہے
شیئر کریں
عبدالعظیم حسن زئی
کسی بھی چیز کو مفید یا مضر قرار دینے کے لیے اس کی تمام جزئیات پر غور وفکر کرنا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح کسی قوم کے بارے میں رائے دینے سے پہلے اس قوم کے اچھے اور بُرے دونوں قسم کے افراد کوسامنے رکھنا چاہیے۔ تاریخ اور تاریخی واقعات میں بھی فیصلہ کرتے وقت مثبت اور منفی پہلو دونوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اس بات کو ہم قصہ ِآدم سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے اپنے پروگرام کااعلان کیا کہ میں انسان کو زمین میں خلیفہ بنارہاہوںتوفرشتوں نے انسانی تاریخ کو مدنظر رکھ کر عرض کیاکہ اس کی تاریخ تو شروفساد اور خون خرابے سے مرقع ہے۔(یاد رہے کہ فرشتوں نے انسان کی تخلیق پر اعتراض نہیںکیا تھا اس وقت تو سب نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیاتھا مگر جب اس انسان کو کسی دور میں خلیفہ بنانے کا اعلان ہواتو فرشتوں نے انسان کی گزشتہ تاریخ کو دیکھ کر یہ عرض کیاتھا کہ یہ تو خون خرابے اور فساد کرنے والی مخلوق ہے ،زمین میں بگاڑ پیدا کرے گی)مگراللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ میں وہ کچھ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے۔ مطلب یہ تھا کہ تمہاری نظرصرف اس کے ایک پہلو یا ایک طرح کی عادت اور صفت پر ہے اور ایک یا چند صفات کو مدنظر رکھ کر بقیہ اچھی صفات کو تم نے نظر انداز کردیاہے۔ مثلاً انسان میں علم حاصل کرنے کی صلاحیت ہے اس صلاحیت کی بنیاد پر یہ اشیائے کائنات کو جان سکتا ہے ان پر تحقیق کرکے ان سے فائدہ اٹھاسکتاہے جب انسان کی یہ مثبت صفت فرشتوں کے سامنے بیان کی گئی تو انہوں نے اپنی سابقہ رائے سے رجوع کرلیا۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ کسی بھی چیز کے بارے میں رائے دیتے وقت یا فیصلہ کرتے وقت اس چیز کی تمام صفات اور حالات، فوائد اور نقصانات کو مدنظر رکھ کر جانبِ راجح کی بنیاد پر فیصلہ دینا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے سے ہی ذہن نہ بنالیں، پہلے سے ہی اگر ہم منفی سوچ کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں سوچیں گے تو اس چیز کے مثبت پہلو کبھی ہمارے سامنے نہیں آئیں گے۔ ہم اس چیز کی اچھائیوں میں بھی عیوب تلاش کریں گے۔ اس کا نقصان اس چیز کو تو نہ ہوگا بلکہ اس سے فائدہ نہ اٹھانے والے کو ہوگا۔
منفی سوچ کیوں پیدا ہوتی ہے؟ کسی بھی چیز کے بارے میں ناقص معلومات کی بنا پر فوری فیصلہ کرنا، یا تقلیدی سوچ یعنی خود تجزیہ کرنے کے بجائے سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے حکم لگانا۔ یا اپنے ذہن میں خود ہی خیر وشر کے پیمانے مقرر کرلینا۔ اب اگر ان خود ساختہ پیمانوں پر کوئی چیز صحیح نہیں اترتی تو اس کے بارے فیصلہ دیناکہ یہ غلط ہے۔ اسی طرح بعض لوگ جب خود کسی خوبی سے محروم ہوں تو وہ اس خوبی کو عیب سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور پھر وہ خوبی جہاں نظر آتی ہے اس میں عیوب تلاش کرتے ہیں۔ اشیاء میں غور وفکر اور تجزیہ کے بغیر ہی تنقید کرنا، کسی چیز کو عیوب کا مجموعہ قرار دینا، اس کے مثبت پہلوؤں پر غور نہ کرنا اس کی ایک مثال مغربی تعلیم ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اکثر وبیشتر مغربی تعلیم پر تنقید ہوتی ہے اور دیگر مسلم ممالک میں بھی بہت سے مصنفین ہمیشہ مغربی تعلیم کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ اس تعلیم کو بے حیائی فحاشی، عریانی، بے راہ روی، نوجوان نسل کی گمراہی، عورتوں کی بے پردگی، بدکاری وغیرہ کا سبب بتایاجاتاہے۔ اور بطور مثال کالجز، یونیورسٹیز، اسکولز کے طلبہ وطالبات کے کرتوتوں کو پیش کیاجاتاہے۔ یا مغربی ممالک کی اخلاق باختہ تہذیب کو اس تعلیم کے نتائج قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اس بارے میں فوری فیصلہ کرنے کے بجائے ہمیں کچھ غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اس تعلیم کے فوائد پر بھی نظر رکھنی ہے اور یہ بھی دیکھناہے کہ اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز میں بعض طلبہ وطالبات میں اخلاقی میںدیوالیہ پن ہوتاہے کیاوہ اس تعلیم کی وجہ سے ہے؟ یورپ یا مغرب کے غیر اخلاقی اعمال اس تعلیم کی پیداوار ہیں؟ اس بارے میں تجزیے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ مغربی تعلیم اور مغربی تہذیب دونوں میں فرق ہے۔ دونوں لازم ملزوم نہیں ہیں۔ بلکہ تعلیم مفید اور تہذیب مضر ہے۔ مثلاً
(۱) تعلیم:جب ہم مسلمان فخر سے یہ بات کہتے ہیں کہ موجودہ تمام سائنسی علوم کے اصل موجد ہمارے اجداد یعنی مسلمان ہی ہیں تو پھر اگر اس تعلیم کا نتیجہ گمراہی، بے حیائی اور اخلاق باختگی ہے تو اس کا ذمہ دار پھر کون ہوگا؟ اس کے موجد ہی ہوں گے دوسری بات یہ ہے کہ جن مسلمان اکابر نے یہ علوم ایجاد کیے تھے کیا وہ بے حیائی، فحاشی اور بے راہ روی میں مبتلا ہوگئے تھے؟نہیں، ہرگز نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غلط کام اس تعلیم کا نتیجہ یا یہ تعلیم ان امور کا سبب نہیں ہے۔
(۲) موجودہ دور میں دیکھیں تو ان مغربی علوم کے بہت بڑے مسلم تعلیم یافتہ گان میں نمایا ںنام(۱) ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی،جنہوں نے بلڈ پریشر کی دواایجاد کی۔ ان کے گھرانے میں کوئی فحاشی پیدانہیں ہوئی۔(۲) دوسری مثال ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہے،جو کراچی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہالینڈ گئے وہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، وہاں پرہی شادی کی۔ مگر آج بھی وہ اسلامی اخلاق وکردار کے پابند ہیں ان کی غیر ملکی بیوی یا انکی بیٹیوں کے بارے میں بھی کسی نے نہیں سنا کہ کسی مخرب اخلاق حرکت کی مرتکب ہوئی ہوں۔(۳) تیسری مثال ڈاکٹر فرحت ہاشمی کی ہے جو آکسفورڈ یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں مگر مکمل باپردہ، اور قرآن کی مبلغہ ہیں۔(۴)عائشہ نامی خاتون جو جہاز کی پائلٹ ہیں۔ مکمل پردے میں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ پائلٹ بننے کی تعلیم بھی یہی مغربی تعلیم ہے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں ہی حاصل ہوتی ہے۔(۵)فرانس، برطانیہ جیسے ممالک میں پڑھنے والی مسلم طالبات اسکارف پر پابندی کے خلاف عدالتوں میں کیس دائر کرچکی ہیں کہ ہمیں اسکول، کالج میں اسکارف باندھنے یعنی باپردہ رہنے کی اجازت دی جائے۔
یہ چند مثالیں ہیں اس طرح کی دیگر بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ مغربی تعلیم حاصل کرنے، انگلش میڈیم اسکول میں پڑھنے، کالجز ،یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ان کے مسلم عقیدے، یا اسلامی کردار میں کوئی بگاڑ پیدا نہیں ہوا تو گویا بے راہ روی کی وجہ اور بے حیائی کا سبب یہ تعلیم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ مغربی تعلیم کا نصاب مثلاً طب،سائنس وغیرہ کی جو کتب ان کالجز یایونیورسٹیز میں پڑھائی جاتی ہیں ان میں کس کتاب میں لکھاہے کہ اس مضمون کو پڑھنے کے لیے لڑکی کا بے پردہ ہونا ضروری ہے؟ لڑکے اور لڑکیوں کاآپس میں عاشق معشوق ہونا ضروری ہے۔ گرل فرینڈ او ربوائے فرینڈ بننے بنانے کے بغیر انجینئر یا ڈاکٹر یا سائنسدان، قانون دان، سیاستدان نہیں بن سکتا؟۔یہ کسی بھی فن کی کسی کتاب میں نہیں لکھا تو پھر اس نصاب کا کیا قصور؟ یہی نصاب ڈاکٹرعبدالقدیر خان، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی مرحوم، ڈاکٹر ثمر مبارک، فرحت ہاشمی، عائشہ ملک وغیرہ نے پڑھا وہ توبے حیائی میں مبتلا نہ ہوئیں۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ اس تعلیم میں کوئی ایسی بنیادی خرابی یا اس کا لازمہ نہیں ہے کہ ہر مغربی تعلیم یافتہ شخص یا خاتون لازمی طور پر بے حیائی میں مبتلا ہوگی۔
مغربی تہذیب: مغرب کی تہذیب وہاں کے طرز زندگی یا وہاں کے باشندوں کی اخلاقی کمزوریاں ان کو بے حیائی اور اخلاق باختگی میں مبتلا کرچکی ہیں۔ وہاں کے اَن پڑھ لوگ بھی بے حیائی اور فحاشی وعریانی میں مبتلا ہیں اور بہت سے تعلیم یافتہ لوگ اعلیٰ اخلاق کردار کے مالک بھی ہیں۔ بہت سے لوگ مسلمانوں کے دشمن، ظالم اور درندہ صفت ہیں اور بہت سے لوگ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والے اور مظلوموں کی مدد کرنے والے ہیں۔ بہت سے لوگ مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ بہت سے لوگ اسلام اور مسلمانوں کو امن پسند قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں قسم کے طبقات مغربی تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ مغربی تعلیم ایک الگ چیز ہے اور مغربی تہذیب الگ ہے۔ موجودہ مغربی تعلیم (سائنس، قانون، فلکیات، جغرافیہ، کیمسٹری وغیرہ)کے موجد مسلمان ہی ہیں۔ جبکہ مغربی تہذیب کے موجد اخلاق باختہ لوگ ہیں۔ اگر ایک شخص بدکردار ہے تو وہ کالج ،یونیورسٹی میں بھی بدکردار رہتاہے۔ اگر باکردار ہے تو فرانس، اور برطانیہ کے کالجز میں بھی باکردار رہتاہے۔
افراد کے کردار یا کسی قوم کے عمل یا عملی کمزوری کو مغربی تعلیم سے جوڑنا مناسب نہیں ورنہ یہی اطلاق پھر اسلامی اور دینی تعلیم پر بھی ہوگاکہ بہت سے مدارس میں منتظمین غبن، کرپشن اور مال بنانے میں مصروف ہیں۔بہت سی مذہبی جماعتوں کے اکابر اقربا پروری اور ملازمین کے استحصال میں مبتلا ہیں۔ توکیا یہ اسلامی تعلیم کا قصور سمجھاجائے گا؟ ایسا تب سمجھا جائے گا جب ان غلط کاموں کا جواز اسلامی تعلیمی نصاب قرآن وحدیث میں ہو۔ اگر کوئی شخص یا گروہ اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان مذکورہ غلط کاموں کا مرتکب ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں یہ اسلامی تعلیم کا قصور نہیں ہے اس کا ذاتی عمل ہے۔ تو یہی بات ہم مغربی تعلیم کے بارے میں کیوں نہ کہیں کہ اس تعلیم کا قصور نہیں بلکہ مغرب کی اقوام وافراد کا قصور ہے ان کی انسانی کمزوریاں ہیں۔
سائنس اسلام کا موئید: اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے،ان اللہ لیؤید ھذا الدین بالرجل الفاجر(بخاری)ترجمہ:’’ اللہ اس دین کی تائید فاجر شخص کے ذریعے بھی کرتاہے۔‘‘
اب اس وقت جتنی سائنسی ایجادات ہورہی ہیں سب غیر مسلم کررہے ہیں مگر مسلمان اسلام کی تبلیغ واشاعت میں ان ایجادات سے استفادہ کررہے ہیں۔مثلاً قرآن کی طباعت بذریعہ پریس مشین غالباً سب سے پہلے روس میں ہوئی۔ اس لیے کہ پریس غیر مسلموں کی ایجاد ہے۔اسی طرح لاؤڈاسپیکر جس کا مذہبی وسیاسی پروگراموں میں اکثر بے دریغ استعمال کیاجاتاہے، یہ غیر مسلم کی ایجاد ہے۔ اسی طرح کمپیوٹر، سی ڈی، میموری کارڈ، لیپ ٹاپ، یو ایس بی وغیرہ جوکہ اب دینی کتب اور معلومات کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ پینا فلیکس وغیرہ جس کے بغیر اب کوئی دینی پروگرام نا مکمل شمار ہوتا ہے۔ ٹی وی، ریڈیو وغیرہ یہ تمام ذرائع غیر مسلموں اور سائنس کی مرہون منت ہیں ۔ کسی مسلم ملک یا کسی مذہبی تعلیمی ادارے کا ان میں کوئی کردار نہیں۔ یہ سب اللہ کے رسولﷺ کی مذکورہ حدیث کی صداقت کی دلیل ہیں کہ اللہ فاجر لوگوں سے اس دین کی تائید کروارہا ہے۔ سابقہ انبیاء کی تعلیمات محفوظ نہ رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان ادوار میں محفوظ رکھنے کے یہ ذرائع نہیں تھے اور اب بحمداللہ دین اسلام کے ایک ایک حکم، قرآن کی ایک ایک آیت، حدیث رسولؐ سب کے محفوظ رکھنے کے بے شمار ذرائع سائنسدانوں نے ایجاد کرلیے ہیں ۔
کرنے کا کام:دنیا میں جو چیز مفید ہے اس سے استفادہ کرنا چاہیے اور جو چیز مضر ہے اس سے اجتناب کرناچاہیے۔’’مغربی تعلیم‘‘ ہماری دنیاوی ضروریات میں سے ہے اس کا حصول ضروری اور مفید ہے۔ جبکہ’’ مغربی تہذیب‘‘ اسلامی اخلاق واحکام سے متصادم ہے بے حیائی اور عریانی، فحاشی کا مجموعہ ہے اس سے اجتناب کرناچاہیے۔ اور ان دونوں کو باہم یکجا اور یکساں نہیں سمجھنا چاہیے۔ دونوں کو الگ الگ رکھنا بہتر ہے۔کسی بھی چیز یا عمل کے بارے میں مکمل منفی سوچ رکھنا اس لحاظ سے نقصان دہ ہے کہ پھر ہم اس چیز کے مفید پہلوؤں سے بھی استفادہ نہیں کرپاتے۔
ہم نے گذشتہ سطور میں جن تعلیم یافتہ مگر اپنے دین اور دینی اقدار پر قائم افراد کاتذکرہ کیا اس طرح کی مثالیں اور بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں، جبکہ دوسری طرف ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو مغربی تعلیم کے حصول کے باوجود نہ تو دنیاوی لحاظ سے مہذب افراد بن سکے ہیں اور نہ ہی دینی ومذہبی اقدار اپناسکے ہیں۔ ان دونوں قسم کے افراد پر غور کرنے سے ثابت ہوتاہے کہ جن گھرانوں میں اسلامی اقدار کی پاسداری ہوتی ہے ان گھروں اور گھرانوںکے افراد مغربی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی بے راہ روی کا شکار نہیں ہوتے۔ اپنی تہذیب، روایات اور مذہبی اقدار کا لحاظ رکھتے ہیں اور جن گھروں یا گھرانوں میں دینی اقدار واحکام کی پاسداری نہیں ہوتی ان کے بچے اسکول، کالج یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی تہذیب، حیااور اخلاق نام کی کسی چیز سے واقف نہیں ہوتے۔
پس چہ باید کرد:ہمیں تہذیب، اخلاق اور حیا داری کے لیے اپنے گھروں میں، اپنے بچوں کو دینی تہذیب سے روشناس کروانا چاہیے تاکہ وہ مغربی تہذیب سے متاثر نہ ہوں اور دنیا میں اعلیٰ عہدہ، مقام اور ترقی کے لیے مغربی تعلیم بھی ساتھ ساتھ دینی چاہیے تاکہ وہ معاشی پسماندگی کا شکار بھی نہ ہوں۔