میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پڑوسی اور گھر گھسیے

پڑوسی اور گھر گھسیے

ویب ڈیسک
جمعه, ۲۹ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

زریں اختر

ہمارے پڑوس میں ہمارے بڑے تایا رہتے ہیں،چھوٹے چچا ہمارے گھر کے برابر میں تو نہیں لیکن ان کی دیوار اوربڑے تایا کی دیوار ملتی ہے۔ پہلے ہماری چھوٹے چچا سے دوستی تھی حالاں کہ ہماری دیوار نہیں ملتی تھی لیکن اب ہمارے ان سے تعلقات ابّا سے جائیداد کے مسئلے پر اتنے خراب ہوئے کہ نوبت خون خرابے تک پہنچ گئی ۔چھوٹے چچانے بڑے تایا سے مل کراپنے حق میں فیصلہ کرالیا،ابّا منہ دیکھتے رہ گئے ۔وہ چھوٹے چچا کو اپنا پانچواں بیٹا کہتے تھے لیکن چھوٹے چچا کہتے تھے کہ سمجھا انہوں نے بھائی بھی نہیں کہتے بیٹا ہیں۔ ہمارے بڑے تایا اور ابّا بڑے گھر میں ایک ساتھ رہتے تھے ۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہمارے ہاں دور کے مہمان آئے کہ ہماری فصل بہت اچھی ہوتی تھی ۔ لکٹر دادا ان کو کھیتوں کی سیر کرانے لے گئے ،ان کا دل یہاں ایسا لگاکہ انہوں نے ہمارے محلے میںہی کئی گھر خرید لیے اور ٹھاٹھ باٹھ تو ایک طرف زور دعوے سے رہنے لگے ۔اب انہوں نے ہمارے لکڑ دادا کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تمہارے دادا نے دو شادیاں کی تھیں ،اور تایا اس دوسری دادی کی اولاد میں سے ہیں،ہمارے لکٹر دادا ذات پات پر تو یقین نہیں رکھتے تھے لیکن تھے کٹر مولوی اور جب انہیں یہ پتاچلا کہ ان کی دوسری دادی مسلمان نہیں تھی بس وہ یہی سے بدک گئے اور ایسے بدکے کہ ہمارے اور بڑے تایا کے گھروں کی درمیان دیوار اٹھ گئی۔ ایک طرف وہ غیر جنہوں نے محلے میں جائیدادیں بنالی تھیں ،بعد میں سب بیچ باچ کے اور لوٹ مار کرکے چلے گئے اور دوسری طرف ہم کہ ہم نے ان کی باتوں میں آکر پہلے اپنے بڑے تایاسے الگ ہوئے اور بعد میں چھوٹے چچا سے بھی چھوٹ گئی ۔
یہ تو ہمارا ایک پڑوس ۔ باقی جو پڑوسی ہیں ان میں خان صاحب ہیں ، امام صاحب ، چمن انکل اور فیلسوف انکل۔ ہمارے بڑے ابا (دادا) نے اللہ بخشے سوائے کچھ کچھ چمن انکل کے کسی پڑوسی سے بنا کے نہیں رکھی ۔ بڑے تایااورچھوٹے چچاچھوٹے سے معاملات تو ایک طرف ہم چار بھائیوں میں بھی کچھ اچھی نہیںبنی ،بس کبھی کسی بھائی پر کوئی افتاد آتی ہے تو باقی بھائی مل کر ساتھ دے دیتے ہیں لیکن کچھ ایسا نہیں کہ خوشی و غمی میں ہمیشہ ساتھ ہوں ۔ عجیب سر پھٹول رہتی ہے ۔کوئی تو یہاں تک کہتاہے کہ تمہارے ابا نے بڑے ابا کے تجربے سے کوئی سبق نہیں سیکھا ،دیکھنا ایک دن تم چاربھائی بھی الگ الگ ہوجائو گے۔ ابّا بجائے اس کے کہ گھر کو توجہ دیتے ، وہ انکل سام سے تعلقات بڑھانے لگے ۔ انکل سام دور کے بس انکل کہلاتے ہیں لیکن ان کا عمل دخل ہمارے گھر میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ لگتاہے کھانا بھی ان سے پوچھ کے پکے گا ۔۔۔انکل سام بظاہر تو بڑے اچھے ہیں لیکن ۔۔۔بس میرا دل کبھی ان سے تعلقات پہ ٹھکا نہیں ، اپنے گھر میں اچھے ہوں گے ۔ ابّا کہتے ہیں انہوں نے برے وقتوں میں ہمارابڑا ساتھ دیا ، ہم کچھ اور یاد دلاتے ہیں تو ابا غصے میں آجاتے ہیں۔ بس ان کے انکل سام کو کوئی کچھ نہ کہے ۔
یہ ہمارے انکل سام ۔۔۔ابا نے جس پڑوسی سے دوستی کری وہ انکل سام کے کہنے پر اور جس سے بگاڑی وہ بھی انکل سام کے کہنے پر ۔ مجھے تو اپنے خون پر ہی شک ہونے لگا ہے ۔ ہم سے بھی تو پوچھیں ہماری بھی تو سنیں۔ فیلسوف انکل ایک وسیع جائیداد کے مالک تھے ۔ بڑے ابا نے انکل سام کی باتوں میں آکر ان کی جائیداد کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں بڑ ھ چڑھ کرحصہ لیا ۔ اس کے بدلے میں انکل سام نے ہمیں خوب کھلایا پلایا،اتناکہ بڑے ابا کی توند نکل آئی ۔ انکل سام سب جگہ خوب دندناتے پھرے کہ اب سب سے بڑی جائیداد کے پورے علاقے میں وہی مالک تھے ،فیلسوف انکل کی جائیداد کے تو حصے بخر ے ہوگئے ۔ ہم نے اس وقت بھی بڑے ابا کو سمجھایا تھا ، ان کے فیلسوف انکل کے معاملات میں کودنے سے منع کیاتھا ،لیکن بڑے ابا نے اس سے پہلے کبھی کسی کی سنی تھی جو اب سنتے ۔ اس چکر میں خان صاحب تو تقریباََ ہمارے دشمن ہی ہوگئے ،ہم نے کون سا ان سے دوستی نبھائی تھی ،ہم تو انکل سام پر لٹو تھے ۔
سنیںآج کل ابا کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ ایک طرف ابا، خان صاحب سے بھڑ گئے تو دوسری طرف چمن انکل کو غصہ دلادیا۔ خان صاحب کو بڑے ابا اتنا ناراض کر چکے ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ تو ابا کی صورت دیکھنے کے بھی روادار نہیں ۔ چمن انکل سے بڑے ابا اور ابا کی بھی اچھی دوستی رہی لیکن اب ان سے بھی پہلی جیسی نہیں ۔ متاثر ہو رہی ہے ۔ یہ تو چمن انکل کی فراست ہے کہ انہوں نے بڑے ابا اور ابا سے بنا کر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پڑوسیوں سے تعلقات اچھے رہنے چاہئیں ۔کبھی مجھے لگتاہے کہ چمن انکل سے ہمارے تعلقات اچھے رہنے کی وجہ بڑے ابا یا ابا نہیں بلکہ بڑے تایا سے ان کی دوستی نہ ہوناہے ۔ چمن انکل کی ابا سے دوستی ان کی شاید یہی مجبوری ہے ۔ ہمارے بڑے تایاابا کے مقابلے میں دبنگ رہے ہیں۔ ابا ان کے مقابلے میں دبے دبے سے ،جیسے مِن مِن کررہے ہوں اور پھر اچانک غصے میں آجاتے ہیں اور اپنا کام خراب کرلیتے ہیں۔ ہمارے ایک اور پڑوسی امام صاحب ، وہ بڑے خود دار انسان ہیں ،انکل سام کو تو وہ لفٹ ہی نہیں کراتے ،اسی لیے انکل سام ان سے چڑتے ہیں۔ اب آپ سمجھ جائیں کہ اگر ہمارا ملنا ملانا انکل سام سے ہوگا تو امام صاحب سے ہمارے تعلقا ت کس نوعیت کے ہوں گے۔
آج کل ابّا کو بڑے تایا کو منانے کی سوجھ رہی ہے ۔ ہم تو کب سے چاہتے ہیں کہ بڑے تایا سے تعلقات اچھے ہوں ۔ ہمارے خونی رشتے ہیں ۔ لیکن مسئلہ نیت کا ہے۔ دوستی کی بنیاد اخلاص پر ہوتی ہے اور کیا بڑے تایا یہ سمجھتے نہیں؟ ہمارے ابا کی سمجھ میں یہ کبھی نہیں آیا کہ گھر کے معاملات سے لے کر پڑوسیوں سے تعلقات تک بنیاد ہمیشہ نیت اور اخلاص پر ہوتی ہے۔یہ حدیث مبار ک گرہ سے باندھ لیں: ”انما الاعمال بالنیات”(ترجمہ) اعمال کا دارومدار نیتوں پرہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں