میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امیدکا روشن چراغ

امیدکا روشن چراغ

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۴ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

 

حمیداللہ بھٹی

عدم برداشت ،فرقہ واریت ،علاقائیت اور صوبائیت جیسے رجحانات کا فروغ پانا قومی سلامتی کے لیے سخت نقصان دہ ہوتا ہے کیونکہ قوم کو ایک بنیاد پر استوار ہونے سے یہ رجحانات روکتے ہیں۔غربت اور غیر ہموار معیشت عدم برداشت کو پروان چڑھانے اور تناوربنانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان آج کل ایسے حالات سے دوچارہے جس پربلاتفریق انصاف سے ہی قابو پایا جاسکتاہے۔
جڑانوالہ واقعہ جہاں ایک طرف معاشرے میں فروغ پاتی عدم برداشت کوآشکارکرتاہے وہیں یہ نظامِ انصاف پرعوامی عدمِ اعتماد کا بھی عکاس ہے۔ شہریوںکے اذہان میں میں یہ سوچ تقویت پکڑ گئی ہے کہ انصاف کا عمل اِتنا پیچیدہ ہے کہ ظالم یاخطاکار کو سزا تو ملنی نہیں کیونکہ اکثراوقات مدعی عدالتی بھول بھلیوں میں گم ہو کر بھی انصاف حاصل نہیں کرپاتاتوکیوں نہ موقع پرخودہی سزادے دی جائے۔ اسی لیے اب قانون کی پرواہ ہی نہیں کی جاتی اور اپنی عدالت لگا کر سزا دینے کے واقعات بڑھنے لگے ہیں ۔عدمِ برداشت کے فروغ میں کارفرما اِس سوچ کا خاتمہ ناگزیرہے جوغیرضروری تاخیرکے بجائے ظالم اور خطاکارکو جلدازجلدکیفرِ کردار تک پہنچانے سے ہی ممکن ہے۔ یہ بات شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ جڑانوالہ واقعہ نے پاکستان کے پُرامن عالمی تشخص کو مجروح کیا ہے اور مخالف قوتوں نے موقع غنیمت جان کر پاکستان کو بدنام کرنے کی مُہم شروع کردی ہے۔ سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پرتشدد اور موت کے گھاٹ اُتارنے جیسے سفاکانہ عمل کے اثرات مزید گہرے ہوئے ہیں جنھیں ختم کرنے کے لیے تمام مکاتبِ فکر کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ نہ صرف ملک میں برداشت اور رواداری جیسے مثبت رجحانات فروغ پائیں بلکہ ملک کا عالمی تشخص ایسے پُرامن کا راسخ ہوجہاں تمام مذاہب کے پیروکاروں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔
شعائر اسلام کی توہین مذموم فعل ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی نہ ہی اِسے اظہارِ رائے کی آزادی میں ملفوف کیا جا سکتا ہے لیکن سوئیڈن ،فرانس جیسے بظاہر مہذب ہونے کے دعویدار ممالک میں ایسے واقعات تواتر سے جاری ہیں جن کی کوئی امن پسند تائید نہیں کر سکتا۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اسلامو فوبیا کے خلاف جاری مُہم کے تدارک کے لیے بین المذاہب نتیجہ خیزکوششیں کی جائیں تاکہ مذاہب کی بنیاد پر ماردھاڑ اور دل آزاری جیسے واقعات کا خاتمہ ہو مگر ایسے عالمی واقعات کی سزا پاکستان میں اقلیتوں کو دینے کا کوئی جواز نہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے اور ہمارے پیارے کملی والے آقاۖنے جنگ کے دوران بھی غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا اور امن پسند غیر مسلموں سے حسنِ سلوک کا درس دیا لیکن یہ کون لوگ ہیں جو مظلوم اور کمزوراقلیتوں پر ظلم و ستم کرنے کے بعد بھی مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں؟اسلام تو ایک ایسا پُرامن مذہب ہے جوانسان تو کیا کسی جاندار پربھی ظلم کی اجازت نہیں دیتا۔ مجھے کہنے دیں جڑانوالہ کے مسلمانوں نے عیسائیوں کی عبادت گاہوں اور املاک کو جلا کر اسلام کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اسلامی تعلیمات سے اپنی لاعملی ظاہر کی ہے۔ اُن کی یہی لا علمی مادرِ وطن کی عالمی سطح پر بدنامی کا باعث بن گئی ہے۔
پولیس ذرائع جڑانوالہ واقعہ کے پسِ پردہ غیر ملکی سازش کارفرما قرار دیتے ہیں مگر حالات و واقعات سے سازش کی طرف ا شارہ توہوتا ہے لیکن غیر ملکی سازش قرار دینے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ بظاہر اوراق پر لکھے الفاظ سے نفرت جھلکتی ہے لیکن توہین کے مرتکب کا اپنا نام لکھ دیناشبہات کا باعث ہے۔ بظاہر کوئی مقامی خفیہ ہاتھ دنگے وفساد کا خواہشمند ہے۔ وگرنہ مقدس اوراق پر نام نہ لکھاہوتا۔ حالات کی بناپر کچھ حلقے کہتے ہیں کہ کسی مقامی کا کسی مخالف کو سزا دلانے یا عبرت کا نشان بنا نے کا امکان مکمل طورپرردنہیں کیا جا سکتا۔اسی لیے اوراق پر نام لکھ دیا گیا،وگرنہ کوئی ہوشمندخود کو بپھرے ہجوم کے حوالے نہیں کر سکتا لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کیونکہ آجکل عالمی سطح پر اسلام کے خلاف ایک منظم مُہم شروع ہے جس کے تحت شعائر اسلام کی توہین کے واقعات کی حوصلہ افزائی و سرپرستی کی جارہی ہے، اسی لیے توہین کا کوئی واقعہ پیش آتے ہی عالمی اِدارے متحرک ہوتے اور مرتکب کو نہ صرف سزا سے صاف بچا لیتے ہیں بلکہ غیر ملکی شہریت جیسی نوازش بھی کردی جاتی ہے۔ غیر ملکی شہریت لینے کا یہ سب سے آسان اور مختصر راستہ تصورکیا جانے لگا ہے۔ ایسا ہی ملعونہ آسیہ و دیگر کے بارے ہو چکا ۔اسی بنا پر ایک خیال یہ ہے کہ ملک کے دگرگروں سیاسی و معاشی حالات کی بنا پر جو ملک سے باہر جانے کا رجحان جنون بن چکا ہے۔ کسی نے بیرونِ ملک پناہ حاصل کرنے کے لیے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا کیاہو ۔اگر واقعہ کے پس ِپردہ ایسی سوچ کارفرما ہے تو پولیس کو مکمل چھان بین کے بعد اصل حالات سے عوام کوآگاہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ ایسی سوچ مستقبل میں مذہبی ہم آہنگی کومزید پارہ پارہ کر سکتی ہے۔ اِس واقعہ میں پولیس کا کردار و حکمت ِ عملی بالکل ہی ناکارہ اور غیر ذمہ دارانہ رہی۔ عمران خان کو اسلام آباد کی عدالت سے سزا ہوتی ہے تو یہی پولیس بارہ منٹ میں گرفتار کرنے لاہور پہنچ جاتی ہے لیکن فیصل آباد سے نواحی قصبے جڑانوالہ پہنچنے میں یہی پولیس بارہ گھنٹے لگادیتی ہے۔ اسی لیے عام خیال ہے کہ جڑانوالہ واقعہ اگر سازش ہے تو پولیس کسی طور بری الذمہ نہیں بلکہ سازش میں شریک ہے کیونکہ جان بوجھ کر بلوائیوں کوحملے کرنے، عبادت گاہوں اور املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے وقت دیا گیا۔اگر وقت نہ دیا جاتا اور بروقت کارروائی کی جاتی تو حملہ آور بلاجھجھک لوٹ مارکرنے، بیس گرجا گھروں اور تیس کے لگ بھگ گھروں کو جلا کر خاکستر کرنے کے قابل ہرگزنہ ہوتے ۔ اب پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ شرپسندی پر اُکسانے والے مرکزی کردار کے ساتھ 170حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مگر جب تک پولیس سے سُستی اور لا تعلقی کی بابت دریافت نہیں کیا جاتا آئندہ بھی ایسے واقعات کے تدارک کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
باعث ِ اطمنان امر یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی کشیدگی کے خلاف تمام مکاتبِ فکر متحد ہیں سیاسی جماعتوں ،انسانی حقوق کی تنظیموں ، عدالتی و حکومتی شخصیات کا جڑانوالہ جا کر مظلوم اقلیتی برادری کو پُرسہ دینا اور ظالموں کو قرارِ واقعہ سزا دینے کا عزم ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں بلکہ ایسے عمل کو پاکستانی من حیث القوم ناپسندید خیال کرتے ہیں گرجا گھروں کی مرمت اور جلائے جانے والے گھروں کے مکینوں کو بیس بیس لاکھ فی کس ادائیگی سے پاکستان ایک زمہ دار ریاست کے طورپر دنیا کے سامنے آیاہے حالانکہ ہمارے ہمسائے ملک کی ریاست منی پور میں کئی مہینوں سے اکثریت کے جبروقہر کا عیسائی اقلیت شکار ہے لیکن دادرسی تو درکنا ر اکثریت کے ڈر سے کسی نے اقلیت کو انصاف دلانے کی بھی کوشش نہیں کی۔ بلکہ حملہ آوروں کو پولیس اور فوج تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں ایسے حالات نہیں بلکہ حوصلہ افزا ہیں۔ یہاں تمام شہریوں کو بطور پاکستانی مکمل حقوق حاصل ہیں اورمعاشرہ اکثریت کے خوف کاشکار نہیں ۔جڑانوالہ واقعہ نے جہاں ایک طرف پولیس جیسے قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی سُستی اور ناقص حکمت ِعملی کا پردہ چاک کیا ہے وہیں حکومت ،سیاسی جماعتوں ،غیر سرکاری تنظیموں اور مذہبی حلقوں نے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھائی چارے کی فضابنادی ہے جس سے عالمی سطح پر پاکستان کے بارے بنائے گئے ایک مذہبی جنونی ریاست کے تاثر کی نفی ہوئی ہے۔ کیایہ امید کاروشن چراغ نہیں کہ مسلمانوں نے اپنے عیسائی بھائیوں کو اتوار کی عبادت کے لیے مساجد کے دروازے تک کھول دیے ہیں؟
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں