محکمہ ماحولیات سیپا میں ترقیاتی منصوبوں کی جعلی منظوریوں کا انکشاف
شیئر کریں
بھاری نذرانے کے
عوض چیک لسٹ جاری
ترقیاتی منصوبے کی منظوری کیلئے30 لاکھ،درمیانے کیلئے 15 لاکھ اورچھوٹے منصوبے کی چیک لسٹ جاری کرنے 3سے 5لاکھ رشوت وصول کی جاتی ہے
نان کیڈر ڈی جی کے چہیتے افسران کیو آر کوڈ کے علاوہ ہی دھڑلے سے منظوریاں جاری کرکے کروڑوں روپے بٹورنے لگے ہیں، موصول دستاویزات
(رپورٹ: علی کیریو)محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سیپا میں ترقیاتی منصوبوں کی جعلی منظوری کی اصل وجہ سامنے آگئی، منظوریوں پر کیو آر کوڈ نہ لگانے کا انکشاف ہوا ہے، نان کیڈر ڈی جی کے چہیتے افسران کیو آر کوڈ کے علاوہ ہی دھڑلے سے منظوریاں جاری کرکے کروڑوں روپے بٹورنے لگے ہیں۔ جرأت کو موصول دستاویزات کے مطابق سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن اتھارٹی (سیپا ) کی جانب سے ہر نئے بڑے ترقیاتی منصوبے کیلئے انوائرمنٹل امپیکٹ اسسٹمنٹ (ای آئی اے) ، درمیانے منصوبے کیلئے انیشل انوائرمنٹل ایگزامنیشن (آئی ای ای) اور چھوٹے ترقیاتی منصوبے کیلئے چیک لسٹ کرانا ضروری ہے ، سیپا کے افسران کسی بھی منظوری اپنے لیٹر پیڈ پر دیتے ہیں، لیٹر پیڈ پر حکومت سندھ کا مونو گرام اور ریفرنس نمبر درج ہوتا ہے ، اس کے نیچے سیپا دفتر کا ایڈریس ، نمبر اور تاریخ تحریر ہوتی ہے، اس کے بعد سبجیکٹ لکھ کر تفصیل نکات میں ہوتی ہے ، پہلے صحفے پر منظوری جاری کرنے والے افسر سگنیچرکرتے ہیں ، دوسرے پر نکات کے بعد آخر میں مجاز افسر کا عہدہ اور سگنیچر ہوتے ہیں۔ سیپا کے نان کیڈر ڈائریکٹر جنرل نعیم احمد مغل نے سیپا میں ترقیاتی منصوبوں کی جعلی منظوریاں جاری ہونے پر ڈائریکٹر (ٹیکنیکل) وقار حسین پھلپوٹو کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کی، کمیٹی نے تحقیقات کے بعد رپورٹ پیش کرتے ہوئے سفارش کی کہ ہر ایک انوائرمنٹل منظوری پر کیو آر کوڈ لگانے کی سفارش کی ہے۔ کمیٹی کی سفارش سے واضح ہوتا ہے کہ سیپا کی منظوری پر کیو آر کوڈ نہیں لگایا جارہا تھا، جبکہ حکومت سندھ کے دیگر تمام نوٹیفکیشنز اور دستاویزات پر کیو آر کو ڈ استعمال کیا جاتا ہے، لیکن محکمہ ماحولیات میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ سیپا کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بڑے ترقیاتی منصوبے کی منظوری کیلئے30 لاکھ،درمیانے منصوبے کی منظوری جاری کرنے کیلئے 15 لاکھ اورچھوٹے ترقیاتی منصوبے کی چیک لسٹ جاری کرنے کیلئے 3سے 5لاکھ روپے بطور رشوت وصول کی جاتی ہے، عام طور پر روزانہ3 درمیانے اور5چھوٹے منصوبوں کی منظوری دی جاتی ہے، جبکہ 15 دن میں ایک بڑا منصوبہ منظور کیا جاتا ہے، ڈی جی اور اس کے کچھ چہیتے افسران مبینہ طور یہ رقم وصول کرکے اپنی جیب گرم کرتے ہیں، سیپا میں منظوری لینے ک لئے رشوت کے باعث صنعتکاروں نے جعلی منظوریوں کا سہارہ لیا اور کالی بھیڑوں کیلئے سیپا کی منظوری پر کیو آر کوڈ نہ لگانے کے باعث آسانی ہوگئی۔