یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ہزاروں مظاہرین کا احتجاج
شیئر کریں
اسرائیلی یرغمالیوں کے بے بس ورثا جو پچھلے تقریبا سات ماہ سے مسلسل مظاہرے کر کے اور اسرائیلی حکومت کے بڑوں سے ملاقاتیں کر کے اپنے عزیزوں کی رہائی کے مطالبے کر رہے ہیں۔ ان کے صبر کا بھی بندھن ٹوٹ گیا اور ان کی اسرائیلی پولیس کے ساتھ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اسرائیلی پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ ہزاروں اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ ، رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان کی آواز نیتن یاہو حکومت کو سنانے کے لیے جمع تھے ۔واضح رہے اسرائیل کا کہنا تھا کہ اس کے لگ بھگ ایک سو یرغمالی اب بھی غزہ میں قید ہیں اور ان میں سے 30 کی ہلاکت کے بعد ان کی لاشیں غزہ میں گل سڑ رہی ہیں۔یہ سب اسرائیلی مظاہرین یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے اور ان کی رہائی کے لیے نعرے لگا رہے تھے ۔ انہوں نے یرغمالیوں کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں اور اسرائیلی حکومت کی ان کی رہائی سے لا پرواہی کی مذمت کر رہے تھے ۔تل ابیب میں کئی مظاہرین نے ان اسرائیلی فوجی خواتین کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔ جنہیں فوج میں فرائض کی ادائیگی کے دوران سات اکتوبر کو حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے اسرائیلی علاقوں سے اٹھا لیا تھا اور وہ ابھی تک غزہ میں قید کاٹ رہی ہیں۔پچھلے سات ماہ سے یہ مظاہرین اپنا ایک ہی مطالبہ دہرا رہے تھے کہ ان کے پیاروں کو غزہ سے رہائی دلائی جائے ۔ یرغمالیوں کو ایک طویل جنگ کرنے اور اس کے باوجود رہا نہ کرا سکنے بلکہ اس سلسلے میں مسلسل کوتاہی کے مرتک ہونے پر یرغمالوں کے حامی وزیر اعظم نیتن یاہو کے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے ۔ استعفے کا مطالبہ کرنے والے اسرائیل میں جلد نئے انتخابات کی بھی بات کررہے تھے ۔اس موقع پر کئی جگہوں پر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ پولیس نے ان مظاہرین کو زبردستی روکنے کی کوشش کی اور پولیس کی مظاہرین کے ساتھ جھڑپ شروع ہو گئی۔ان مطاہرین میں شامل ویمن پروٹسٹفار دی ریٹرن آف آل ہوسٹیجز کی بلیت ساگی نے اس موقع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے یرغمالیوں کے بغیر اب گھروں میں نہیں رہ سکتے مگر نیتن یاہو کی حکومت نے انہیں بالکل ہی چھوڑ دیا ہے ۔