عام انتخابات اور نگراں وزیراعظم کے خیالات
شیئر کریں
نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے بغیر بھی شفاف الیکشن ہوسکتے ہیں۔امریکی خبر رساں ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو میں انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ شفاف الیکشن چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) یا جیل کاٹنے والے سیکڑوں پارٹی ارکان کے بغیر بھی ہوسکتے ہیں۔انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی میں شامل ہزاروں افراد جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں، وہ الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔انوارالحق کڑ کے اس بیان سے ظا ہر ہے کہ موجودہ نگراں حکومت میں شامل مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے بعض وفادار مسلم لیگ ن کو انتخابات میں کھلا راستہ دینے کیلئے کسی نہ کسی طرح عمران خان کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کیلئے کوشاں ہیں،اس خیال کو تقویت نگراں وزیراطلاعات کے گزشتہ روز کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں انھوں نے عدالت سے مفرور قرار دیے گئے ملزم نوازشریف کے بارے میں یہ کہا تھا کہ نواز شریف کوئی جیل کے دروازے توڑ کر بیرونِ ملک نہیں گیا،اس لیے اسے ملک میں واپس آنے کا پورا حق ہے،جبکہ نواز شریف کی وطن واپسی کے حق سے کبھی بھی کسی نے بھی انکار نہیں کیا اور ملک میں ہر ایک کا موقف یہی ہے کہ علاج کرانے کے بہانے بیرو ن ملک جانے والے نواز شریف اب عدالت کی جانب سے مفرور قرادیے جاچکے ایک مفرور مجرم ہیں،اس کے باوجود انھیں وطن واپس آ نے کا پورا حق ہے لیکن وطن واپس آکر انھیں قانون کا سامنا کرنا چاہئے۔ نگراں وزیراعظم کو اس طرح کے بیانات بہت سوچ سمجھ کر دینا چاہئیں جن سے ابہام پیدا ہونے کا خدشہ ہواور جس سے ان کی غیر جانبداری پر کسی طرح کا شک وشبہ پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔انھیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ عمران خان کے خلاف شہباز حکومت کی جانب سے بنائے گئے کم وبیش 200 مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں اور عدالتوں میں ان مقدمات یا کسی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کے خلاف اپیل کے مرحلے باقی ہیں،نگراں وزیر اعظم ایک جہاندیدہ سیاستداں ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہوگا کہ عمران خان کی گرفتاری اور ان کے ہزاروں کارکنوں کو داخل زنداں کیے جانے کے باوجود ان کی مقبولیت میں نہ صرف یہ کہ کوئی کمی نہیں آئی ہے بلکہ عمران کے خلاف کسی بھی کارروائی کے اعلان سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہاہے اور ان کی یہی مقبولیت ہے کہ اس ملک کوگِدھوں کی طرح نوچ کر کھانے والے سیاستداں ان سے خوفزدہ ہیں اور انھیں انتخابی اکھاڑے سے نکال دینے کے درپے ہیں،نگراں وزیراعظم حال ہی میں امریکہ یاترا کرکے آئے ہیں۔ اقوام متحدہ میں اجلاس کے دوران انھیں یقینابہت سے ملکوں کے رہنماؤں سے ملنے اور بات چیت کرنے کا موقع بھی ملا ہوگا اور اس دوران انھیں یہ اندازہ ہوگیاہوگا کہ عمران خان کو مائنس کرکے کرائے جانے والے انتخابات کو دنیا میں کہیں بھی صاف اور شفاف تسلیم نہیں کیاجائے گا۔ اس طرح مائنس عمران خان کرائے جانے والے انتخابات پاکستان سمیت پوری دنیا میں ایک مذاق بن جائیں گے،جس سے ملک میں سیاسی استحکام جس کی اس وقت ملک کو اشد ضرورت ہے پیدا نہیں ہوسکے گا۔
نگراں وزیر اعظم کو یہ بات بھی اچھی طرح معلوم ہوگی کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بالادستی کی صورتحال اور اس سے متعلق دعوے ہمیشہ سے زیر بحث رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں بھی 9مئی کے واقعات کے بعد جس طرح پے در پے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت پارٹی رہنماؤں پر مقدمات قائم کیے گئے اور انھیں گرفتار کیا گیا اس نے ملک کے احتساب کے نظام، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اقدار پر بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔9مئی کے بعد 4ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ابھی تک 9مئی کے واقعات میں گرفتار کیے جانے والے ملزمان کا ٹرائل تک شروع نہیں ہو سکا۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ رول آف لا کا معاملہ نہیں ہے بلکہ غصہ نکالا جا رہا ہے۔ یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ نہیں رہا ہے، یہی وجہ کہ اب ایسی ناانصافیوں، قانون کو عزت نہ دینے اور عدلیہ کی بے توقیری کرنے جیسے اقدامات کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔نگراں وزیر اعظم کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جب کوئی شخص گھوڑے پر سوار کرادیا جائے تو اس کو لگتا ہے کہ یہ اس کی طاقت ہے مگر جب وہ گھوڑے سے اترتا ہے تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس کی نہیں گھوڑے کی طاقت تھی۔جو لوگ اس وقت اس وقت حد سے زیادہ ناجائز کر رہے ہیں وہ ایک جماعت اور اس کے رہنما کو مزید شہرت کی بلندیوں پر پہنچا رہے ہیں۔ اور اس سارے کھیل میں قانون کا مذاق بن رہا ہے اور ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔
نگراں وزیر اعظم کو یہ بات معلوم ہوگی ملک میں آئندہ ہونے والے عام انتخابات بارہویں عام انتخابات ہوں گے جس میں کم و بیش بارہ کروڑ ووٹرز ہیں‘ ملک کی کسی بھی مقبول سیاسی پارٹی کو مائنس کرکے یا اس کے ہاتھ پاؤں باندھ انتخابات لڑنے کی اجازت دیے جانے سے انتخابات کا ٹرن آؤٹ کیا ہوگا؟ اور پوری دنیا کے لوگ اسے کس حدتک صاف اور شفاف تسلیم کریں گے اس کا اندازہ الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کو اچھی طرح کر لینا چاہئے۔ملک کے سیاسی حالات اور ٹمپریچر دیکھ کر لگ رہا ہے کہ اگر تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے مساوی مواقع دیے گئے تو اس بار ٹرن آؤٹ ماضی کی نسبت بہت زیادہ ہوگا،الیکشن کمیشن میں اس وقت171 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں،یہ سب کی سب کسی نہ کسی حد تک انفرادی یا کسی اتحاد کی شکل میں ضرور انتخابی معرکے اور ملاکھڑے میں اُتریں گی۔ عوام ان انتخابات میں ا قتدار کی چابی کس کے سپرد کرتے ہیں اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے تاہم ہوا کا رُخ سب کچھ بتارہا ہے کہ انتخابی معرکہ بہت سخت ہوگا۔ سیاسی بیانیہ، پیسہ، برادری، علاقائی سوچ، لسانی پسند نا پسند سب کچھ چلے گا۔ جیت اُسی کی ہوگی جس کا بیانیہ عوام اور جمہور کے دلوں میں اُتر جائے گا۔ایک ہلکا سا جائزہ لیتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں ووٹرز کا رُخ اور رحجان کیا ہوسکتا ہے؟
ملک میں مہنگائی، لاقانونیت اور معاشی بحران چوٹی پر کھڑا نظر آتا ہے لیکن جب ملک میں انتخابی مہم شروع ہوگی تب کیا یہ تینوں عوامل سیاسی بیانیہ بن پائیں گے؟ یا انتخابی مہم سیاسی شخصیات کے سحر میں ڈوب جائے گی اور یہ تینوں ایشوز دب جائیں گے؟ اندازہ ہے کہ جب انتخابی مہم شروع ہوگی تو سب سے اہم معاملہ شفاف انتخابات کا سامنے آئے گااور ہر سیاسی جماعت شفاف انتخابات چاہے گی جس کے لیے الیکشن کمیشن، انتظامیہ، نگران حکومت پر ماضی کی نسبت اس بار کچھ زیادہ ہی بوجھ ہوگا۔ملکی اور غیر ملکی مبصرین کے دستے محدب عدسہ لیے کمزوریاں تلاش کریں گے۔اب الیکشن کمیشن، انتظامیہ، نگران حکومت ان سے کیسے نبرد آزما ہوگی؟ اس مرتبہ دھاندلی، جھرلو، جھاڑو، دھاندلا یہ سب اس پیمانے پر شاید نہیں ہوسکے گا‘ ماضی میں جس پیمانے پر یہ جس طرح ہر انتخابات کا حصہ رہے ہیں لیکن اس بار نہیں‘ اس لیے نہیں کہ ہر سیاسی جماعت کا ووٹر بہت چارجڈ ہوگا۔ ہمارے ملک میں ہر حلقے کی سیاست میں برادری، تھانے اور کچہری کی بھی سیاست ہوتی ہے۔ جائز ناجائز پرچے بھی ہوتے ہیں۔ میڈیا مہم ہوگی۔ ان حربوں سے ووٹر پر نفسیاتی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔یہ سب کچھ ہوگا اس لئے ووٹر کے دلوں میں اترنے والے سیاسی بیانیے کی اہمیت سب سے زیادہ ہوگی۔ اس لیے ووٹر اب اپنے تمام ہمدرد سیاستدانوں کے چہرے بڑی حد تک پہچان چکا ہے۔ اسے معلوم ہوچکاہے کہ کون اقتدارہاتھ سے نکلتے ہی لندن کا ٹکٹ کٹاکر وہاں کی ٹھنڈی فضاؤں میں اپنا غم غلط کرنے میں مشغول ہوجاتا ہے اور کون جیل کی کال کوٹھری میں بیٹھ کر بھی ملک سے باہر جانے کی پیشکش ٹھکرادیتاہے اور اپنے عوام کے ساتھ ہی رہنے اور ان کیلئے جان بھی دے دینے پر مُصر رہتاہے۔
پاکستان میں 1970 سے عام انتخابات کی تاریخ شروع ہوتی ہے اور 2018 تک جتنے بھی عام انتخابات ہوئے سب پر شفافیت کے سوالیہ نشان ہیں۔پاکستان میں اب تک 11 عام انتخابات ہو چکے ہیں، 1970 سے 1988 تک جتنے بھی انتخابات ہوئے سب نگران حکومت کے بغیر ہوئے ہیں۔ غیر جماعتی بنیاد پر 1985 کے انتخابات ہوئے۔ 1977 کے الیکشن میں اس وقت کی بھٹو حکومت نے اپنی مرضی کے نتیجے لینے کے لیے اس وقت اپوزیشن کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا،یہ بھی ایک تاریخ کا حصہ ہے۔بدقسمتی سے پاکستان میں الیکشن پارٹی منشور یا کارکردگی پر نہیں ہوتے پارٹی منشور، کارکردگی اور مقبولیت بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ یہاں الیکشن نظریہ ضرورت، قبولیت پر لڑے جاتے ہیں۔ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف مہرہ بنتے ہیں۔نووٹ کی یہاں کوئی عزت نہیں، یہاں ووٹ کو عزت دینے کے نعرے تو ہیں لیکن حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ عوام کوصرف ووٹ دینے والی مشین تصور کیاجاتا ہے لیکن عوام چلتے پھرتے انسان کی فکر کسی بھی سیاستدان کو نہیں ہے۔ مہنگائی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے، پیٹرول ڈیزل، ڈالر، چینی، آٹا، گھی روزمرہ کی استعمال کی چیزیں عام آدمی کے ہاتھ سے نکل چکی ہیں، آج مہنگائی پاکستان کی تاریخ کی بد ترین صورتحال اختیار کر چکی ہے،اور نگراں وزیر اعظم یہ کہتے ہوئے شرم محوس نہیں کرتے کہ مہنگائی کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا جس پر ہڑتال کی جائے۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن یہ سیاستدان خود ہیں۔ سیاستدانوں نے خود جمہوریت اور جمہوری کلچر کو اپنی ذاتی انا کی خاطر برباد کر دیا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت صرف مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ ایک بات طے ہے عوام حکومتوں کی معاشی پالیسیوں سے بہت تنگ ہیں عوام کا یہ مسئلہ نہیں ہے کہ کون جلا وطن ہوا اور کون جیل میں گیا۔یہی وجہ ہے کہ الیکشن کی ممکنہ تاریخ کے اعلان کے باوجود الیکشن کے بجائے ہرجگہ مہنگائی کے بیانیے پربحث مباحثہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ تحریک انصاف کے بھی 4 سال اور پی ڈی ایم کے 15 ماہ بھی عوام کے سامنے ہیں۔یہ بات واضح ہے کہ جس وقت تک عوام کی رائے کو مقدم نہیں مانا جائے گا، اس وقت تک ملک کی معیشت کو بہتر نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی استحکام کی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ عوام کی مرضی کے بغیر جو مرضی کر لیں اور کوئی بھی نظام لے آئیں ملک کو دلدل سے نہیں نکالا جا سکتا ہے۔اس وقت سیاسی صورتحال سب کے سامنے ہے، قانون کی کوئی عزت نہیں رہ گئی ہے اور ایسا محسوس ہونے لگاہے کہ اب ا عدالتیں بھی اپنی ساکھ کھو رہی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی مرضی کے مطابق لوگوں کو اٹھا لیتے ہیں اور کھلم کھلا قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔اب صورتحال ایسی ہو گئی ہے کہ ملک میں آئین موجود بھی ہے اور نہیں بھی ہے، عدالتیں حقوق کی ضامن ہیں بھی اور نہیں بھی۔اس صورت حال میں ایک قطعی غیر جانبدارانہ،صاف،شفاف اور منصفانہ انتخابات سے ہی اس دلدل سے نکلنے کی کوئی راہ نکلنے کی امید کی جاسکتی ہے،کیا نگراں حکومت،الیکشن کمیشن اور مقتدر حلقے اس امید کو حقیقت میں بدلنے دیں گے؟