حکومت کادودھ،انڈے،آٹے سمیت اشیاء خورونوش پرٹیکس ختم کرنے کافیصلہ
شیئر کریں
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ایف بی آر کسی ٹیکس نادہندہ کو گرفتار نہیں کریگا ،پہلے تھرڈ پارٹی کے ذریعے آڈٹ ہو گا ، پھر ضابطہ کی کارروائی کے بعد گرفتاری کا فیصلہ ہو گا،سینٹ کی جتنی سفارشات آئیں ہیں ان کو شامل کرنے کو کوشش کی جائیگی،جتنے بھی فوڈ اشیا ہیں ان پر سے ٹیکس ہٹا یا ہے،آئی ایم ایف نے سات سو ارب کا ٹیکس لگانے کا کہا تھا، میں ان کے سامنے کھڑا ہو گیاجبکہ سینٹ میں اپوزیشن اراکین نے کہاہے کہ بجٹ کو آئی ایم ایف کے پاکستانی ملازمین نے تیار کیا،بجٹ میں عام لوگوں کو روزمرہ اشیاء میں کوئی ریلیف نہیں دی گئی ،حکومتی و اتحادی اراکین نے اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو فنڈز مل رہی ہیں مگر صوبوں کے اندر درست انداز میں خرچ نہیں ہو رہے،میئر کراچی سے سینیٹشن اور پانی سے متعلق اختیارت صوبائی حکومت نے لے لئے ،مردم شماری سے متعلق پانچ فیصد رہائشی بلاک کا آڈٹ کیوں نہیں جا رہا۔ جمعہ کو سینٹ میں بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہاکہ سینیٹ خزانہ میں پورے بجٹ کو تفصیل سے جائزہ لینے کا موقع ملا،تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں،قومی مالیاتی کمیشن کے بعد ہی بجٹ ہونا چاہیے ،یہ المیہ ہے کہ جس صوبے سے میرا تعلق ہے وہاں تیرہ برسوں سے مالیاتی کمیشن نہیں آیا۔ انہوںنے کہاکہ وفاقی حکومت نے کراچی کیلئے کئی ترقیاتی منصوبے رکھے جس پر شکر گزار ہوں،جس حد تک کراچی کا قومی خزانے میں کنٹری بیوشن ہے اس پر تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو خزانے کامنہ کھول دیناچاہیے ۔ انہوںنے کہاکہ کراچی پاکستان کا معاشی دارلحکومت ہے، دوسرے شہروں میں بی آرٹی اور میڑو بسز بنیں،کراچی میں ٹوٹی کھڑکیوں اور ٹوٹی سیٹوں والی بسیں ہی رہ گئیں ہیں،ارسا صوبوں کو میکنزم کے تحت پانی فراہم کرتا ہے،کیا صوبے بھی اپنے اضلاع میں منصفانہ اندز میں پانی فراہم کی جاتی ہے؟۔ انہوںنے کہاکہ کراچی میں لائنوں کے ذریعے پانی نہیں دی جا رہی ہے ،ٹینکرز کے ذریعے پانی دیجا رہی ہے،اس لئے لائنوں کے کنکشنز دینا بند کرے۔ انہوںنے کہاکہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو فنڈز مل رہی ہیں مگر صوبوں کے اندر درست انداز میں خرچ نہیں ہو رہے۔ انہوںنے کہاکہ میئر کراچی سے سینیٹشن اور پانی سے متعلق اختیارت صوبائی حکومت نے لے لئے ۔ انہوںنے کہاکہ لوگ ہم سے سینیٹیشن اور پانی کے مسائل کا بیان کرتے ہیں تو کیا ان کو یہ بتاؤں کہ سینیٹر کا کام پانی کی فراہم اور سینیٹشن کا مسئلہ حل کرنا نہیں،صرف ٹریفک پولیس نے چالان سے ایک سال میں 61کروڑ جمع کیے ہیں،زرعی شعبہ ٹیکس نیٹ سے باہر کیوں ہے سمجھ نہیں آئی۔ انہوںنے کہاکہ مردم شماری سے متعلق پانچ فیصد رہائشی بلاک کا آڈٹ کیوں نہیں جا رہا۔ انہوںنے کہاکہ وزیراعظم نے 2023سے پہلے مردم شماری کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے،موجودہ بجٹ نے اس لئے پانچ ارب مختص کئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ایک طرف جعلی آباد کاری دی جارہی ہے دوسری جانب چالیس چالیس سالوں سے مقیم رہائشیوں کے مکانات گرائے جا رہے ہیں۔