میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جامعہ پنجاب پر خوف کے سائے

جامعہ پنجاب پر خوف کے سائے

منتظم
جمعه, ۲۶ جنوری ۲۰۱۸

شیئر کریں

پنجاب یونیورسٹی میں گزشتہ روز دو طلبہ گروپوں میں تصادم، توڑ پھوڑ ہنگامہ آرائی کے بعد اگرچہ حالات پر بظاہر قابو پالیا گیا ہے لیکن خوف ودہشت کاماحول یونیورسٹی کیمپس کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور طلبہ خاص طور پر یا تو یونیورسٹی آنے سے گریز کررہی ہیں یا اگر آتی بھی ہیں تو ڈری سہمی نظر آتی ہیں ،بظاہر وزیراعلیٰ پنجاب نے اس واقعے کی تحقیقات اور اس کے ذمہ دار عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا حکم دیدیا ہے لیکن اس حکم پر عملدرآمد اتنا آسان نظر نہیں آتا ،کیونکہ اگر اس طرح کے احکامات پر عملدرآمد کیاجاتا تو گزشتہ روز کایہ واقعہ پیش ہی نہ آتا۔

اخبارات گواہ ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی میں متحارب ان دو طلبہ گروپوں کے درمیان چپقلش 2 سال قبل ایک ثقافتی فیسٹیول میں روایتی رقص کے سلسلے میں ہوئی تھی مگر درحقیقت اصل مسئلہ یونیورسٹی میں چوہدراہٹ قائم کرنا ہے۔ ان گروپوں میں سے ایک مذہبی جماعت کی طلبہ تنظیم ہے تو دوسری طرف پختون اور بلوچ طلبہ کا مشترکہ گروپ، طلبہ کے درمیان سیاسی اختلافات ہوتے ہیں مگر جس طرح پہلے بھی اور گزشتہ روز بھی یونیورسٹی سے باہر کے لوگوں کی مدد سے دونوں گروپوں نے جامعہ پنجاب کا تقدس پامال کیا وہ ناقابل معافی ہے۔ یونیورسٹی ہاسٹل میں بیرونی عناصر کی آمدورفت اور ان کا قیام کوئی نئی بات نہیں ہے اور جامعات کی انتظامیہ عام طورپر اس سے چشم پوشی کرتی رہتی ہیں لیکن جب بیرونی عناصر پورے کیمپس کے امن کے لیے خطرہ بن جائیں اور مادر علمی کو جنگ کااکھاڑہ بنانے پر تل جائیں تو اس سے صرف نظر کرنا بذات خود ایک جرم ہوگا، اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ جامعہ پنجاب میں لاقانونیت اس حد تک بڑھ چکی کہ اب کیمپس میں اسلحہ اور منشیات بھی عام دستیاب ہے۔ ظاہر ہے یہ صورت حال یونیورسٹی کے معاملات پر یونیورسٹی کی انتظامیہ کی گرفت کے کمزور ہونے کاکھلا ثبوت ہے،اس سے ظاہرہوتاہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس ہنگامی نوعیت کے اقدامات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں اور وہ فوری کارروائی کرنے سے محروم ہے۔ اس صورت حال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جامعہ پنجاب کے کیمپس میں لاقانونیت اور دنگا فساد پھیلانے کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی کمیٹی یونیورسٹی کے معاملات پر انتظامیہ کی گرفت کمزور پڑنے کے اسباب کابھی جائزہ لے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ اس میں کس کی اور کون کون سی کوتاہیوں کا عمل دخل ہے تاکہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو مضبوط اور موثر بنانے کے لیے ٹھوس اقدام کیے جائیں تاکہ یونیورسٹی کیمپس کو بیرونی عناصر کی غنڈہ گردی سے محفوظ بنایا جاسکے اور مادر علمی کو علم کی ترویج کا ذریعہ ہی رکھا جاسکے ،اس مقصد کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ یونیورسٹی میں حفاظتی انتظامات سخت کیے جائیں، بیرونی عناصر کی آمدورفت و قیام پر مکمل پابندی لگائی جائے، ہنگامہ آرائی میں ملوث کسی بھی شخص کے ساتھ رعایت نہ برتی جائے، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ میں ملوث افراد کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی گروپ سے ہو، قرار واقعی سزا دی جائے، طلبہ سے یونیورسٹی قوانین کی سختی سے پابندی کرائی جائے تاکہ جامعہ پنجاب کا تقدس بحال ہو۔ پنجاب یونیورسٹی میں مذہب، سیاست یا لسانیت کے نام پر اجارہ داری قائم کرنے اور عددی اکثریت یا طاقت کے زور پر کسی کو بدامنی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت کا الزام تو پراناہے لیکن اب تو تعلیمی اداروں کے اندر اتنے اسباب پیدا کر دیے گئے ہیں کہ کسی کو باہر سے مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جامعات جہاں ریسرچ اور تعلیم کی سطح کالجوں اور اسکولوں سے کہیں زیادہ ہونی چاہیے بعض اوقات وہاں پر انتظامیہ یہاں تک کہ وائس چانسلر اور ان کا عملہ بھی کسی نہ کسی دباؤ کے تحت خود قانون شکنی میں ملوث ہوجاتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اوقات خود ہی اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق تنظیمیں تخلیق کر لی جاتی ہیں۔ جامعہ پنجاب کے افسوسناک واقعے کے بارے میں جو خبریں سامنے آئی ہیں ان کے مطابق اسلامی جمعیت طلبہ نے بک فیئر کے لیے جامعہ کے وائس چانسلر کی اجازت سے خیمے لگائے اور اس کا افتتاح ہونے والا تھا کہ صبح ہی بلوچ قوم پرست تنظیم نے حملہ کر کے تمام انتظامات درہم برہم کر دیے۔ شعبہ انجینئرنگ کو آگ لگا دی ، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو نقصان پہنچایا۔وائس چانسلر کہتے ہیں کہ ہم کسی کو غنڈہ گردی نہیں کرنے دیں گے۔ صوبائی وزیر کہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ وائس چانسلر اقدام کریں ان کو اپنے اختیارات استعمال کرنے دیں اب حکومت کی جانب سے کوئی مداخلت نہیں ہو گی۔وائس چانسلر نے یہ بھی بتایا ہے کہ ہنگامہ آرائی کرنے والے بعض عناصر کی شناخت ہو گئی ہے جن کے خلاف سخت کارروائی کریں گے لیکن یہ کارروائی کب کی جائے گی س کے بارے میں مکمل خاموشی ہے۔ کسی مجرم کے خلاف سخت کارروائی کے لیے کیا شرائط ہیں اور کیا ضروریات ہیں ان کا کسی کوعلم نہیں۔خبروں میں بتایا گیا ہے کہ وائس چانسلر کاکہنا ہے کہ اب صرف میرٹ والوں کو داخلہ دیاجائے گا یہاں سوال یہ ہے کہ اب تک میرٹ کے بغیر داخلے کیوں دئے جارہے تھے۔ جب وائس چانسلر اور انتظامیہ کا یہ حال ہے کہ اپنی بد انتظامی اور جرم کا برملا اعتراف کر رہے ہیں تو پھر دوسروں کو کیا کہہ سکتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جامعہ پنجاب میں جو کچھ ہوا وہ منصوبہ بند سازش ہے پہلے توڑ پھوڑ اور جھگڑے کا واقعہ ہوتا ہے پھر میڈیا اسے تصادم قرار دیتا ہے اور تجزیہ نگار کسی ایک تنظیم پر واقعے کی ذمہ داری لاد کر زہر اْگلنے لگتے ہیں۔تحقیقاتی کمیٹیاں بنتی رہتی ہیں اور ان کی جانب سے تحقیقات کالامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتاہے لیکن ان کی رپورٹیں کبھی منظر عام پر نہیں لائی جاتی یہاں تک کہ اگلا واقعہ ہو جاتاہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے؟ بظاہر تو صورتحال میں کسی تبدیلی کاامکان کم ہی نظر آتا ہے کیونکہ جن لوگوں کے پاس اس مسئلے کا حل ہے وہ اسے حل نہیں کرنا چاہتے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں