میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بحران سے نکلنے کے لیے طویل المیعاد پالیسیوں کی ضرورت

بحران سے نکلنے کے لیے طویل المیعاد پالیسیوں کی ضرورت

جرات ڈیسک
منگل, ۱۹ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

مملکت خداداد پاکستان کو قائم ہوئے 76 برس ہوچکے ہیں اورآزادی کے بعدسے آج تک یہاں کے باشندوں کی اکثریت بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم ہے،کھانے کوروٹی نہیں،پینے کوصاف پانی نہیں،رہنے کوگھرنہیں۔ جہاں تک ریاست کاتعلق ہے جس کی بنیادی ذمہ داری ہی عوام کو روٹی کپڑا مکان اورپانی فراہم کرناہوتی ہے، ان تمام ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر قرض کے مے سے لطف اندوز ہورہی ہے،افسوس کا مقام ہے کہ جس ملک کو قائد اعظم کے ارشاد کے مطابق ایک اسلامی فلاحی ریاست بننا تھا وہ اشرافیہ بدمعاشیہ اوراس کی بغل بچہ بیوروکریسی اورگماشتہ ملائیت کے ہاتھوں ایک غریب اورکمزورشخص کیلئے ڈائن کارنگ اختیارکرچکی ہے، یہ اشرافیہ بدمعاشیہ درحقیقت عالمی مالیاتی اداروں کی دست نگرہو چکی ہے اوران مالیاتی اداروں سے اندھادھنداور بے ہنگم قرضے حاصل کرنے کے بعد اشرافیہ بدمعاشیہ نے منی لانڈرنگ کرکے انہی عالمی مالیاتی اداروں کے ممالک کے بینکوں میں موجوداپنے ذاتی اکاؤنٹس میں جمع کرا دیے جبکہ دوسری طرف عوام پرناجائز ٹیکس لگا کران کے خون سے آخری قطرہ بھی نچوڑ ا جاچکاہے اوراب ہڈیوں سے گودہ نکالنے پربھی کام شروع ہوچکاہے۔پیٹرول اورپیٹرولیم مصنوعات کو آئی ایم ایف کے حکم پرمزیدمہنگاکرنے کی تیاری تیز کر دی گئی ہے اورحالات بتاتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ان حالات میں بھی جبکہ پانی سرسے گزرچکاہے، ہمارے نام نہاد رہنما یالیڈرزاقتدار کی کھینچاتانی اوررسہ کشی میں مصروف ہیں۔ان کی اس روش سے یہی تاثر ملتاہے کہ انھوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ملک کے موجودہ حالات ایک دن میں پیدا نہیں ہوئے ہیں، ہمارے سیاستدانوں نے بڑی محنت کرکے 75 سال میں ملک کو یہاں تک پہنچایا ہے،75سال کی غلطیاں جمع ہو ئی  ہیں جس کی وجہ سے ملک آج یہاں پر کھڑا ہوا ہے، ایسا معلوم ہوتاہے کہ 75 سال کی ساری غلطیاں جمع ہوکرسامنے آگئی ہیں۔ مسائل اتنے گمبھیر ہو چکے ہیں اور اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ان حالات کو بہتر بنانا اب کسی فرد واحد کے بس کی بات نہیں رہی ہے اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے،طویل مدت پالیسیاں بنا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے،لیکن یہ کام کوئی عبوری یا نگراں حکومت انجام نہیں دے سکتی اس کیلئے ضروری ہے کہ فوری طورپر عام انتخابات کرائے جائیں تاکہ عوام کے منتخب نمائندے عوام کا مینڈیٹ لے کر سامنے آئیں کیونکہ اب ان مشکلا ت کا حل عوام الیکشن میں اپنے منتخب نمائندے چن کر ہی کر سکتے ہیں۔سب مل کر ہی اتحاد کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھا سکتے ہیں، اس وقت ہمیں مسائل کے حل کے لیے اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔یہ ایک قومی سانحہ ہے کہ ہم نے اپنی غلطیوں اور کو تاہیوں سے کچھ نہیں سیکھا ہے،اور ان غلطیوں اور کو تاہیوں کے نتیجے میں ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔گزشتہ 75 سال کے دوران بہت سی نا انصافیاں کی گئیں جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوگیا۔لیکن ہم نے اس سانحہ سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا اور ہم نے اس مملکت میں ہر وہ کام کیا ہے، ہر وہ کام فریضہ سمجھ کر سر انجام دیا ہے جس سے اس ملک اور عوام کو نقصان پہنچ سکتا تھا،ون یونٹ قائم کیا گیا، اس سے ملک کو مزید نقصان ہوا،اگر آج کی صورتحال میں ون یونٹ قائم کیا جائے تو شاید صورتحال میں بہتری نظر آئے،لیکن اس دور میں جب یہ فیصلہ لیا گیا تو اس وقت اس اقدام کا مقصد نیک نیتی پر مبنی نہیں تھا اور ایک علاقے کی اکثریت کو زائل کرنا مقصود تھا جو کہ کیا گیا۔ لیکن اب اس قوم کو بہت سی الجھنیں ہیں اور ایک بہت بڑا مسئلہ اس ملک میں یہ بھی بن چکا ہے کہ اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ بہت ہی زیادہ منہ زور ہو چکی ہے اور اس منہ زور گھوڑے کے اوپر سواری کرنا کسی مضبوط شخص کا ہی کام ہو سکتا ہے،اب اس ملک کو ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے جو کہ اس ملک کے عوام کے حق میں فیصلے کر سکے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام اداروں کو لے کر بھی چل سکے۔جب تک ملک میں حقیقی جمہوریت نہیں آتی ملک کا ترقی کرنا بہت مشکل ہے حقیقی جمہوریت کسی بھی ملک کے لیے بہت ہی اہمیت کی حامل ہو تی ہے اور ہمیں اس حوالے سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔جب تک یہ نہیں کریں گے ہمارے سر پر مسائل منڈلاتے رہے گے اور اور بھارت مسکراتا رہے گا۔ہمارے معاشی مسائل کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے تاجر کو کبھی بھی وہ اہمیت اور عزت نہیں دی ہے جس کا وہ حقدار ہے،ہمارے پاس دیگر شعبوں میں تو ہیروموجود ہوں گے لیکن معیشت کے شعبے میں کوئی بھی رول ماڈل موجود نہیں ہے اور شاید یہی ہماری معاشی خرابیوں کی وجہ بھی ہے۔آج کی دنیا معیشت کی دنیا ہے اور اس دنیا میں رہنے کے لیے معاشی ہیروز اور معاشی ماڈلز بہت ضروری ہیں جو کہ ہمارے پاس ہیں نہیں ایک کاروباری شخص آخر مانگتا کیا ہے؟اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کاروباری شخص اقتدار تو مانگتا نہیں ہے وہ صرف اپنی اور اپنے سرمائے کی حفاظت مانگتا ہے جو کہ بد قسمتی سے ہم آج تک کاروباری افراد کو دے نہیں سکے۔ہمیں اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں درست سمت میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔جب تک تاجر برادری مطمئن نہیں ہو تی، تب تک ملک میں سرمایہ کاری آنا بھی محال ہے اور جب تک سرمایہ کاری نہیں آئے گی تب تک کوئی نئے آئیڈیاز نہیں ہوں گے،یہ تاجر اور بزنس کمیونٹی کے لوگ ہی ہیں جنہوں نے  بھارت کی معیشت کو چار چاند لگا دیے ہیں۔حکومت کا بھی کاروباری برادری کے ساتھ ہو نا لازمی شرط ہے،اسی طرح سے نوجوان پاکستانیوں کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے ہمارے حکمراں جوان پاکستانیوں کے لیے کوئی بھی پروگرام نہیں لائے،ملک کے نوجوانوں کے مسائل سے لاتعلقی کا یہ رویہ کافی تشویشناک ہے کیونکہ اس ملک کی 60فیصد سے زائد آبادی جوان ہے۔آجکل کے دور کا جو انقلاب ہے وہ آئی ٹی کے دور کا انقلاب ہے اور اس انقلاب کو برپا کرنے کے لیے ہمیں نوجوانوں ہی کی ضرورت ہے۔لیکن ہم نے اپنے نوجوان کو اس انقلاب کے قریب لے جانے کی کوشش نہیں کی گئی۔صرف اور صرف لیپ ٹاپ تقسیم کرنے سے ملک میں ٹیکنالوجی نہیں آئے گی جہاں ہم ملک میں نئی ٹیکنالوجی لانے میں ناکام رہے ہیں وہیں پر زراعت جیسے روایتی شعبوں میں بھی تنزلی ہمارا مقدر بنی ہے اور ہم اس شعبے میں بھی پیچھے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔یہ نہایت ہی بد قسمتی کی صورتحال ہے کیونکہ زراعت تو ابتدا سے ہی ہمارا شعبہ رہا ہے اور ایک دور میں اس شعبے میں ہم خاصے آگے بھی تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ رو بہ زوال ہوتے چلے گئے۔ان تمام ناکامیوں کا سرا صرف اور صرف کرپشن پر ہی جاکر نکلتا ہے۔ملک میں ہر شعبے میں اتنی کرپشن برپا کر دی گئی ہے جس کو کہ سنبھالنا بھی مشکل ہو چکا ہے اور دیمک کی طرح اس ناسور نے ملک کو کھایا ہے اس کا سدباب کرنا ضروری ہے۔اور اب ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ کرپشن کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ ہر شعبہ ہا ئے زندگی میں رچ بس چکی ہے،اس تشویشناک صورت حال  میں بھی اگر ہمارے مقتدر طبقات عوام کو نان ایشوز میں الجھانے کی بجائے اور ان کے اندر ہیجانی کیفیات برپا کرنے کی بجائے اور ان پر مزید نا جائز ٹیکسز لگانے کی بجائے اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیریں اور اپنے اندر ایثار اور قربانی کا مادہ پیدا کریں،عوام کا کچھ بوجھ خود اٹھائیں اور ان کو اعتماد میں لیں اور عملی طور پر عوام کو یہ باور کرائیں کہ طاقت کا سرچشمہ واقعی عوام ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ صورت حال جو کہ وقتی اور عارضی ہے ختم ہو جائے گی اور ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گااور اس کا سدباب اب صرف اور صرف تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے جو کہ ایک بہت ہی سلو اور مشکل پراسیس ہے لیکن اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے آج اس حوالے سے کام شروع کریں گے تو ہی 10 سے 15 سال بعد اس حوالے سے مثبت نتائج ہمارے سامنے آسکتے ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں