چادر
شیئر کریں
مولانا محمد کلیم اللہ حنفی
گرمی تپش اور ل±و سے ج±ھلسے بدن ٹھنڈک کی چادر اوڑھ رہے ہیں۔ موسم سرما آن پہنچا ہے۔ گرم کپڑے ، چادریں، جرسیاں ، کوٹ، جرابیں ، ٹوپیاں ، گرم لحاف ، ہیٹر، گیزر کا استعمال شروع ہو چکا ہے ، کچھ دنوں تک آگ سینکنے اور دھوپ تاپنے کے عمل کاآغاز بھی ہو جائے گا۔ سخت ٹھنڈے علاقوں کے رہنے والے انسان اور پرندے (جیسے تلور.. جو سائبیریا سے اڑ کر پاکستان ، افغانستان اور عرب کے بعض مقامات پر پہنچتے ہیں) معتدل آب و ہوا والے علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
ان دنوں اگر آپ کو بازار جانے کا اتفاق ہو تو وہاں آپ کو کھانے پینے اور پہننے کی گرم اشیاءکی خرید وفروخت کی گرما گرمی نظر آئے گی۔ ان دنوں میں لوگ سردی سے بچاو¿ کے لیے بطور خاص چادر کا انتخاب کرتے ہیں۔ اپنے عزیز و اقارب کے لیے تحفے کے طور پر مختلف علاقوں کی مشہور چادریں دیتے ہیں۔زیادہ تر وول اور اون کی پسند کی جاتی ہیں۔مجھے بھی میرے مشفق و محسن استاذ مولانا محمد الیاس گھمن نے ازراہ محبت ایک منقش چادر عنایت کی ، جس میں نقش پھولوں سے ا±ن کی شفقت و محبت کی بھینی بھینی خوشبو دل و دماغ کو راحت بخش رہی ہے۔
چادر کا انسانی زندگی سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سب سے بڑے اور کامل ترین انسان جناب خاتم الانبیاءحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی چادر کو استعمال فرماتے۔ صحیح مسلم میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نجرانی قسم کی چادر جبکہ شمائل ترمذی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی سے یمنی منقش چادر پہننے کا تذکرہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لباس میں سے چادر کا تذکرہ قرآن کریم میں کیا ہے۔ یہ چادر آپ پر اتنی ججتی تھی کہ اللہ کریم نے اس وجہ سے کبھی آپ کو مزمل کہا اور کبھی مدثر کہہ کر خطاب فرمایا۔صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار اونی منقش چادر پہنے ہوئے تشریف لائے اور آپ نے حسنؓ ، حسینؓ ، فاطمہؓ اور علی ؓ کو اپنی چادر کے اندر لے لیا اور آیت تطہیر انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس۔۔ تلاوت فرمائی۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحن کعبہ میں نماز ادا فرما رہے تھے اسی دوران عتبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر کو لپیٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک گردن میں ڈال کر پیچ دینے لگا ، جس سے آپ کی گردن بہت زیادہ بھنچ گئی ، چنانچہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور عتبہ کو زور دار دھکا دیا اور ساتھ یہ آیت کریمہ اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ و قد جائکم بالبینات تلاوت فرمائی۔
سیرت کی کتابوں میں آپ کی چادر مبارک کے متعدد واقعات مذکور ہیں۔ غزوہ حنین کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رضاعی ماں سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کے اعزاز میں اپنی مبارک چادر بچھائی ، غزوہ حنین ہی کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہوازن کے قیدیوں کو مصری حلہ قبطی چادروں کے جوڑے عنایت فرمائے۔ اسی طرح اپنی رضاعی بہن سیدہ شیما کے اعزاز میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک چادر بچھائی۔9 ہجری میں حاتم طائی کی بیٹی سفانہ قیدی بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پہنچی اس دوران سفانہ کے سر سے دوپٹہ کہیں گر گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال سے فرمایا کہ میری چادر ان کو دے دو تاکہ وہ اپنا سر ڈھانپ سکے۔ بعض صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ یہ کافر کی بیٹی ہے آپ نے فرمایا: بیٹی ؛ بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر کی ہی کیوں نہ ہو۔
مشرقی تہذیب میں بچیوں کے سروں پر چادر اوڑھنا ہماری اسلامی اور امتیازی شناخت ہے۔
تعلق ہے میرا جس قوم سے ، اس قوم کی بچی
خریدے جب کوئی گڑیا ، دوپٹہ ساتھ لیتی ہے
ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے اسلامی کلچر میں کافرہ خاتون کے سر پر چادر دینے کی تعلیم موجود ہے لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ آج مغربی کلچر کے زیر اثر ہماری مسلمان خواتین کے سروں سے چادریں سرک کر پہلے گلے تک پہنچی تھیں اور اب بالکل ہی اتر چکی ہیں۔
یہ چادر کبھی عاشقانہ لباس کا روپ دھار لیتی ہے، جیسے حج اور عمرہ کے ایام میں احرام کی چادریں لباس عشق کی علامت ہیں۔ کبھی یہ چادر تنہائی کے لباس میں کفن کا روپ دھار لیتی ہے۔جیسے یہ چادر قبر کے اندر ہوتی ہے اسی طرح قبر کے اوپر بھی آج کل اوڑھ دی جاتی ہے۔ مزاروں پر چادریں چڑھانے کے رواج نے ہماری قوم کی عقل چھین لی ہے۔ سیاسی رہنما ہوں یا فلمی ایکٹرزاپنی مرادیں پوری کرنے کے لیے مزاروں پر چادریں چڑھاتے ہیں۔ دل خون کے آنسو روتا ہے جب لوگ مزاروں پر چادریں چڑھا تے ہیں لیکن پڑوس میں بیٹھے بچے اور بچیاں سردی سے ٹھٹھر رہے ہوتے ہیں۔ تب میرے لبوں پرساغر صدیقی کا یہ شعر مچلنے لگتا ہے اور میرے جذبات کے ساز چھڑ جاتے ہیں۔
جتنے غریب تن ہیں لبادوں سے بے نیاز
اتنی ہی چادریں میں مزاروں سے چھین لوں
جن اولیاءاللہ کے مزاروں پر چادریں چڑھا کر منتیں مانی جاتی ہیں اور مرادیں پوری ہونے کی آس لگائی جاتی ہے ان قابل قدر اولیاءاللہ کی تعلیمات میں یہ بات واضح طور پر ملتی ہے کہ ان چادروں کے زندہ لوگ زیادہ مستحق ہیں۔ اگر ہم اللہ کریم کی چادرِ رحمت میں آنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے گناہوں والی چادر اتار کر پھینکنی ہو گی ورنہ اس کے بغیر کوئی رستہ نہیں۔
داغ عصیاں تو کسی طور نہ چھپتے امجد
ڈھانپ لیتی نہ اگر چادر رحمت ہم کو
جیسے ہمیں سردیوں سے بچاﺅ کے لیے چادر کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح آخرت میں جہنم سے بچنے کے لیے اللہ کی چادر رحمت کی ضرورت ہے اور یہ چادر رحمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری سے حاصل ہوتی ہے۔
٭٭