میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلامی اخلاق و تہذیب

اسلامی اخلاق و تہذیب

منتظم
جمعرات, ۱۰ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

عکرمہ عکراش
سلام کرنا سنت ہے اور سلام کے جواب دینے کا زیادہ تاکیدی حکم ہے ۔ لفظ ”سلام“ پر ”الف لام“ زیادہ کرےں یا نہ کرےں دونوں طرح اختیار ہے ۔ مثلاً ”السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ “ کہےں یا ” سلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ “ ۔۔۔ دونوں طرح جائز ہے۔
سلام کے متعلق ایک حدیث مروی ہے ۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ” السلام علیکم “ کہا ،حضور ِاقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا ۔ وہ شخص بیٹھ گیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اس شخص نے دس (۰۱) نیکیاں پائیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے ” السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ “ کہا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور وہ شخص بھی بیٹھ گیا ۔ اس کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ”اس شخص نے تیس (۰۳) نیکیاں حاصل کیں ۔“
سنت یہ ہے کہ چلنے والا بیٹھے کو اور سوار پیادہ کو اور بیٹھے کو سلام کرے ۔ جماعت میں سے اگر ایک آدمی نے بھی سلام کرلیا تو سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا۔ اسی طرح جماعت میں سے کسی ایک شخص نے بھی سلام کا جواب دے دیا تو سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا ۔ کافر کو سلام کرنے میں ابتداءکرنا درست نہیں ۔ ہاں اگر وہ خود سلام کرنے میں پہل کرے تو جواب میں ”وعلیکم“ کہہ دینا چاہیے ۔ لیکن مسلمان کے سلام کا جواب دیتے وقت ” وعلیکم السلام“ کہنا چاہیے ۔ اگر ” ورحمة اللہ و برکاتہ“ کے الفاظ بھی ساتھ بڑھا دیے جائیں تو افضل ہے ۔ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے صرف ”سلام“ کہے تو اس کے سلام کا جواب نہ دیا جائے ، اس لیے کہ یہ اسلامی سلام نہیں ہے ۔
عورتوں کے لیے بھی باہم سلام کرنا مستحب ہے ۔ کسی اجنبی غیر محرم مرد کا کسی اجنبی غیر محرم جوان عورت کو سلام کرنا ، اسی طرح کسی اجنبی غیر محرم عورت کا کسی اجنبی غیر محرم مرد کو سلام کرنا مکروہ ہے ۔ بچوں کو سلام کرنا مستحب ہے ، اس سے ان کو اسلامی تہذیب کی تعلیم ہوتی ہے ۔ مجلس سے اٹھنے والے کے لیے اہل مجلس کو سلام کرنا مستحب ہے ۔ اگر دروازہ ، دیوار یا کوئی اور چیز حائل ہوجائے اور پھر سامنا ہوتودوبارہ سلام کرنا چاہیے۔جو لوگ گناہ کے کاموں میںمشغول ہوں ان کو سلام نہیں کرنا چاہیے ہاں ! اگر وہ خود سلام کریں تو جواب دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان بھائی سے تین دن سے زائد تعلقات منقطع نہ رکھے ۔ ہاں! اگر وہ بدعتی ہو ،سیدھے راستے سے بھٹکا ہوا ہو ، معصیت میں مبتلا ہو تو ایسے آدمی سے تعلقات منقطع کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ جس مسلمان نے کسی دوسرے مسلمان بھائی سے تعلق توڑ لیا اور پھر اس کو سلام کرلیا تو تعلق توڑنے کے گناہ سے وہ بچ جاتا ہے۔مسلمان بھائی سے مصافحہ کرنا سنت ہے ۔ اگر خود مصافحہ کرنے کی ابتداءکی ہے تو جب تک دوسرا آدمی اپنا ہاتھ واپس نہ کھینچ لے مصافحہ کرنے والا شخص اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہ چھڑائے ۔
عادل بادشاہ ، والدین ، دین دار ، پرہیز گار اور بزرگ آدمیوں کی تعظیم و تکریم کے لیے کھڑا ہونا مستحب ہے ۔ اس کا اصل ثبوت اس روایت سے ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے یہودیوں کے فیصلے کے لیے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بلوایا ۔ سعد سفید گدھے پر سوار ہوکر آئے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت سعد کے قبیلہ والوں سے ) فرمایا : ” اپنے سردار کی تعظیم و تکریم میں کھڑے ہوجاو¿!۔“
ام المو¿منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںکہ : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم بجالاتے ہوئے ) اٹھ کر آپ کی طرف آگے کو بڑھتیں، آپ کا ہاتھ مبارک پکڑ کر چومتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔ اور جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لے جاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے استقبال میں اٹھ کر آگے کی طرف بڑھتے اور ہاتھ پکڑ کر چومتے اور انہیں اپنی مسند مبارک پر بٹھاتے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کسی قوم کا بزرگ تمہارے پاس آئے تو تم اس کی عزت کرو ! اس سے دلوں میں دوستی اور محبت جمتی ہے ۔“ اس لیے نیک لوگوں کی تعظیم کرنا مستحب ہے جس طرح ہدیہ دینا ان کو مستحب ہے ۔ لیکن اہل معصیت ( گناہ گار ) اور اللہ تعالیٰ کے نافرمان لوگوں کی تعظیم مکروہ ہے ۔
اسلامی تہذیب میں یہ بھی ہے کہ چھینکنے والا پست آواز سے چھینکے اور اپنا منہ ڈھانپ لے اور اونچی آواز سے ﴾ ا¿لحمد للہ رب العالمین ﴿ کہے ۔ بعض احادیث میں مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” بندہ جب ﴾ ا¿لحمد للہ ﴿کہتا ہے تو فرشتہ ﴾ رب العالمین ﴿ کہتا ہے اور جب بندہ ﴾ ا¿لحمد للہ ﴿ کے ساتھ ﴾ رب العالمین ﴿ بھی کہتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ : ” تیرا رب تجھ پر رحم فرمائے۔“
چھینکنے والا دائیں بائیں گردن نہ موڑے ۔ اور جب وہ ﴾ ا¿لحمد للہ رب العالمین ﴿ کہے تو سننے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس کے جواب میں ﴾ یرحمک اللہ ﴿ کہے اور پھر چھینکنے والا اس کے جواب میں کہے : ﴾ یھدیکم اللہ و یصلح بالکم ﴿ یعنی اللہ تعالیٰ تم کو ہدایت کرے اور تمہارا حال درست کرے ۔ ﴾ یھدیکم اللہ ﴿کی جگہ﴾ یغفر اللہ ﴿ کہنا بھی درست ہے ۔اگر کسی کو تین چھینکوں سے زیادہ چھینکیں آئیں تو سننے والے پر جواب دینا ضرورری نہیں ، کیوں کہ ایسا ہوا اور زکام کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے حضرت سلمیٰ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” چھینکنے والے کو تین بار جواب دیا جائے ، اس سے زائد اگر وہ چھینکے تو (سمجھ لینا چاہیے کہ ) اسے زکام ہے ۔ “
جب کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے یا آستین سے اپنا منہ ڈھانپ لے ( اس لیے کہ اگر جمائی آتے وقت منہ کو نہ ڈھانپا جائے تو ) شیطان منہ میں گھس جاتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :” اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتے ہیں اور جمائی کو ناپسند فرماتے ہیں ۔ لہٰذا جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہوسکے اسے واپس لوٹا دے اور ”ہاہا“ نہ کرے کہ اس سے شیطان ہنستا ہے ۔“ غیر مشتہاة بوڑھی عورت کی چھینک کا جواب دینا مرد کے لیے جائز ہے اور مشتہاة غیر محرم نوجوان عورت کی چھینک کا جواب دینا مرد کے لیے ناجائز ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں