میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۵ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
استخارہ کی اہمیت اور اس کا مسنون طریقہ
سوال:میرا سوال استخارہ کے بارے میں ہے،استخارہ کاطریقہ کیاہے اور کس طرح کیاجاتاہے؟نیزیہ بھی بتائیں کہ آج کل استخارہ جس طریقے سے نکلوایاجاتاہے کیایہ طریقہ بھی درست ہے؟
جواب:استخارہ خود کرناافضل ہے اس لیے افضل وبہتریہی ہے کہ جس شخص کا معاملہ ہووہ خود استخارہ کرے۔استخارہ خیراوربھلائی طلب کرنے کوکہاجاتاہے اور اس سے مقصودیہ ہوتاہے کہ انسان کوجب کسی معاملہ ،کسی کام کے مفیداورمضرہونے کے بارے میں ترددپیداہوجائے ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاکی جاتی ہے تاکہ ترددختم ہوجائے ۔طبرانی شریف کی روایت میں سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’جواستخارہ کرتاہے وہ ناکام نہیں ہوتااور جومشورہ کرتاہے وہ نادم نہیں ہوتا‘‘۔ترمذی شریف کی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادمنقول ہے:’’اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرناآدمی کی نیک بختی کی علامت ہے ‘‘۔استخارہ کے لیے سب سے افضل طریقہ وہی ہے جوسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث مبارکہ میں منقول ہے اور جوآپ نے اپنے صحابہ کرامؓ کوسکھایاتھا،ذیل میں مشکوۃ شریف کے حوالہ سے وہ طریقہ لکھاجاتاہے:
’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے تمام کاموں کے لیے ہمیں دعائے استخارہ اس طرح سکھاتے تھے جیسے قرآن کریم کی کوئی سورت سکھاتے تھے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کی تعلیم کا بہت اہتمام رکھتے تھے) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ:’’جب تم میں سے کوئی آدمی کسی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت (نفل) پڑھے ،پھر یہ دعائے پڑھے:
اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اَللّٰہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَاالْاَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ ، وَمَعَاشِیْ ، وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ ، فَاقْدُرْہُ لِیْ ، وَیَسِّرْہُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ ، وَمَعَاشِیْ ، وَعَاقِبَۃِ أَمْرِیْ، فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ ، وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ ، وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ، ثُمَّ أَرْضِنِیْ بِہِ.
ترجمہ:اے اللہ!میں تیرے علم کے وسیلے سے تجھ سے بھلائی مانگتا ہوں اور تیری قدرت کے واسطے سے (نیک عمل کرنے کی) تجھ سے قدرت مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں کیونکہ تو ہی (ہر چیز پر )قادر ہے میں (تیری مرضی کے بغیر کسی چیز پر )قادر نہیں ہوں، تو (سب چیزں کو) جانتا ہے میں کچھ نہیں جانتا اور تو پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے، اے اللہ !اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (یعنی مقصد) میرے لیے میرے دین میں، میری دنیا میں ، میری زندگی اور میری آخرت میں،تو اسے میرے لیے مہیا فرما دے اور اسے میرے لیے آسان فرما دے، پھر اس میں میرے واسطے برکت دے اور اگر تو اس امر (یعنی میرے مقصد اور میری مراد)کو میرے دین، میری زندگی اور میری آخرت میںبرا جانتا ہے تو مجھے اس سے اور اسے مجھ سے پھیر دے اور میرے لیے جہاں بھلائی ہو وہ مہیا فرما پھر اس کے ساتھ مجھے راضی کر‘‘۔
اس حدیث کی تشریح میں علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اگر ایسے کام کا ارادہ کیا جائے جو مباح ہو اور اس کی کامیابی و بھلائی میں شک و تردد ہو مثلاً سفر کا ارادہ ہو ، تجارت شروع کرنے کا خیال ہو، نکاح کرنا چاہتا ہویا اسی قسم کے دوسرے مباح کام تو ایسے موقع پر مناسب اور بہتر یہ ہے کہ استخارے کو اپنا راہبر و مشیر بنایا جائے۔ کھانے پینے یا اسی قسم کے دوسرے مقرر و متعین کاموں کے لیے استخارہ نہیں کرنا چاہیے ،اگر کوئی کام خیر محض ہو تو اس میں استخارہ نہ کیا جائے۔ استخارے کی برکت یہ ہے کہ کام شروع کرنے والے کے حق میں جو بات بھی بہتر ہوتی ہے وہ اس کے دل میں جگہ لے لیتی ہے اور دل اپنے حق میں بہتر بات ہی کا فیصلہ کرتا ہے۔
استخارے کا طریقہ یہ ہے کہ باوضو ہو کر کسی بھی وقت (علاوہ اوقات مکروہ کے) استخارے کی نیت سے دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے بعد مذکورہ دعا پڑھی جائے۔ اگر سنت کی ، تحیۃ المسجد کی یا تحیۃ الوضو کی پڑھی جانے والی نمازوں میں سے ہی دو رکعت پڑھنے کے بعد دعاء استخارہ پڑھ لی جائے تو بھی جائز ہے لیکن اولیٰ یہی ہے کہ علیحدہ سے دو رکعت نماز بطور خاص استخارہ کی نیت ہی سے پڑھنی چاہیے۔
اس نماز میں جو بھی سورت پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے کسی خاص سورت کا تعین نہیں ہے۔ تاہم بعض روایتوں میں ہے کہ قل یا اَیُّھَا الکافرون اور قل ہو اللّٰہ پڑھنا بہتر ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ ویسمی حاجتہ کا مطلب یہ ہے کہ دعا میں لفظ ھذا الا مر بطریق عموم واقع ہے استخارہ کرنے والا اپنی دعا میں اس جگہ اپنا مقصد اور اپنی مراد ظاہر کرے مثلا ’’ھذا الامر‘‘کی بجائے یوں کہے’’ھذا السفر‘‘ یا’’ ھذا الاقامۃ‘‘یا اسی طرح جو بھی مقصد ہو ذکر کرے ۔نیز یہ بھی جائز ہے کہ پہلے ھذاالامر کہہ لے اس کے بعد اپنا مقصد اور اپنی مراد کا ذکر کرے۔ ایک اور روایت میں یہ مختصر استخارہ بھی منقول ہے کہ ’’اگر کسی آدمی کو جلدی ہو اور کوئی وقتی و ہنگامی کام ہو تو اسے چاہیے کہ وہ صرف یہ پڑھ لے:’’ اَللّٰھُمَّ خِرْلِیْ وَاخْتَرْلِیْ وَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی اِخْتِیَارِیْ۔‘‘ترجمہ:اے اللہ ! (میرے حق میں تیرے نزدیک جو بہتر اور مناسب ہو اسے) میرے لیے پسند اور میرے لیے اختیار فرما اور مجھے میرے اختیار کا پابند نہ بنا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ :’’انس !جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے سات مرتبہ استخارہ کرو، پھر اس کے بعد (اس کا نتیجہ)دیکھو، تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے (یعنی استخارے کے نتیجے میں بارگاہ حق کی جانب سے جو چیز القاء کی جائے )اسی کو اختیار کرو کہ تمہارے لیے وہی بہتر ہے۔‘‘
(جواہرالفقہ 6/495،اسلام میں مشورہ کی اہمیت،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی-مظاہر حق ،جلد اول،ص:833,834،ط:دارالاشاعت کراچی)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں