سندھ میں اکثر لوگوں کے پاس چائے بنانے کیلئے بھی گیس نہیں،سندھ ہائیکورٹ
شیئر کریں
سندھ میں قدرتی گیس کی شدید قلت کی وجہ سے درپیش شدید مشکلات کا مشاہدہ کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکام کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں آگاہ کریں۔انگلش اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت نے صوبائی لا افسر کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے گیس کی تقسیم کے معاملے کو 2018 میں مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) کے پاس بھیج دیا تھا، لہٰذا آئندہ سماعت میں اس حوالے سے تحریری بحث، سفارشات اور سی سی آئی کی جانب سے جاری کیے گئے احکامات پیش کرے۔جسٹس محمد کریم خان آغا کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 158 کے مطابق قدرتی گیس پیدا کرنے والے صوبے کا اس پر پہلا حق ہے لیکن صوبے کے زیادہ تر لوگوں کے پاس اتنی گیس نہیں ہے کہ وہ ایک کپ چائے بھی تیار کر سکیں۔سندھ ہائی کورٹ نے حکومتِ سندھ کو صوبے میں گیس کے بحران کے حل کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 158 کے نفاذ یا سی سی آئی میں کسی ایسے پرامن حل کے بارے میں ٹائم فریم اور شیڈول سمیت کچھ معقول تبصرے درج کرنے کی ہدایت کی جس سے سندھ کے عوام کو فائدہ ہو۔بینچ کو بتایا گیا کہ سینئر وکیل مخدوم علی خان کی طبیعت ناساز ہے، انہیں آرٹیکل 158 سے متعلق ان امور پر عدالتی معاون کے طور پر مقرر کیا گیا تھا جس میں صوبائی حکومت کی اجازت کے بغیر سندھ سے گیس لینے کا حکومت کا اختیار بھی شامل ہے۔بینچ کے سابقہ حکم کی روشنی میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ذیشان آدھی نے چیف سیکریٹری کو خط لکھا جس میں ہدایات مانگی گئی تھیں کہ حکومتِ سندھ صوبے میں گیس کی شدید قلت کے باعث آرٹیکل 158 کے حوالے سے کس طرح نمٹنے کا ارادہ رکھتی ہے۔بینچ نے مشاہدہ کیا کہ آرٹیکل 158 کے تحت گیس کی تقسیم سے متعلق معاملہ 4 برس قبل سی سی آئی کو بھیجا گیا تھا لیکن بینچ نے سی سی آئی کی جانب سے اس حوالے سے کوئی سفارش، بحث یا فیصلہ نہیں دیکھا۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ذیشان آدھی نے ججز کو بتایا کہ آرٹیکل 185 کے تحت قدرتی گیس کی فراہمی میں سندھ کے لوگوں کو ترجیح دی جانی چاہیے تھی، لیکن مذکورہ آرٹیکل پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کے عوام بنیادی مسائل کا شکار ہیں۔بینچ نے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ ٹائم فریم کے ساتھ ایک بیان بھی درج کریں کہ حکومتِ سندھ زیر بحث آرٹیکل کو نافذ کرنے یا سی سی آئی میں اس کا کوئی مناسب حل نکالنے کے لیے کیا کرنا چاہتی ہے۔