وی پی این پر پابندی کا بھونڈا جواز !
شیئر کریں
حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک سیاسی پارٹی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے گھبرا کر ملک میں وی پی این پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کرنے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے اب پاکستان سمیت پوری دنیا میں وی پی این کے منفی اور مثبت استعمال کے حوالے سے گرماگرم بحث شروع ہوگئی ہے ،وی پی این جو ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس کا مخفف ہے۔ درحقیقت ایک ایپ ہے جو کسی وجہ سے بند کی گئی ویب سائٹس تک رسائی دیتی ہے۔ حکومت نے ٹوئٹر کو فتنہ قرار دے کر پابندی کا نشانہ بنایا تو ٹوئٹر صارفین نے ویب سائٹ تک پہنچنے کے لیے متبادل ذرائع تلاش کرنا شروع کیے تو ان کا واسطہ وی پی این سے ہوا۔ وی پی این کے ذریعے پاکستانی شہری خود کو برطانیہ، امریکہ، بھارت، سنگا پور، افغانستان یا کسی بھی دوسرے ملک کے شہری کے طور سیٹنگ کرکے ٹوئٹر تک رسائی کی پوزیشن میں آنے لگا۔ اس طرح یکایک وی پی این کا استعمال ایک عالم مجبوری میں پاکستانیوں میں مقبول ہونے لگا۔ اب حکومت کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وی پی این کے استعمال سے پاکستان میں ممنوع اور مخرب اخلاق یا گستاخانہ مواد کی حامل ویب سائٹس تک بھی رسائی آسان ہوگئی۔ حکومت کی پیش کردہ یہ تاویل قطعی غلط نہیں ہے لیکن اگر ایسا ہوا ہے تو خود حکومت نے ٹوئٹر پر پابندی عائد کرکے نوجوانوں کو ہاتھ پکڑ کر انہی ویب سائٹس تک پہنچا دیا جنہیں برسوں پہلے فائر وال اور دوسرے ذرائع سے روک دیا گیا تھا۔ اب سب ہی ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں مگر اس کا ذریعہ وی پی این ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی وی پی این کے ذریعے کسی عالمی رہنما کو مبارکبا د دیتے ہیں یا کسی سے تعزیت کرنے پر مجبور ہیں۔وی پی این پر پابندی اور اس کو رجسٹرڈ کرانے کے حوالے سے حکومت کی پھرتیوں کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں وی پی این کے خلاف حکومتی اقدامات کی مذمت کی جارہی ہے اور اسے معلومات تک عام آدمی کی رسائی روکنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے ، ابتدا میں حکومت نے اس معاملے سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے ذمہ داری پی ٹی اے پر ڈال دی تھی کہ یہ سب کچھ فحش مواد کی روک تھام کیلئے کیا جارہاہے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے وی پی این کو حرام قرار دئے جانے کا فتویٰ جاری ہونے کے بعد اب اس حوالے سے حکومت کی نیت مزید مشکوک ہوگئی ہے ، اسلامی نظر یاتی کونسل کی جانب سے جاری کئے جانے والے اس فتوے کاخود ملک کے بعض جید علما نے بھی مذاق اڑایا ہے اور سوال کیاہے کہ اگر وی پی این کا استعمال حرام ہے تو موبائل فون اور کمپیوٹر کا استعمال بھی حرام قرار دیاجائے ۔ایسی اور بھی بہت سی ایپس ہیں جو مختلف مقاصد کے لئے بنائی گئی ہیں جن کی اہمیت ان ممالک میں بڑھ جاتی ہے، جہاں کسی وجہ سے فیس بک، واٹس اپ، یوٹیوب، ٹویٹر (X) اور ممنوعہ ویب سائٹس تک رسائی کو ناممکن بنا دیا گیا ہو۔یہ ایک تکنیکی اور انتظامی مسئلہ ہے۔ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔جہاں تک بعض علما کی جانب سے کئے گئے فتووں کا تعلق ہے تو یہ بات واضح ہے کہ جدید ٹیکنالوجیز کے بارے میں اس طرح کے فتوے پہلے بھی آتے رہے ہیں ، جب دنیا میں ایجاد ہونے والا لاؤڈا سپیکر برصغیر میں آیاتو مذہبی پیشواؤں نے اس کے خلاف فتوے دیئے۔ فتوؤں کی بنیاد یہ تھی نماز کیلئے اذان موذن کی زبان سے سننا ضروری ہے، لاؤڈ اسپیکر تو ایک مصنوعی آلہ ہے، اس کے ذریعے پہنچنے والی آواز غیر شرعی ہے۔ جب باتیں منطق سے ہٹ کر اور مذہب کی آڑ لے کر کی جاتی ہیں تو ان کا اثر الٹ ہوتا ہے۔ لاؤڈ سپیکرکا استعمال بند نہیں ہوا بڑھتا گیا۔ آج یہ عالم ہے کہ لوگ شکایت کرتے ہیں محلے کا مولوی سارا دن مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر تقریر کرکے ان کی زندگی عذاب بنا دیتا ہے۔ اب تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی بڑے عالم دین خطاب کرنے آتے ہیں تو ان کے مصاحبین کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا جاتا ہے، ساؤنڈ سسٹم بہت اچھا ہونا چاہیے۔ ایجادات درحقیقت انسانی ارتقا کا عمل ہیں۔ آپ انہیں زندگی سے نکال کے پتھر کے زمانے میں جانا چاہیں تو اس کیلئے بھی آپ کو جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت پڑے گی۔ کسی بھی ایجاد کو اس کے برے مقاصد کی خاطر استعمال پر غیر ضروری قرار دے کر پابندی لگانے کی بات نہیں کی جا سکتی۔ چھری ایک ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر کسی گھر میں دال روٹی نہیں پکتی، لیکن یہی چھری بعض اوقات کسی انسان کو قتل کرنے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔ اب اس بنیاد پر کوئی یہ فتویٰ جاری کرے کہ چھری رکھنا غیر شرعی ہے تو اس کی بات کون مانگے گا۔ دنیا میں جتنی بھی ایجادات ہوئی ہیں، ان کے مثبت اور منفی پہلوموجود ہیں اسلحہ دفاع کے کام بھی آتا ہے اور اسے قتل و غارت گری کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ انسان اگر دیگر جانوروں سے افضل ہے تو اس کی وجہ اس کا دماغ ہے جو تخلیق بھی کر سکتا ہے اور تخلیقی سرگرمی کو فروغ دینے کیلئے ایجادات بھی سامنے لا سکتا ہے۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو وہ اچھے اور برے کی تمیز سکھاتا ہے۔ وہ برائی سے روکتا ہے اور اچھائی کی طرف راغب کرتا ہے۔ وہ کسی شے کے خلاف نہیں ہوتاانٹرنیٹ کی بدولت گھر بیٹھ کر محض اپنے تخلیقی ذہن کے استعمال سے غیر ملکی زرمبادلہ کمانے والے نوجوانوں کو بددل کرنا ظالمانہ فعل ہے۔ ریاست کو ڈنڈا بردار باپ کی طرح اپنی رعایا کو شریر بچے ہی تصور نہیں کرنا چاہیے جو ہمہ وقت فحش مواد یا فیک نیوز کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہمارے اخلاق سنوارنے کے بجائے ریاست کو ہمیں حقوق کے حامل شہری تسلیم کرنا ہوگا۔ ہمارے حقوق کا دیانتداری سے تسلیم کیا جانا ہی ہمیں بطور شہری ان فرائض پر توجہ دینے کو اُکسائے گا جن کی وجہ سے ہم ازخود ملک میں فتنہ وفساد کا فروغ روکنے کو ڈٹ جائیں گے۔ اس ضمن میں ہمیں سرکار مائی باپ کی رہ نمائی درکار نہیں ہوگی۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر رجسٹرڈ ‘وی پی این’ کی بندش ملک کی سا لمیت کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ غیر مصدقہ وی پی این کے استعمال سے دہشت گرد بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں جس کا فوری تدارک ضروری ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی اے کی جانب سے بے تحاشا غیر قانونی یو آر ایلز اور غیر اخلاقی مواد پھیلانے والی ویب سائٹس کو تصدیق کے بعد بلاک کیا جا رہا ہے۔حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے کہا ہے کہ یو آر ایل اور ویب سائٹس کی فرانزک چھان بین کے بعد ہو شربا انکشافات سامنے آئے ہیں۔دہشت گرد وی پی اینز کا استعمال کر کے اپنی شناخت چھپا لیتے ہیں جس کے ذریعے وہ پروپیگنڈا اور جعلی معلومات کی تشہیر کر ر ہے ہیں۔حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ‘ گمراہ کن مواد کا پھیلاؤان غیر رجسٹرڈ’وی پی این کے ذریعے آسانی سے ممکن ہے۔تاہم حکام کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ عام صارف ایکس پر حکومتی پابندی کی وجہ سے وی پی اینز کے استعمال پر مجبور ہوئے جس کی وجہ سیاسی زیادہ تھی۔ دنیا بھر اور پاکستان میں بھی ایکس کا استعمال سیاسی گفتگو کے لیے زیادہ دیکھا گیا ہے ۔ پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ اس نے ایک لاکھ ایک ہزار 83 گستاخانہ یو آر ایل (ویب سائٹس) اور آٹھ لاکھ 44 ہزار آٹھ غیراخلاقی ویب سائٹس کو بلاک کیا ہے۔اس کے مطابق پی ٹی اے کو حکومتی ادارے بھی ایسی سائٹس سے متعلق رپورٹ کرتے ہیں اور انفرادی طور پر بھی غیر اخلاقی مواد سے متعلق پی ٹی اے کو شکایات ملتی رہتی ہیں۔حکام کا کہنا ہے غیررجسٹرڈ اور غیرقانونی وی پی اینز سیکورٹی رسک ہیں پی ٹی اے وی پی اینز کی وائٹ لسٹنگ کا عمل تیز کرنا چاہتی ہے۔ ‘غیررجسٹرڈ وی پی اینز سے غیرقانونی مواد تک رسائی بھی ہو سکتی ہے۔تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ دنیا میں فحش مواد سے نمٹنے کے دیگر طریقے بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ نئے آن لائن حفاظتی قوانین کے تحت اپنے صارفین کی عمر کی اب تصدیق کرنے کا پابند بنایا جائے گا۔ڈیجیٹل کے وزیر کرس فلپ نے تصدیق کی کہ آن لائن سیفٹی بل کے مسودے کو مضبوط بنایا جائے گا تاکہ فحش مواد شائع کرنے والی تمام سائٹس کو ‘مضبوط چیک’ رکھنے کا پابند کیا جائے اور یہ یقینی بنایا جائے کہ صارفین کی عمر8 1سا ل یا اس سے زیادہ ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے وی پی این کی بندش کے حوالے سے جتنی وضاحتیں جاری کی یا کرائی جارہی ہیں ان سے عوام میں حکومت کی بدنیتی کا تاثر بڑھتا جارہاہے ،اور اب طورپر یہ کہاجارہاہے کہ یہ صرف ایک بہانہ ہے مقصد کچھ اور ہے،اور اس کو اسلامی ٹچ اس لئے دیاجارہا ہے تاکہ لوگ واہ واہ بھی کریں۔حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر رجسٹرڈ ‘وی پی این’ کی بندش ملک کی سالمیت کے لیے وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ غیر مصدقہ وی پی این کے استعمال سے دہشت گرد بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں جس کا فوری تدارک ضروری ہے۔حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے کہا ہے کہ یو آر ایل اور ویب سائٹس کی فرانزک چھان بین کے بعد ہو شربا انکشافات سامنے آئے ہیں،یہی وجوہات ہیں جن کے باعث حکومت نے ملک میں بڑھتے ہوئے ‘سیاسی تقسیم اور انتشار’ کے خاتمے کے لیے مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بڑا سا واقعی کاٹا لگا دیا۔حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی اس وضاحت میں کتنی بھی صداقت کیوں نہ ہو حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک طرح سے مسلم لیگ ن کی حکومت کی ساکھ پر ایک سیاہ دھبہ ہے اگر وہ سمجھیں تو۔ اس کے طعنے انہیں طویل عرصے تک سہنے پڑیں گے۔ سیاسی مخالفت کو ایکس پر دبانے کے کئی دوسرے طریقے ہو سکتے ہیں لیکن مکمل بندش شاید آخری اقدام تھا جو سب سے پہلے اٹھا لیا گیا۔ ایکس پر پابندی لگانے والا پاکستان کوئی پہلی ملک نہیں ہے۔ اس سیاسی طور پر دنیا میں مقبول پلیٹ فارم پر 2011 میں مصر، 2014 اور 2024 میں ترکی اور ازبکستان نے 2021 کے صدارتی انتخابات کے دوران عارضی پابندیاں عائد کیں۔ یہ وہ سب ملک ہیں جو ان اوقات میں سیاسی طور پر مشکلات میں گھرے ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کے اکثر صارف بیرون ملک سے جو کہنا اور کرنا تھا اس پلیٹ فارم پر انہوں نے جاری رکھا، بدقسمتی صرف ملک کے اندر رہنے والے صارفین کی تھی کہ انہیں باخبر رہنے کے ایک اہم ذریعے سے محروم ہونا تھا۔ پھر فائر وال کا سنا گیا اور اب بات وی پی اینز پر پابندی تک پہنچ گئی ہے۔اب ایک سیاسی جماعت کے بیانیے کو مات دینے کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی حرکت میں آئی اور وی پی این کے دہشت گردی میں استعمال کا جواز بتایا۔ حکومت اور ریاستی اداروں کا موقف تو یہ رہا ہے کہ دہشت گرد دوسرے ممالک سے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اگر دہشت گرد باہر ہیں تو پاکستان میں کیسے ‘وی پی این’ استعمال کر رہے ہیں؟ بات یہاں تک رہتی تو شاید ٹھیک ہوتی لیکن صارفین کی ایک بڑی تعداد کو فحش مواد کا عادی بھی قرار دے دیا گیا۔اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پوری دنیا میں فحش مواد دیکھا جاتا ہے۔ جب انٹرنیٹ نہیں تھا تب بھی اس ملک میں اس قسم کے غیرملکی رنگین میگزین اور رسائل مل جاتے تھے وار مختلف طریقوں سے فحش فلمیں بھی عام دیکھی جاتی تھیں۔سوال یہ ہے کہ پی ٹی اے کو اس کا خیال اب اچانک کیوں
آیا؟ یہ مسئلہ کوئی آج کا تو نہیں؟ پھر وی پی این پر پابندی آج کیوں؟وی پی این کے ایکس پر پابندی سے قبل بھی یہ سب کچھ جاری تھا، اس وقت اس کا اعتراف کیوں نہیں کیا گیا؟ جواب یقینا فحش مواد کی ویب سائٹس پر روزانہ کی بنیاد پر پابندی ہو گا لیکن اس مسئلہ کو اب کیوں ہائی لائٹ کیا گیا؟پھر اس سیاسی مسئلہ میں مذہبی ادارے کو لانا بھی غلط وقت پر غلط فیصلہ تھا۔ سوچیں اگر حکومت مخالفین بلیو اسکائی اور تھریڈز جیسے نئے پلیٹ فارم پر چلے گئے تو کیا انہیں بھی بند کر دیا جائے گا؟اس ملک کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ اس کی منزل کیا ہے اور اس منزل تک پہنچنے کے لیے راستہ کون سا اختیار کرنا ہے۔ اس کے لیے شاید موجودہ وقت بھی موزوں نہیں لیکن یہ تعین اگر جلد کر لیا جائے تو ابہام بھی ختم ہو گا اور لوگ زیادہ یکسوئی کے ساتھ متفقہ طور پر طے شدہ منزل تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔