میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
الیکشن کمیشن کامبہم اعلان

الیکشن کمیشن کامبہم اعلان

جرات ڈیسک
اتوار, ۲۴ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

الیکشن کمیشن کی جانب سے 21 ستمبر کو جاری کیے گئے چار سطروں پر مشتمل مختصر اعلامیے کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ ملک میں عام انتخابات جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں کروا دیے جائیں گے۔الیکشن کمیشن کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے کام کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست 27 ستمبر 2023 کو شائع کر دی جائے گی۔الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات و تجاویز کی سماعت کے بعد حلقہ بندیوں کی حتمی فہرست 30 نومبر کو شائع کی جائے گی اور اس کے 54 دن کے الیکشن پروگرام کے بعد انتخابات جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں کروا دیے جائیں گے۔اس خبر کا سامنے آنا تھا کہ ٹی وی اسکرینز اور سوشل میڈیا پر الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے تبصروں اور بحث کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یوں الیکشن ہونے، نہ ہونے اور کب ہونے جیسے کئی ماہ سے گردش کرتے سوالات اور ان سے جڑے وسوسوں میں بدلاؤ کی جھلک دکھائی دی۔الیکشن کمیشن کے اعلان کے ساتھ جہاں نگران حکومت کی مدت کو غیر معمولی طول دینے جیسی افواہوں کا خاتمہ ہوا وہیں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا الیکشن کمیشن کا یہ اعلان کس سیاسی پارٹی کی امنگوں کے خلاف ہے اور یہ اعلان آئین سے مطابقت بھی رکھتا ہے کہ نہیں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جنوری میں انتخابات کے انعقاد کے اعلان پر پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو کتنی امید ملی ہے اور کیا اس سے ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام میں بھی کمی آ سکے گی؟پاکستان میں 9 اگست 2023 کو قومی اسمبلی اور اس کے بعد سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو سب کو انتظار تھا کہ اب الیکشن کی تاریخ کا اعلان کب کیا جائے گا۔ یہ ابہام بھی موجود رہا کہ آیا نگران حکومت کا دائرہ اختیار اس لیے تو نہیں بڑھایا گیا کہ اس کی مدت پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی طرح لا متناہی طول پکڑ لے۔سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کا اعلان سیاسی جماعتوں کے لیے امید کی کرن ہے؟ اور کیا اس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام میں کچھ قرار آنے کی امید ہے؟ بظاہر الیکشن کمیشن کا یہ اعلان ان سیاسی جماعتوں کیلئے نہایت خوش آئند ہے جوجلد از جلد الیکشن کرا نے کے مطالبات کررہے ہیں ان  میں پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ حکممرانی کے مزے لینے کے بعدنوازشریف دور کی تمام خرابیوں کا ذمہ دارمسلم  لیگ ن کوقرار دے کر خود انتہائی معصوم اور عوام کاہمدرد ظاہر کرکے ایک دفعہ پھر عوا م کو بیوقوف بنانے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے،پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو یہ گمان ہے کہ مسلم لیگ ن اتنے کم عرصے میں الیکشن کی پوری تیار ی نہیں کرسکے گی اور اگر نواز شریف اعلان کردہ پروگرام کے مطابق واپس آبھی گئے تو  بھی انھیں اپنے اوپر مقدمات کی کلیئرنس حاصل کرنے میں کم وبیش ایک ماہ لگ سکتا ہے اس طرح ان کے پاس انتخابی مہم چلانے کیلئے بہت کم وقت ملے گا،مسلم لیگ ن کا خیال تھا کہ چیف الیکشن کمشنرچونکہ مبینہ طورپر ان کے ہم خیال ہیں  اس لئے وہ نواز شریف کو کچھ وقت دینے کیلئے انتخابات کو رانا ثنا اللہ کے مطابق کم از کم فروری کے آخر تک ضرور لے جائیں گے،تاہم ایک بات اٹل ہے کہ انتخابات کے حوالے سے بعض حلقے ملک میں جو بد گمانی اور غیر یقینی پھیلا رہے تھے، اسے ختم کرنے میں مدد ملے گی۔2018 میں تمام سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اگلا الیکشن نئی مردم شماری پر ہو گا لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے 2022 تک مردم شماری کرانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ مسلم لیگ کے رہنماا حسن اقبال  نے انتخابات نئی مردم شماری کرانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اس تاخیر کا تمام تر ملبہ پی ٹی آئی پر ڈالنے کی کوشش کی ہے ان کے مطابق ’الیکشن کمیشن نے متعدد بار پی ٹی آئی کی حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ اگلے انتخابات کے لیے نئی مردم شماری کروانا ضروری ہے اور پھر اس پر عمل نہ کرنے سے تنازع پیدا ہوا کہ الیکشن 90 دن میں ہو گا یا 4 ماہ میں ہو ں گے۔احسن اقبال کے مطابق ’جب اپریل 2022 میں ہماری حکومت آئی تو ہم نے مردم شماری کا عمل شروع کیا جس کے بعد نئی مردم شماری اگست 2023 میں نوٹیفائی ہوئی تو الیکشن کمیشن نے آئین و قانون کے تحت حلقہ بندیاں کیں۔ اگر ایسا نہ کرتا تو ون مین ون ووٹ کا اصول پامال ہوتا۔ کچھ اضلاع کی نمائندگی زیادہ ہوتی اور کچھ کی کم۔انتخابات کے اعلان کا مطالبہ تو سیاسی جماعتوں کی جانب سے بارہا کیا جاتا رہا ہے تاہم بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے ماہ کا اعلان کرنے کو پھر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔سابق وفاقی وزیر قانون اورتحریک انصاف کے دور حکومت میں عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے الزام عائد کیا کہ الیکشن کمیشن آئین کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ توہین عدالت کا مرتکب بھی ہوا ہے۔سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی عدالت میں الیکشن کمیشن نے یقین دہانی کروائی تھی کہ انھیں انتخابات کروانے کے لیے 4 ماہ کا وقت درکار ہے تاکہ انتخابات کی تیاری کی جا سکے۔ تو اب ایک طرف غداری ہے تو دوسری طرف الیکشن کمیشن توہین عدالت کا مرتکب بھی ہوا ہے۔بابر اعوان نے دعویٰ کیا کہ ’قومی اسمبلی کیونکہ اپنے وقت سے پہلے تحلیل کی گئی تو آئین کے مطابق صدر نے اپنے اختیارات کے تحت نومبر میں انتخابات کا اعلان کیا۔ الیکشن کمیشن نے جنوری میں انتخابات کا اعلان کیا ہے، یہ ماروائے آئین ہے اور اس پر آرٹیکل 6لگ سکتا ہے۔ یہ بہت سنگین قدم ہے کہ آئین کو اپنی طرف سے اس طرح توڑ مروڑ دیا جائے۔بابر اعوان کے مطابق ’آئین میں صدر کے اختیارات بھی واضح ہیں جس کے لیے آرٹیکل 90 اور 91 دیکھا جا سکتا ہے جس کی الیکشن کمیشن نے بُری طرح نفی کی ہے۔مسلم لیگ ن نے جہاں اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے وہیں پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی نے شیڈول جاری کیے جانے کے بجائے محض الیکشن کے ماہ کے اعلان پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ان کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے ڈیمانڈ کی تھی کہ ہمیں الیکشن کے انعقاد کی بابت بتایا جائے۔ الیکشن کمیشن نے آدھا کام کیا ہے لیکن نہ ہی تاریخ دی اور نہ ہی شیڈول جاری کیا اور یہ دونوں چیزیں ابھی زیر التوا ہیں۔ اب الیکشن کمیشن کو جواب دینا ہو گا کہ یہ آئین کے مطابق بھی ہے کہ نہیں کیونکہ بظاہر یہ آئین کے مطابق نہیں۔پاکستان پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ جو کچھ آئین کے مطابق ہے اس پر عمل کیا جائے۔ الیکشن کمیشن بروقت شیڈول کے اجرا نہ کرنے پر جوابدہ ہے۔ اب کور کمیٹی میں فیصلہ ہو گا کہ آیا ہم عوام میں جاتے ہیں یا کورٹ میں جاتے ہیں۔دوسری جانب تحریک انصاف نے الیکشن جنوری میں ہونے کے اعلان پرالیکشن کمیشن کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کے انعقاد کے اعلان کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ترجمان پی ٹی آئی رؤوف حسن کاکہناہے کہ الیکشن کمیشن کسی مقررہ تاریخ پر انتخابات منعقد کرنا ہے۔ انتخاب کے انعقاد کی تاریخ کے اعلان کی بجائے مہینے کا تقرر باعثِ حیرت ہے آئین الیکشن کمیشن کو اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کی مدتِ مقررہ میں انتخابات کے انعقاد کا پابند بناتا ہے،الیکشن کمیشن جنوری کی کسی بھی تاریخ کا تعیّن کرے وہ آئین کی مدت سے باہر ہوگی۔ 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِسماعت ہے اور عدالت کے حتمی فیصلے تک 90 روز سے باہر کوئی بھی تاریخ قابل قبول نہیں۔ ترجمان پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا  ہے کہ الیکشن کمیشن صاف، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے لیے آئین کے تحت مطلوب ماحول قائم کرنے میں بھی ناکام ہے۔تحریک انصاف کو بدترین ریاستی جبر کا نشانہ بنا کر انتخاب کی دوڑ سے باہر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔اس وقت جب کے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو سزا اور بیشتر قیادت کو مقدمات کا سامنا ہے ایسے میں انتخابات کے لیے ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت انتخابی مہم کیونکر کامیابی سے چلا سکے گی؟سیاسی جماعتوں کی جانب سے تو الیکشن کمیشن کے اعلان پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اس اعلان سے ملک میں سیاسی بے چینی کا خاتمہ ہو سکے گا؟ یہ ضرور ہے کہ کسی حد تک الیکشن کمیشن کے اس اعلان سے سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہو گا تاہم جب تک شیڈول اور تاریخ کا اعلان نہیں ہو گا اس وقت تک یہ سیاسی بے چینی ختم نہیں ہو گی۔سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ سیاسی صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات لڑنے کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ (یکساں مواقع) میسر ہوں گے؟سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کا امکان فی الحال بہت زیادہ نظر نہیں آ رہا تاہم آگے جا کر ہو سکتا ہے کہ یہ امکان بڑھ جائے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کو کسی حد تک انتخابات میں حصہ لینے کا  موقع دینا ہو گااگر کیس نیب کے حوالے سے بنتے ہیں تو اس میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے تاہم جس طرح دہشت گردی کے مقدمات 9مئی کے تناظر میں چیزیں آگے بڑھی ہیں تو اس میں میرٹ پر چیزیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انتخابات لڑنے میں برابری کا موقع تب ہی مل سکتا ہے جب تحریک انصاف کے کیسز کو میرٹ پر سنا جائے۔یہ درست ہے کہ عمران خان کے خلاف سنجیدہ قسم کے کیسز ہیں لیکن ان کی جماعت موجود ہے۔ اگر ان کو انتخابات لڑنے کا موقع دیا جائے گا تو پھر یقینی طور پر معاملات کنٹرول میں رہ سکتے ہیں اور لیول پلیئنگ فیلڈ کے خدشات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ لیکن  ایسا فی الحال ہوتا دکھائی نہیں دے رہا لیکن ایسا ہونا صروری ہے۔تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع دیے بغیر ظاہر ہے کہ انتخابات کا فائدہ اس طرح نہیں ہو گا کیونکہ اس صورت میں بعد میں بھی وہی ہونے کے امکان ہے جیسا کہ 2018 کے انتخابات کے بعد ہوا۔ اگر اس صورتحال سے بچنا ہے تو برابری کے مواقع دینا ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کے بعد اب سیاسی جماعتوں کے ساتھ عوام میں بھی یقیناً یہ شک ختم ہو جائے گا کہ کسی نہ کسی طریقے سے غیر جمہوری سیٹ اپ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔’اچھی بات یہ ہو گی کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم پر فوکس کریں  اور باقی معاملات کا انحصار اس پر ہو گا کہ نیا سیٹ اپ قائم ہو اور معاملات درست طریقے سے آگے بڑھیں۔ تاہم ان سب میں یہ بہت بھی اہم ہو گا کہ انتخابی عمل کتنا صاف شفاف ہوتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں