پی آئی سی حملہ کیس'لاہورہائیکورٹ کا بے قصور وکلا کیخلاف کارروائی نہ کرنے کا حکم
شیئر کریں
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبرنقوی نے پی آئی سی حملہ کیس میں آئی جی پنجاب پولیس شعیب دستگیر کو بے قصور وکلاء کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ عدالت کاکہنا تھا کہ جس آدمی نے یہ گناہ کیا اس کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پی آئی سی واقعہ پر وکلاء کے خلاف درج مقدمات خارج کرنے کی درخواستوں پر سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس سید مظاہر علی اکبرنقوی نے آئی جی پنجاب پولیس شعیب دستگیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ کے پاس سی سی ٹی وی فوٹیج موجود تھی تو پھر آپ کو وکلاء کے چہروں پر کالا کپڑا ڈالنے کی کیا ضرورت تھی اور کیوں قانون کی پاسداری نہیں کی گئی، چہروں پر نقاب چڑھا کر پیش کرنا نہیں بنتا۔ اس پر آئی جی پنجاب پولیس کا کہنا تھا کہ جن وکلاء کے چہروں پر کالا کپڑا ڈالا گیا وہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں موجود نہیں تھے ۔ شعیب دستگیر کا کہنا تھا کہ ہم قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں اور تفتیش کے پیرامیٹرز پورے کر رہے ہیں۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبرنقوی کا کہنا تھا کہ بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ جو لوگ یہاں کھڑے ہیں وہ اس ریلی میں موجود نہیں تھے ، عدالت میں ہمارے سامنے کھڑے وکلاء وہاں جا کر معافی مانگ کر آئے تھے مگر ان کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبرنقوی کا مزید کہنا تھا کہ جو آدمی موقع سے پکڑا گیا اس کی شناخت پریڈ کی کیا ضرورت تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ساڑھے چھ میل کا فاصلہ اس وقت وکلاء کو کیوں نہیں روکا گیا۔ اس پر آئی جی پنجاب پولیس کا کہنا تھا کہ ہم نے وکلاء کو روکا تاہم وکلاء نے کہا کہ ہم کوئی غیر قانونی کام نہیں کریں گے ۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبرنقوی کا کہنا تھا کہ جہاں پر ہارن بجانے کی اجازت نہیں ہے وہاں پر آپ نے وکلاء کو احتجاج کی اجازت کیسے دے دی۔ اس پر آئی جی پنجاب پولیس عدالت میں کوئی جواب نہ دے سکے اور یہ کہا کہ ہم نے صرف وکلاء کو احتجاج کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس پر جسٹس سید مظاہر علی اکبرنقوی نے ہوم سیکرٹری مومن آغا سے کہا کہ بتائیں کتنے افراد جاں بحق ہوئے ۔ اس موقع پر ہوم سیکرٹری نے بتایا کہ تین افراد جاں بحق ہوئے لیکن میڈیا پر 7 بتائے گئے ۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبرنقوی نے کہا کہ بتائیں پنجاب حکومت نے جاں بحق افراد کے لواحقین کی کیا امداد کی۔ اس موقع پرہوم سیکرٹر ی نے کہا کہ فی کس 10،10لاکھر روپے امدادی رقم کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس پر جسٹس سید مظاہر علی اکبرنقوی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کا باپ مرجائے تو کیا آپ ان کو 10لاکھ روپے دے کر آئیں گے ، یہ احسان آپ کو نہیں کرنا چاہئے تھا۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبرنقوی کا کہنا تھا کہ ہم ترقی پذیر ملک میں ہیں لیکن یہاں پر جو ہو رہا ہے یہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ دوران سماعت پاکستا ن بار کونسل کے وائس چیئرمین احسن بھون ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ بعض وکلاء کو گرفتار کر کے وحشیانہ تشدد کیا گیا، وکلاء کے چہروں پر نقاب چڑھا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ریس کورس پارک میں بیٹھے وکلاء کو گرفتار کر کے ان پر تشدد کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ پر عوام الناس سے بھی معافی مانگی ہے ۔ اس پر جسٹس سید مظاہر علی اکبرنقوی کا کہنا تھا کہ جس آدمی نے یہ گناہ کیا اس کو اس کا سامنا کرناپڑے گا۔