خاندانی نظام اور مغرب کی تنہا مائیں
شیئر کریں
ندیم الرشید
اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا، پھر اُس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا اور تمہارا رب (ہر طرح) کی قدرت رکھتا ہے۔ (سورة الفرقان: آیت54)
محترم قارئین!
زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے کی کیاقدرت اور شان ہے کہ ایک ناچیز اور حقیر قطرے کو پہلے تو اشرف المخلوقات بنایا، پھر اُسے اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ اُس کے لیے خاندان، گھرانہ اور کنبہ بھی بنایا، وہ کنبہ جس میں ایک طرف تو اس کے اپنے خون کے جان نثار، رشتے دار ہیں، جبکہ دوسری طرف ”رفیق حیات“ کی نسبت سے بننے والے مونس و غمخوار سسرالی رشتے دار بھی ہیں۔ آیت مبارکہ میں چونکہ باری تعالیٰ نے انسان کو بنانے کے بعد اُس کے خاندان اور سسرال کو بنانے کا ذکر فرمایا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کو دنیا میں تنہا زندگی گزارنے کے لیے پیدا نہیں کیا بلکہ اُسے ایک خاندانی نظام کے ساتھ وابستہ فرمایا ہے۔
اسلامی معاشرے میں خاندان ایک بنیادی ادارے کی حیثیت رکھتا ہے، اسلامی تہذیب کے بنیادی ادارے پانچ ہیں: (1) مسجد (2) مدرسہ (3)بازار (4)بیت المال (5)خاندان۔ جہاں بھی اسلامی تہذیب زندہ ہوگی وہاں یہ پانچ ادارے ضرور ہوں گے، خاندان کا ادارہ ان تمام اداروں کے لیے ”اساس“ کی حیثیت رکھتا ہے ، کیونکہ اگر خاندان مسلمان نہیں ہوگا تو مسجدو مدرسہ کیسے بنے گا؟ خاندان سے معاشرت بنتی ہے، لہٰذا خاندان مسلمان ہوگا تو اسلامی معاشرہ وجود میں آئے گا، اگر اسلامی معاشرہ نہیں ہوگا تو اسلامی ریاست کی کیا ضرورت ہے؟ اگر اسلامی ریاست کی ضرورت نہیں تو بیت المال کہاں سے آئے گا؟ الغرض، خاندانی نظام ہے تو اسلامی تہذیب اپنی عملی شکل میں زندگی کے ہر ہر شعبے میں موجود ہے، اسی طرح اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو خاندانی نظام کے حوالے سے آثارِ قدیمہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر تہذیب کی کھدائی سے تین چیزیں برآمد ہوتی ہیں:
(1)عبادت گاہ: ہر عبادت گاہ سے کچھ مقدس اوراق، صحیفے اور مناجات وغیرہ ملتی ہیں۔
(2)شادی کا ادارہ: یہ کہ عورت اور مرد نکاح کرتے ہیں
(3)تجہیز و تکفین کا طریقہ: اسی طرح پتھروں پر بنے نقوش اور تصاویر سے آخری رسومات کا پتہ چلتا ہے۔
الغرض عبادت گاہ کا قیام ہو، شادی کا نظام ہو یا تجہیز و تکفین کا عمل، یہ تمام امور خاندان کے بغیر نہیں چل سکتے۔ اس سے معلوم ہوا قدیم تہذیبیں بھی تاریخ کو اپنا تعارف کروانے کے لیے خاندانی نظام کا سہارا لیتی تھیں، اسلام خاندانی نظام پر بہت زور دیتا ہے، حتیٰ کہ ایک حدیث شریف میں تو تمام مخلوقات کو اللہ کا کنبہ کہا گیا ہے، خاندان کی نمائندگی کرنے والے 6 بنیادی رشتوں یعنی ماں، باپ، بہن، بھائی اور بیٹا بیٹی کے الفاظ کو قرآنِ مقدس میں 171 مرتبہ ذکر کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ جب آپ پر درود بھیجیں تو آپ کے اہل خانہ اور اصحاب پر بھی درود بھیجا جائے، سورة الرعد میں مالک الملک ارشاد فرماتے ہیں: اے محمد ہم نے تم سے پہلے بھی پیغمبر بھیجے تھے اور اُن کو بیویاں اور اولاد دی تھی“(آیت38) اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ سے پہلے کے انبیاءکا ذکر فرمایا ہے لیکن اُن کے ذکر کو اُن کے خاندان اور اہل خانہ کے ذکر کے ساتھ مکمل فرمایا ہے ۔اس سے اسلام میں خاندانی نظام کی اہمیت مزید واضح ہوجاتی ہے، اس کے علاوہ قرآن پاک کی متعدد آیات اور ذخیرہ احادیث میں کتنی احادیث مبارکہ ایسی ہیں جن میں والدین کے ادب و احترام، رشتے داروں سے حسن سلوک اور صلہ رحمی وغیرہ کا درس دیا گیا ہے ۔یہ تمام چیزیں دراصل خاندانی نظام کو باقی رکھنے کے لیے ہیں اور اس حوالے سے بنیادی اور اساسی اہمیت کی حامل ہیں۔
محترم قارئین!
ہر انسان کے پیٹ پر ایک نشان ہوتا ہے، یہ نشان کیا ہے؟ یہ نشانِ پیدائش یعنی (Birth Mark) ہے، یہ انسان کو یاد دلاتا ہے کہ وہ پیدا ہوا ہے، پیٹ میں رہا ہے، وہاں اس نے خوراک لی ہے، تنہا انسان کچھ نہیں ہے، انسان حقیقتاً ایک اجتماعیت کا حصہ ہے، ماں باپ کی اجتماعیت جس نے اُسے وجود بخشا ہے، فلسفے کی زبان میں یہ وحدت بھی ہے اور کثرت بھی، خاندان علامت وحدت ہے،تینوں کو جوڑتا ہے، تینوں کو تشخص عطا کرتا ہے، خاندان کی اس وحدت کے بغیر افراد کی کثرت ممکن نہیں۔اس لیے اسلامی تہذیب میں کوئی بھی شخص اپنی شناخت کا خود واحد ذریعہ نہیں ہے، بلکہ وہ مختلف وسیلوں سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ کسی کا بیٹا، بھتیجا، پوتا، نواسا، بھانجا، شوہر، داماد وغیرہ ہے۔ اس لیے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ سب کچھ میری اپنی ذات ہے بلکہ اُس کی ذات کے مختلف حوالے ہیں۔ اسی طرح کوئی عورت اکیلی نہیں وہ کسی کی ماں، کسی کی بہن، کسی کی بیٹی، کسی کی بہو یا ساس ہے ۔اُس کا کوئی رشتہ ہے جو اُسے تقدس عطا کرتا ہے، احترام دیتا ہے، اُس کی کفالت کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ عزت ہمیشہ رشتے سے ہوتی ہے جس کا کوئی رشتہ نہیں اُس کی کوئی عزت نہیں۔ کیونکہ دنیا جو قائم ہے وہ پیغمبر کی سنت نکاح سے قائم ہے۔ آج دنیا میں جو اقوام پیغمبروں کی تعلیمات کو چھوڑ کر اپنی عقل کے مطابق زندگی گزار رہی ہیں، وہاں خاندانی نظام ہی ختم نہیں ہوچکا بلکہ اُن کے اپنے وجود کو بھی خطرات لاحق ہوچکے ہیں، امریکی ادارے Rational Centre on Family Homelessness میساچوسٹس کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں 1.6 ملین بچے سڑکوں پر یاپناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں، ان بچوں کے سربراہ مرد نہیں عورتیں ہیں، یہاں ہزاروں بچے اپنی ماﺅں کے ساتھ گاڑی میں، پرانی عمارتوں میں، خراب بسوں میں، پلوں کے نیچے اور سڑکوں پر سوتے نظر آتے ہیں کیونکہ ان بچوں کا کوئی خاندانی حوالہ نہیں ہے۔ نہ یہ کسی کے بھتیجے ہیں نہ بھانجے، نہ پوتے نہ نواسے، کیونکہ ان کی ماں کسی کی بیوی نہیں تھی اُس کا ایک بوائے فرینڈ تھا جو اب اسے چھوڑ کر جاچکا ہے لہٰذا اب یہ تنہا ماں یعنی (Single Mom) ہے۔
پیور ریسرچ سینٹر کے مطابق امریکا میں بالغوں کا محض 15 فیصد شادی شدہ ہے یہاں 42 فیصد تنہا مائیں ہیں جو انتہائی کسمپرسی کے عالم میں سانس کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے امدادی غذاﺅں اور دواﺅں کی منتظر ہیں۔ آبادی جو بغیر شادی کے زندگی گزار رہی ہے، وہ بوڑھے ہورہے ہیں لیکن نئی نسل پیدا نہیں ہوپارہی، خاندان جو معاشرے کی اکائی ہے ،اگر وہ ہی نہ رہے تو افراد اور تہذیبیں ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”ہم نے انسان کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا، لہٰذا جب کوئی قوم خدا کی نافرمانی کرتی ہے تو عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پہلے وہاں خاندانی نظام ختم ہوجائے پھر آہستہ آہستہ وہ نسل ہی دنیا سے معدوم ہوجائے۔