میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ازدواجی زندگی ۔۔راحت و سکون کا بے مثل تعلق

ازدواجی زندگی ۔۔راحت و سکون کا بے مثل تعلق

منتظم
جمعرات, ۲۲ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

شریعت ہمیشہ انسان کے لیے آسانی چاہتی ہے اس لیے کہا گیا کہ نکاح کرو تا کہ تمہیں اپنے آپ کو پاک باز رکھنا آسان ہوجائے
حضرت عمرؓ کے مطابق جب قرآن نے کہا ہے کہ ”نکاح میں برکت ہے“پھر اس آیت کو پڑھ کر بھی کوئی نکاح نہ کرے تو تعجب ہوتا ہے
زینب علی خان
ازدواجی زندگی کے عنوان پر بات کرنے سے قبل اس پس منظر کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اسلام سے پہلے کی دنیا کی مختلف تہذیبوں اور مختلف معاشروں میں عورت کی کیا حیثیت تھی؟ تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اسلام سے پہلے عورت محض ذلت و رسوائی کی چکی میں پس رہی تھی۔ فرانسیسی تہذیب عورت کو تمام برائیوں کا ذمہ دار ٹھہراتی، چین کی کہاوتوں میں عورت شیطانی روح کا تصور رکھتی، جاپانی عورت کو ناپاک وجود مانتے۔ ہندووں میں عورت کا خاوند مر جاتا تو اسے بھی اس کے ساتھ جلا ڈالتے۔ عیسائیوں میں عورتوں کو تعلیم دی جاتی کہ وہ کنواری (Nuns)رہ کر زندگی گزاریں جبکہ مرد راہب بن کر رہنا اعزاز سمجھتے۔ الغرض دنیا میں اسلام سے پہلے ایک بھر پور ازدواجی زندگی کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔مگر نبی علیہ الصلوة و السلام نے جب دنیا میں قدم رنجہ فرمایاتوانہوں نے عورت کے مقام کو نکھارا اور بتایا کہ اگر یہ بہن ہے تو تمہارا ناموس، بیٹی ہے تو عزت و رحمت، ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت اور بیوی ہے تو اس کے لیے ”زوجہ“ کا لفظ استعمال کرکے اسے عمر بھر کا ساتھی قرار دے دیا۔
نبی علیہ السلام نے عورت کی کھوئی ہوئی عزت لوٹا کر یہ بتلایا کہ لا َرَھبَانِیَّةَ فَی ا لاِسلاَمِ (اسلام میں رہبانیت نہیں ہے) بلکہ دو ٹوک الفاظ میں واضح کردیا کہ اگر عورت کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارو گے تو یہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے رستے میں تمہاری مددگار و معاون ثابت ہوگی۔
اسی طرح نبی ﷺ نے فرمایا۔
”نکاح میری سنت ہے۔ جو میری سنت سے اعراض کرے گا وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔“
لہذا یہ حدیث فرما کر آپ ﷺنے نکاح کو مقدم ٹھہرا دیا۔ اسی طرح ترمذی شریف کی ایک روایت میں آتا ہے کہ انبیاءعلیہم السلام کی چار سنتیں ہیں جن میں سے ایک نکاح ہے اور نہ صرف یہ کہ نکاح انبیاءکی سنت ہے بلکہ انبیاءعلیہم السلام کو نکاح کرنے کا شوق بھی ہوا کرتا تھا۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سو بیویاں تھیں اور بعض روایات بارہ سو اور چودہ سو تک بھی گئی ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
وَلَقَد اَرسَلنَا ر±س±لاًمِّن قَبلِکَ وَ جَعَلنَا لَھ±م اَزوَاجا ً وَّ ذ±رِّیَّةِ
”اے میرے محبوب ﷺ ہم نے آپ سے پہلے کتنے ہی انبیاءبھیجے اور ہم نے ان کے لیے بیویاں اور اولادیں بنائیں۔“
خود نبی علیہ السلام نے بھی گیارہ نکاح فرمائے اور بعض روایات کے مطابق آپﷺنے اپنی باندیوں سے بھی نکاح فرمایا تھا اور بہترین ازدواجی زندگی بسر فرمائی کہ جس کا کوئی مثل ِ عالم نہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سب انبیاءکرام علیہم السلام دین کی دعوت کا فریضہ انجام دینے آئے تھے مگر ان کے اس کام کے سلسلے میں کبھی بھی انکی بیوی یا اولاد راہ کی رکاوٹ نہ بن سکی۔ گویا اس بات کو پختہ کردیا کہ ازدواجی زندگی سے فرار درحقیقت معاشرتی حقوق کی ادائیگی سے فرار ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ نکاح تو آدھا ایمان ہے۔ ایک کنوارہ آدمی خواہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو جائے لیکن وہ ایمان کے کامل رتبے کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ازدواجی زندگی میں داخل ہو کر اپنے حقوق و فرائض کو ادا نہ کرلے۔ اس لیے جس لڑکے یا لڑکی کی شادی نہ ہو اور وہ جوان العمر ہوگئے ہوں تو ان کو حدیث میں ”مسکین“ یا ”مسکینہ“ کہا گیا ہے۔ گویا وہ لوگ قابل رحم ہیں جو عمر کے اس حصے میں بھی جا کر ازدواجی زندگی گزارنے سے محروم ہوں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مجھے پانچ وصیتیں فرمائیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ جب بیٹی یا بیٹے کے لیے کوئی مناسب رشتہ مل جائے تو اس کے نکاح میں جلدی کرو۔ اس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے ”نکاح میں برکت ہے“ اور اس آیت کو پڑھ کر بھی اگر کوئی نکاح نہ کرے تو مجھے اس پر تعجب ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب تنگدستی محسوس ہوتی تو آپ رضی اللہ عنہ نکاح فرماتے یا کثرتِ اولاد پیدا فرماتے۔
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ جہاں نکاح نہ ہوگا وہاں زنا عام ہوگا۔ اس لیے شریعت نے نکاح کی اہمیت کو واضح کیا ہے ۔
آج جس معاشرے میں نکاح سے فرار اختیار کرتے ہیں یعنی نکاح کرنے سے کتراتے ہیں، آپ دیکھیے کہ وہاں جنسی تسکین کےلیے فحاشی کے اڈے کھلے ہوئے ہیں۔ شرع شریف نے اس بات کو ناپسند کیا کہ انسان گناہوں بھری زندگی گزارے۔ شریعت ہمیشہ انسان کے لیے آسانی چاہتی ہے اس لیے کہا گیا کہ تم نکاح کرو تا کہ تمہیں اپنے آپ کو پاک باز رکھنا آسان ہوجائے۔ اگر نکاح کا حکم نہ دیا ہوتا تو مرد عورت کو فقط ایک کھلونا سمجھ بیٹھتا۔ عورت اپنے لیے کوئی مقام نہ رکھتی اور نہ اسکی کوئی ذمہ داری اٹھانے والا ہوتا۔ شریعت نے عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے مرد کو حکم دیا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اکھٹے رہو تو تمہیں اسکی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑیگا۔
اسی طرح نبی ﷺنے نکاح کی تشہیر کا حکم دیا ہے کہ نکاح جمعہ کے دن کرو یا کسی بڑے مجمع میں اور لوگوں کو بتاو¿ نکاح کا تاکہ انہیں علم ہو جائے کہ اب سے یہ لڑکا اور لڑکی اپنے نئے گھر کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
یہ رشتہ اتنا بابرکت ہے کہ اللہ نے شادی شدہ کے لیے اجر و ثواب دگنا کردیا۔ علماءفرماتے ہیں کہ ایک شادی شدہ کو ایک نماز ادا کرنے پر اللہ تعالیٰ اکیس نمازوں کا ثواب عطافرماتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جسے اچھا جیون ساتھی مل جائے یقینا وہ کرہ ارض پر خوش نصیب انسان ہے اور اچھا اور بہترین ساتھی وہی ہوگا جو دین پر کامل ہو۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ ”عورت کی دینداری اور نیکی کی وجہ سے اس سے نکاح کیا کرو کہ میں تمہیں اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے لیے دین کی بنیاد پر رشتوں کی بنیاد رکھو۔ “اس طرح عورت کے لیے بھی یہی ہے کہ وہ مرد کی مال و دولت دیکھ کر شادی نہ کرے بلکہ دینداری اور تقویٰ کی بنیاد پر رشتہ استوار کرے۔
مسلم شریف کی حدیث میں آتا ہے کہ ”دنیا ایک متاع ہے اور اس دنیا کی سب سے قیمتی متاع نیک بیوی ہے۔“ گویا اللہ تعالیٰ نے جسے نیک بیوی عطا کردی تو وہ سمجھے کہ اسے دنیا کی بہت بڑی نعمت مل گئی۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ”بہترین عورت وہ ہے جو نہ خود کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اس کی طرف دیکھے۔“
اہل اللہ نے لکھا کہ اچھی بیوی میں چار صفات لازمی ہونی چاہئیں۔ پہلی صفت یہ کہ چہرے پر حیا کا نور ہو، یہ بات بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ جسکے چہرے پر حیا ہوگی اس کا دل بھی حیا کے آبگینے سے لبریز ہوگا۔ مثلِ مشہور ہے کہ چہرہ انسان کے دل کا آیئنہ ہوتا ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ "مردوں میں بھی حیا بہتر ہے مگر عورتوں میں بہترین ہے” ۔
دوسری صفت فرمائی جسکی زبان میں شیرنی ہو، تیسری صفت یہ بتائی کہ جسکے دل میں نیکی ہو، اور چوتھی صفت یہ بتائی کہ اسکے ہاتھ کام کاج میں مصروف رہیں۔ یہ خوبیاں جس عورت میں ہوں گویا وہ بہترین بیوی کی حیثیت سے زندگی گزار سکتی ہے۔
اسی طرح مرد کے اندر بھی یہ صفات ہونی چاہئیں کہ سربراہ ہونے کی حیثیت سے وہ پورے گھرانے کو منظم طریقے سے لے کر چلے۔ معمولی باتوں پر تنقید کی بجائے اصلاح کا پہلو ڈھونڈے، تعریفی کلمات ادا کرے، عورت کے اچھے فعل پر اس کی حوصلہ افزائی کرے کہ عورت تو چند میٹھے کلمات کی پیاسی ہوتی ہے۔ مرد کی زبان سے ادا ہوئے چند شیریں الفاظ عورت کے تن من کو سیراب کردیتے ہیں۔
لہذا مرد کو چاہیے کہ تحمل اور بردباری سے کام لے۔ عفو و درگزر کرنا سیکھے اور اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرے۔
اگر مرد چاہتے ہیں کہ بیوی ہماری خدمت گزار بن کر رہے تو مرد کو بھی بیوی کی ضروریات پوری کرنی چاہیے۔ یہ Equationتب ہی Balanceہوگی جب مرد اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے اور عورت اپنی ،کیونکہ یہ محاورہ مشہور ہے ”تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔“
قرآن پاک میں میاں بیوی کے لیے جو تصور پیش کیا ہے وہ آج تک کوئی معاشرہ قائم نہیں کرپایا کہ قرآن نے میاں بیوی بارے میں کہا:
ھُنَّ لِبَاسµ لَکُم وَاَنتُم لِبَاسµ لَھُنَّ
وہ تمہارا لباس ہے اور تم اسکا لباس۔
کیوں اللہ نے لباس سے تشبیہ دی میاں بیوی کو…. کیونکہ لباس انسان کی زینت ہوتا ہے گویا زوجین ایک دوسرے کی زینت ہیں۔ لباس خامیاں ڈھانپنے کے لیے ہوتا ہے،گویا زوجین ایک دوسرے کی تمام خامیوں کو چھپا دیتے ہیں۔ لباس جسم سے لگا ہوا ہوتا ہے گویا زوجین ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں۔ بھلا اب بتاو¿ کیا قرب کا اس سے بہتر اور کوئی طریقہ ہو سکتا ہے؟ اللہ اکبر کبیراً۔
ازدواجی زندگی کے بارے میں ہمارا تجزیہ یہ ہی ہے کہ آج بھی ہمارا مشرقی معاشرہ الحمد اللہ بہت پرسکون ہے کہ سو میں سے کم از کم ننانوے لڑکیاں جب اپنے والدین کے گھر سے رخصت ہوتی ہیں تو انکے دلوں میں گھر بسانے کی نیت ہوتی ہے۔ اور یہ اعزاز صرف مشرقی عورت کو ہی حاصل ہے کہ دل میں عہد کرتی ہیں گھر بسانے کا ،آگے معاملہ شوہر کا کہ اس نے اچھی طرح handle کیا تو گھر آباد اور miss handle کیا تو گھربرباد۔
بعض مشرقی عورتیں تو اس قدر پاکدامن ہوتی ہیں کہ ان میں حوروں کی صفات چھلکتی ہیں جیسے قرآن میں فرمایا گیا ع±ر±باً یعنی خاوند کی عاشق، قَاصِرَات± الطَرفِ یعنی غیر مردوں کی طرف مائل نہ ہونے والی۔۔ یہ اسلام کی برکت ہی ہے کہ آج بھی مشرق میں ایسی معصوم جوانیاں موجود ہیں جو اپنے گھر سے جب قدم باہر نکالتی ہیں تو انکے دلوں میں کوئی نامحرم کا دخل نہیں ہوتا۔
بہت سی عورتیں محض اولاد کی تربیت کی خاطر شوہر کی وفات کے بعد بھی دوبارہ نیاگھر نہیں بساتیں، ایسی عورتوں کو اللہ نے جہاد کے برابر ثواب عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے۔
چمن کا رنگ گو تو نے سراسر اے خزاں بدلا
نہ ہم نے شاخ گل چھوڑی نہ ہم نے آشیاں بدلا
ازدواجی زندگی کے بارے میں ایک بات ذہن میں رکھیں کہ جہا ں محبت پتلی ہوگی وہاں عیب موٹے نظر آیئنگے لہذا وہاں چھوٹی چھوٹی باتوں کا بتنگڑ بنے گا، اس لیے شریعت نے حکم دیا کہ تم آپس میں محبت سے رہو۔
انسان کو تحمل اور بردباری کے ساتھ گھر کے معاملات نبھانے چاھیےں۔ بعض اوقات جھگڑے کسی تیسرے کی وجہ سے ہوتے ہیں، ایسی صورت میں انسان کو چاہیے کہ عفو و درگزر سے کام لے اورخاموش ہوجائے۔۔ حدیث میں آتا ہے کہ اگر کوئی عورت خاوند کے غصے کے وقت خاموشی اختیار کرلے تو اسے بھی صبرِِایوب علیہ السلام کا درجہ اللہ تعالیٰ عطا فرمایئنگے۔
میاں بیوی کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے خلاف منفی سوچوں سے بچیں۔ جیسے کہ ایک شاخ پر پھول بھی ہیں اور کانٹے بھی اب جو جسے دیکھنا چاہے گا اسے وہی نظر آئے گا بالکل اسی طرح میاں بیوی چاہیں تو ایک دوسرے کی خامیوں کو نظرانداز کر کے خوبیوں کو دیکھیں۔
جب ایک دوسرے کی طرف دیکھیں تو مسکرا کر دیکھیں کہ یہ بھی سنت ہے اور اس سے دلوں کی کدورتیں دور ہوتی ہیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام شادی سے پہلے محبت کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلامmarriage after love کا قائل ہے کیونکہ” لو میرج “کو بنیاد بنائیں گے تو یہ بنیاد ہی کمزور ہوگی اور ہمارا حشر بھی مغربی ممالک کی طرح ہوجائے گا۔
اسلام میں ایسے بیشمار واقعات بھرے پڑے ہیں جو میاں بیوی کی مثالی محبت کی داستان رقم کئے ہوئے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ نبی کی ہی زندگی کی مثال لے لیں کہ آپ ﷺاپنی زوجات کے ساتھ کیسے رہتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب پانی پیتی تو آپ بھی اسی برتن سے اسی جگہ سے پانی پیتے، ازواجِ مطہرات میں سے کسی کو سواری پر چڑھانا یا اتارنا ہوتا تو آپ ﷺگھٹنوں کے بل بیٹھ جایا کرتے۔ ایسے لا تعداد واقعات ہیں جو ہمیں آپ اور صحابی رضوان اللہ اجمعین کی زندگی سے ملتے ہیں۔
ہمیں بھی چاھیے کہ ہم ان مثالوں سے سبق حاصل کریں۔ اپنی زندگیوں کو اسلام کا تابع بنائیں۔ صحابہ کی زندگی سے فیض حاصل کریں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں