میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قاضی فائرعیسیٰ کیس ریفرنس ٹھیک نہیں بناتوحکومت کااحتساب ہوسکتاہے سپریم کورٹ

قاضی فائرعیسیٰ کیس ریفرنس ٹھیک نہیں بناتوحکومت کااحتساب ہوسکتاہے سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
منگل, ۱۶ جون ۲۰۲۰

شیئر کریں

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ اگرعدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ ریفرنس ٹھیک نہیں بنا تو ہوسکتا ہے حکومت کا احتساب ہو۔ اس پروفاقی حکومت کے وکیل فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ بالکل وزیر قانون، وزیر اعظم ، صدر مملکت سب قابل احتساب ہیں۔جائیدادیں جج کی اہلیہ کی ہیں اورلگتا ہے کٹہرے میں حکومت کھڑی ہے۔ پیر کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کا آغازکیا تو درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے تحریری جواب پیش کیا توعدالت نے انہیں جواب جمع کرانے کی اجازت دے دی ۔ جس کے بعد حکومتی وکیل فروغ نسیم نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ آج عدالت کے سامنے فاضل جج کے مس کنڈکٹ پر دلائل دوں گا،جج کا مس کنڈکٹ کسی قانون کی خلاف ورزی تک محدودہے ،اہلیہ معزز جج کے خاندان کا حصہ ہے، معزز جج اور اہلیہ دونوں نے لندن کی جائیدادیں ظاہر نہیں کیں،آرٹیکل 63 میں اہلیہ کے زیر کفالت کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں رکھی گئی،برطانیہ میں اہلیہ کی جانب سے بار کو خط لکھنے پر جج کے خلاف کارروائی ہوئی اورپاکستان کا آئین غیر جانبدار ہے، جس کاآرٹیکل 209 میں اہلیہ کو زیر کفالت یا خود کفیل رکھنا بلا جواز ہے،کسی کا اپنے یا اہلیہ کے نام جائیداد ظاہر نہ کرنا قابل سزا جرم ہے۔آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت جائیدادیں ظاہر نہ کرنے والا رکن اسمبلی اپنی رکنیت سے محروم ہوجاتا ہے اور جج بھی سروس آف پاکستان میں آتا ہے اس پر جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھایا کہ فروغ نسیم صاحب کیا آپکا یہی مقدمہ ہے؟ جو دلائل آپ دے رہے ہیں یہ آپکا مقدمہ نہیں ہے،جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ آپکی دلیل یہ تھی کہ ہمارا مقدمہ شوکاز نوٹس جاری ہونے کا ہے۔ آپکا نقطہ یہ تھا مواد کونسل کے سامنے آنے کے بعد باقی چیزوں کی اہمیت نہیں رہی۔ فروغ نسیم نے کہاکہ افتخار چوہدری کیس کا اطلاق موجودہ مقدمے پر نہیں ہوتا۔جوڈیشل کونسل کے شوکاز نوٹس کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا،الیکشن کمیشن کے پاس آنیوالے مواد پر از خود کارروائی کا اختیار ہے۔ الیکشن کمیشن نقائص پر مبنی درخواست پر کاروائی کر سکتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ فروغ نسیم یہ بتائیں کونسل کے سامنے جج کیخلاف آمدن سے زائد ذرائع کا مواد کیا تھا۔ فروغ نسیم کا کہناتھاکہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے 2008،2009 میں بطور وکیل اپنی آمدن ظاہر کی ۔جسٹس مقبول کا کہنا تھا کہ کسی فورم پر یہ ثابت کریں کہ اہلیہ کو جائیداد خریدنے کیلئے جج نے پیسے دیئے۔فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ میں آپ کا بہت احترام کرتا ہوں 15 سال کا ہمارا عزت و احترام کا رشتہ ہے۔جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ یہ احترام کا رشتہ برقرار رہے گا سب چاہتے ہیں کیس کا جلد فیصلہ ہو۔فروغ نسیم نے کہاکہ فاضل جج نے وضاحت کیسی دینی ہے کہ پراپرٹیز کیسے خریدی گئی ؟آج کے دن تک اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ اہلیہ زیر کفالت ہو،یہ بھی ممکن ہے کہ اہلیہ کو اپنے والدین سے کچھ جائیدادیں ملیں کیا وہ بتانا بھی خاوند کی ذمہ داری ہے؟جسٹس مقبول باقر نے کہاکہ کسی عمارت کی بنیاد غلط ہو تو غلط ڈھانچے پر عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی، فروغ نسیم نے کہاکہ اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زائد ہیں،جسٹس منصورشاہ نے سوال کیاکہ اگر اہلیہ کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں تو اس کا تعین کس فورم پر ہوگا؟فروغ نسیم نے کہا کہ سروس آف پاکستان کے تحت یہ جواب خاوند نے دینا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں