عام انتخابات 2018‘ فضل اللہ پیچوہو کو چیف سیکریٹری سندھ بنانے کی منصوبہ بندی
شیئر کریں
زرداری کے بہنوئی کو گریڈ 21 میں ترقی نہیں دی گئی، ان کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں، عوامی حلقوں اور ساتھی افسران نے وفاق کو رپورٹیں دیں کہ ان کی ساکھ اچھی نہیں
پی پی کی اعلیٰ ترین قیادت کی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح پیچوہو کو چیف سیکریٹری لگوا دیں تاکہ الیکشن سے قبل من پسند بیورو کریسی بھی تعینات کی جاسکے
الیاس احمد
سکھر سے تعلق رکھنے والے ایک مسجد کے مو¿ذن کے بیٹے فضل اللہ پیچوہو کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ وہ ایک دن بیورو کریٹ بن کرشاہی زندگی گزاریں گے۔ فضل اللہ پیچوہو کی آصف علی زرداری کی بہن ڈاکٹر عذرا سے شادی ہوئی، پھر 2008ءمیں جب مرکز اور سندھ میں پی پی نے حکومت بنائی تو فضل اللہ پیچو ہو کی عید ہوگئی۔ فضل اللہ پیچوہو پہلے محکمہ خزانہ اور بعدازاں محکمہ تعلیم اور اب محکمہ صحت میں اپنی بادشاہت قائم کر بیٹھے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے سال جب میر ہزار خان بجارانی کو صوبائی وزیر تعلیم بنایا گیا تو انہوں نے وزیر تعلیم بننے سے قطعی انکار کر دیا اور پھر چھ ماہ تک وہ گھر بیٹھے رہے اور بغیر کسی محکمے کے وزیر بنے رہے۔ پھر حکومت سندھ کو رحم آیا اور میر ہزار خان بجارانی کو صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات بنا دیا گیا۔ فضل اللہ پیچوہو جب بھی سیکریٹری رہے ہیں، انہوں نے اپنے محکمے کے وزیر کوبھی لفٹ نہیں کرائی یہی وجہ ہے کہ جب وہ سیکریٹری بنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ خود وزیرہیں اور صوبائی وزیران کے ماتحت ہیں ۔حال ہی میں صوبائی وزیر صحت نے ایک ہا ؤس جاب ڈاکٹر کو صوبے کے کسی دوسرے اسپتال کے بجائے سول اسپتال کراچی میں ہا ؤس جاب کرنے کے لیے ایک نوٹ صوبائی سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو کو بھیج دیا۔ اصولی طور پر اگر فضل اللہ پیچوہو کو مخالفت کرنی ہوتی تو وہ ”نوٹ فارمنسٹر“ بنا کر صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو کو بھیجتے اور اس میں قانونی پوزیشن لکھ کر بھیجتے اور اس پر وزیر صحت جو حکم تحریر کرتے اس پر عمل کرتے مگر فضل اللہ پیچو ہو نے اس آرڈر پر ”ریجیکٹیڈ“ لکھ کر
متعلقہ سیکشن افسر کو بھیج دیا کہ وہ صوبائی وزیر صحت کو ایک لیٹر ارسال کردیں کہ سیکریٹری صحت نے یہ کیس مسترد کر دیا ہے۔ بیچارہ وزیر بھلا کیا کرسکتا ، وہ خاموش ہوگیا۔ اس طرح ان کی داستانیں محکمہ تعلیم اور محکمہ خزانہ میں بھی زبان زدعام ہیں ۔ اب انہوں نے وہی بادشاہت محکمہ صحت میں قائم کر دی ہے۔
فضل اللہ پیچو ہو گریڈ 20 میں ہیں، ان کے ساتھی افسر گریڈ 21 میں سینئر پوزیشن پر ہیں جبکہ وہ بھی چیف سیکریٹری یا آئی جی گریڈ میں آچکے ہیں مگر وزیراعظم نواز شریف نے پروموشن کے لیے جو پالیسی بنائی ہے اس کے تحت جن افسران کی ساکھ اچھی نہیں ہوگی ان کو اگلے گریڈ میں ترقی نہیں ملے گی اور اس کی پہلی مثال سابق پرنسپل سیکریٹری برائے وزیراعظم ہا ؤس کے ڈی ایم جی افسرسعید مہدی کے بیٹے کا پروموشن مسترد کرنا ہے۔ جس کے بعد تو سب کی زبانیں بند ہوگئیں کیوں کہ سعید مہدی تو وزیراعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی ہیں اور انہوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ پھر کیا ہوا، وزیراعظم نے ملک بھر کے سینکڑوں افسران کے پروموشن مسترد کر دیے گئے ،حتیٰ کہ آصف اعجاز شیخ کو ڈی آئی جی کے عہدے پر ترقی دے کر پھر ترقی واپس لے لی گئی اور انہیں ایس ایس پی گریڈ میں بھیج دیا۔ فضل اللہ پیچو ہو کو بھی گریڈ 21 میں ترقی نہیں دی گئی ان کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں، عوامی حلقوں اور ساتھی افسران نے رپورٹیں دی ہیں کہ ان کی ساکھ اچھی نہیں ہے۔ وزیراعظم نے ان کا پروموشن مسترد کر دیا اور ان کو گریڈ 20 میں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے جس پر فضل اللہ پیچو ہو وفاقی حکومت کے اس اقدام کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں چلے گئے ہیں اور تاحال سندھ ہائی کورٹ نے انہیں پروموشن دینے یا نہ دینے کے بارے میں کوئی حکم جاری نہیں کیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ فضل اللہ پیچوہو نے اپنے برادر نسبتی آصف زرداری سے کہا ہے کہ وہ وزیراعظم پر دبا ؤ ڈالیں کہ انہیں گریڈ21 میں ترقی دیں۔ آصف علی زرداری کی بھی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح اپنے بہنوئی کو گریڈ 21 میں ترقی دلا کر چیف سیکریٹری سندھ لگوا دیں تاکہ عام انتخابات سے قبل وہی چیف سیکریٹری ہوں اور پی پی الیکشن لڑنے کے لیے جب میدان میں اترے تو اس کے لیے آسانی پیدا ہو اور پھر من پسند بیورو کریسی تعینات بھی کی جائے۔ آصف زرداری کی ہدایت پر سندھ سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ جنرل ، پراسیکیوٹر جنرل اور سرکاری وکلاءکو حکومت سندھ نے واضح ہدایات دی ہیں کہ وہ اس کیس میں فضل اللہ پیچو ہو کی بھر پور حمایت کریں اور اپنا مو¿قف پیش کریں کہ فضل اللہ پیچو ہو کو ہر صورت میں پروموشن دیا جائے لیکن چونکہ معاملہ وفاقی حکومت کا ہے اس لیے اٹارنی جنرل جو بھی مو¿قف اختیار کریں گے وہی مو¿قف وفاقی حکومت کا ہوگا اور اسی بنا پر سندھ ہائی کورٹ میں کیس آگے بڑھے گا۔ فی الحال آصف زرداری اس لیے آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کے تبادلے کے لیے لڑائی لڑ رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت ضد کرے گی اور پھر وفاقی حکومت سے وہ کہیں گے چلو آئی جی تبدیل نہ کریں مگر میرے بہنوئی فضل اللہ پیچوہو کو اگلے گریڈ میں ترقی دے کر چیف سیکریٹری بنا دیں ورنہ وہ بھی تحریک انصاف کے ساتھ یا پھر ان سے الگ ہو کر احتجاجی تحریک چلائیں گے۔ یوں وہ سودے بازی کے موڈ میں ہیں اور کھل کر آئی جی سندھ کے تبادلے نہ ہونے سے وفاقی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں۔ پہلے میڈیا گروپس کو انٹرویو میں کہا کہ اے ڈی خواجہ کا اس لیے تبادلہ چاہتے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت عام انتخابات میں ان کے ذریعہ دھاندلی کرے گی۔ حالانکہ خود ان کو پتہ ہے کہ اے ڈی خواجہ ایسے افسر نہیں ہیں اور پھر پی پی کا عام کارکن بھی جانتا ہے کہ اے ڈی خواجہ اچھی ساکھ رکھنے والے افسر ہیں۔ کسی کو یہ پتہ نہیں کہ آصف زرداری کا اصل ٹارگٹ اے ڈی خواجہ کو ہٹانا نہیں بلکہ اپنے بہنوئی فضل اللہ پیچوہو کو چیف سیکریٹری سندھ لگوانا ہے۔ اسلام آباد میں سید خورشید شاہ، رحمان ملک اور بعض مشترکہ دوستوں کے ذریعہ وزیراعظم ہا ؤس کو بار بار پیغامات دیے گئے ہیں کہ پی پی قیادت وفاق سے لڑنا نہیںچاہتی۔ یہی ثبوت کافی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری ایک احتجاجی تحریک چلانا چاہتے تھے لیکن آصف زرداری نے ان کو روک دیا ہے۔ اس لیے وفاقی حکومت بھی اس دوستی کا مثبت جواب دے اور آصف زرداری کے بہنوئی فضل اللہ پیچوہو کو چیف سیکریٹری سندھ بنا دے مگر وفاقی حکومت ڈبل پالیسی اختیار کرنے کے باعث آصف زرداری سے نہ تو دوستی رکھنا چاہتی ہے اور نہ ہی فضل اللہ پیچو ہو کو اگلے گریڈ میں ترقی دے کر چیف سیکریٹری سندھ بنانا چاہتی ہے ۔ فضل اللہ پیچوہو اس لیے بھی جلد بازی کر رہے ہیں کیونکہ وہ آئندہ سال 2018ءمیں 60 سال عمر پوری کرکے ریٹائر ہو رہے ہیں، اس سے قبل چیف سیکریٹری سندھ بننا چاہتے ہیں۔