میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
2015،سائبر کرائم کی شکایات میں 4گنا اضافہ

2015،سائبر کرائم کی شکایات میں 4گنا اضافہ

منتظم
اتوار, ۳۰ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

سال گزشتہ میں 2100شکایت رجسٹرکرائی گئیں ،اسکے مقابلے میں سال2014میں 434شکایات کرائی گئی تھیں
شکایات میں اضافے کے باوجود سائبر کرائم کا سامنا کرنے والے درخواست گزار کو اس قانون سے خاطر خوا ہ فائدہ سامنے نہیں آرہا
پاکستان میں سائبر سکیورٹی اور انسداد سائبر کرائمز قانون تاحال شہریوں کیلیے کسی کام کے نہیں۔ فی الوقت اس بارے میں یہ کہنا درست ہو گا کہ وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔کیونکہ سائبر کرائم بل تو بن گیا اور پاس بھی ہوگیالیکن اس میں موجود خامیاں دور نہیں کی گئیں جس کے سبب یہ بل سول سوسائٹی کے مختلف طبقات کی طرف سے مسلسل تنقید کا شکار ہے۔ پاکستان میں سائبر سکیورٹی کی خلاف ورزی اور سائبر کرائم کے بہت سے کیسز سامنے آچکے ہیں لیکن ابھی تک اس بارے میں کچھ نہیں کیا گیا جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔مقامی انگریزی اخبار کی 8جون 2014 کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ایف آئی اے کے کرائم سرکل نے 30سالہ بابر ظفر نامی شخص کو مبینہ طور پر پاکستان اور برطانیہ دو شہریتوں کی مالک ایک لڑکی کو فیس بک کے ذریعے بلیک میل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔وہ اسے بلیک میلنگ کے ذریعے زبردستی شادی کیلئے مجبور کررہا تھا۔ وہ دبئی میں اتاری گئی اس کی نجی محفل اور نیم عریاں تصویریں اس کے خاندان والوں اور دوستوں کوفیس بک کے جعلی اکاﺅنٹ کے ذریعے پوسٹ کرکے بلیک میل کررہا تھا۔ایک ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل 17 اگست 2015 کو ایف آئی اے نے دو طلبا محمد علی اور سہیل کو سوشل میڈیا پر بھتہ خوری اور بلیک میلنگ کا ریکٹ چلانے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ یہ طلبا جعلی نام گندا گیر خان (Gundageer Khan)استعمال کرتے ہوئے مبینہ طور پر فیس بک پر ایک پیج "ایڈورڈین گرلز "(Adwardian Girls)چلا رہے تھے ۔ وہ اس پیج پر نوجوان خواتین کے فون نمبر، ذاتی معلومات اور فوٹوگراف ان کی مرضی کے بغیر پوسٹ کرتے تھے۔ جسکے بعد یہ معلومات بھتہ لے کرپیج سے ختم کرتے تھے۔یہ پیج بلیک میلنگ اور بھتہ خوری پکڑے جانے سے پہلے چار سال تک چلاتے رہے۔ایک دوسرے روزنامے کی 2ستمبر 2015 کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے جعلی نام ٹائیگر میمن کے نام سے فیس بک پر ایک پیج چلانے والے لڑکے کو گرفتار کیا ۔ جس کی پہچان فرقان حسن کے نام سے ہوئی۔ اس پر ایک نوجوان خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام تھا۔ اس کیخلاف سیکشن 25/2015کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ بظاہر وہ اسے باتیں نہ ماننے کی صورت میں خوفناک نتائج کی دھمکیاں دیتا اور غیر اخلاقی پیغامات بھیجتا تھا۔ ایف آئی اے نے مزید تفتیش اور ثبوت حاصل کرنے کیلئے اس کا سیل فون اور کمپیوٹر قبضے میں لے لیا۔ نجی ٹی وی نے 11فروری 2016کو خبر جاری کی کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی نے ایک شخص فہد باری کو فیس بک پر خواتین کو ہراساں کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔یہ سائبر کرائم کے بہت بڑے آئس برگ کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے جو ہم آپ کو بتا رہے ہیں ۔ مثلا بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ ،اسی طرح” مجھے 50کا ایزی لوڈ کرادو میں اسپتال میں ہوں“،” صبا“ کے نام سے ہونے والے فراڈ کو کون نہیں جانتا۔اسی طرح ایک اور چھوٹے درجے کا فراڈ "آپ کوئی بھی ہو” بھی ہے۔ جس میں مخصوص نمبر پر لوڈ کروانے کی درخواست کی جاتی ہے۔ "صبا "بھی اسی طرح کا فراڈ ہے۔ فون ایس ایم ایسکرنے والا بظاہر حقیقی معنوں میں بہت ضرورت مند معلوم ہوتا ہے جو آپ کو سیل فون پر مخصوص رقم بھیجنے کی اپیل کرتا ہے۔ای میل کے فراڈ بھی عام ہو چکے ہیں۔شہریار رضوان نے 7ستمبر 2014 کو ایک انگریزی اخبار کے سنڈے میگزین میں سائبر کرائم پر ایک مضمون سکیم بیم، تھینک یو میم (Scam Bam, Thank You Ma’am)لکھا جس میں انہوں نے نائجیریا سے ملنے والی بنکنگ فراڈ سے متعلق ای میل کا ذکر کیا کہ ایک خاص قسم کی ای میل آپ کے اِن باکس میں بھیجی جاتی ہے جس میں آپ کو پورے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے اور بڑی جذباتی قسم کی کہانی لکھی جاتی ہے جس کا اختتام اس پیش کش پر ہوتا ہے کہ اگر آپ ای میل بھیجنے والے کی مدد کریں تو وہ آپ کو اچھی خاصی رقم دے گا یا دے گی۔ ای میل بھیجنے والا یا والی اپنا نام، پتہ، ٹیلی فون نمبر اور بنک اکاﺅنٹ کی تفصیلات بھی بھیجتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ تمام کام قانونی ہے جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔ای میل کا صرف یہی فراڈ نہیں ہے بلکہ کچھ اور بھی فراڈ ہوتے ہیں۔سائبر مجرم زیادہ ماہر ہو گئے ہیں انہوں نے ایک نئی تکنیک تیار کی جسے فشنگ (phishing)کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں آپ کے ای میل اکاﺅنٹ ذاتی معلومات چرائی جاتی ہیں جن میں آپ کی بنک اکاونٹ معلومات، پاس ورڈاور کریڈٹ ڈیبٹ معلومات شامل ہیں۔ امریکہ میں شمالی کیرولینا کی یونیورسٹی میں طلبا کو بتایا گیا کہ فشنگ حملے زیادہ تر ای میل سے جڑے ہوتے ہیں اور یہ اس وقت متحرک ہوتے ہیں جب آپ کسی آن لائن کنٹنٹ پر کلک کرتے ہیں۔ عموما یہ ایک ویب فارم ہوتا ہے جس پر آپ اپنی معلومات ایسے ہی فراہم کرتے ہیں جیسے فیس بک یا پے پل کا فارم بھرتے ہوئے دیتے ہیں۔فراڈ کی ایک قسم لاٹری بھی ہے،اسی طرح جعلی یونیورسٹی ڈگری فراڈ ہیں، تاہم اسی طرح کینیڈا اور امریکہ میں ایک کمرے پر مشتمل یونیورسٹیاں بھی ہیں جو ڈگری کی ملوں کے طور پر مشہور ہیں لیکن آپ پاکستان میں بیٹھ کر ان کی شہرت نہیں جان سکتے ۔آن لائن شاپنگ فراڈ بھی کئے جاتے ہیں۔ زیادہ تر مشہور شاپنگ ویب سائیٹس وال مارٹ یا ٹارگٹ، ہیکروں کا نشانہ بنتی ہیں۔ ہیکرز ان کے گاہکوں کے کریڈٹ کارڈ کی معلومات چوری کرتے ہیںیا کسی اور کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں۔ پاکستان اس لئے خوش قسمت قرار دیا جاسکتا ہے کہ یہاں پر ای کامرس ابھی اتنی کامیاب نہیں ہوئی اس لئے پاکستان نسبتا محفوظ ملک ہے تاہم یہاں بھی سائبر کرائم قوانین کی اہمیت بہرحال اپنی جگہ مسلم ہے ۔
ایف آئی اے کے اعدادوشمار کے مطابق، سائبر کرائم کیلئے قومی رسپانس سینٹر (NR3Cs)کو 2015 میں 2100شکایات موصول ہوئیں جبکہ 2014میں 434شکایات پہلے سے ہی زیر التوا تھیں۔ ان میں سے 371شکایات کو انکوائری میں بدل دیا گیا اور 1604شکایات کو ختم کردیا گیاجبکہ 559شکایات تاحال زیر التوا ہیں۔ اسی طرح این آر 3سیز کو 2014 میں 758انکوائریز وصول ہوئیں جبکہ 758انکوائریز میں سے 460رجسٹر ہوئیں۔ ان میں سے 46کو مقدمات میں بدل دیا گیا جبکہ 441 انکوائریز کو ختم کردیا گیا ، 271انکوائریز زیر التوا ہیں۔ 2015کے دوران 150مقدمات آگے بڑھائے گئے جن میں سے 128رجسٹر کئے گئے، 270مقدمات میں سے صرف 142 کیسز عدالت میں پیش کئے گئے۔ ان میں سے بھی 5کیسز ختم کردیئے گئے جبکہ 123 مقدمات زیر التوا ہیں۔ 2015 میں 46میں سے چھ افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ 40افراد مفرور ہے۔انسداد الیکٹرانک کرائم بل 2015سائبر کرائم کے ساتھ اہم مسئلہ اس کی گمنامی اور سرحدوں سے ماورا ہونے کی وجہ سے اس کا پتہ لگانا اور پراسیکیوشن ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ملکی اور بین الاقوامی نوعیت کے سائبر مجرموں کیخلاف قانونی کارروائی کرنے کیلئے مناسب سائبر قوانین موجود ہی نہیں ہیں۔ پاکستان میں صرف ایک قانون زیر غور ہے اور وہ انسداد الیکٹرانک کرائم بل 2015 ہے جسے 17ستمبر 2015 کو پیش کیا گیا۔ نظر ثانی شدہ بل کا مسودہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ویب سائٹ پر موجودہے جبکہ 22اپریل 2015 کو پیش کیا گیا بل کا اصل مسودہ بھی ڈرافٹ پالیسز کے ٹیگ میں دیا گیا ہے تاہم یہ بل کسی عام شہری کی سمجھ میں آنامشکل ہے۔ بل میں مبہم اصطلاحات اور وضاحتیں موجود ہیں۔مثال کے طور پر، بل کی شق 3کے مطابق "جس کسی نے بھی جان بوجھ کر کسی بھی معلومات کے نظام یا ڈیٹا تک غیر مجاز رسائی حاصل کی تو اسے تین ماہ کی قید کی سزا اور جس کی مدت میں توسیع کی جاسکتی ہے یا 50ہزار جرمانے کی سزا ہوگی یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح سیکشن 4میں کہا گیا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر اور بلا اجازت کسی بھی ڈیٹا کو کاپی کرتا ہے یا منتقل کرتا ہے تو سزا دی جاسکتی ہے جس کی مدت چھ ماہ تک بڑھائی جاسکتی ہے یا ایک لاکھ کا جرمانہ ہو گا یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ یہ الفاظ کو عملی طور پر کسی کیلئے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ اگر فیس ویلیو کو دیکھا جائے تو آپ اپنے دوست کا ہوم ورک نقل کرکے اسے آن لائن کردیتے ہیں تو آپ ایک جرم کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ کو اپنے دوست کی ہوم ورک چوری کیلئے مقدمہ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت سائبر کرائم کے زمرے میں آنے والا بہت سا ڈیٹا ہے جو غلط ہاتھوں میں استعمال ہو رہا ہے لیکن متعلقہ سائبر کرائم ادارے خاموش ہیں اور شہریوں کی مدد سے قاصر ہےں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں