میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ولی محمد راہموں کی گرفتاری‘ نام کا انجینئر‘ کام کا حملہ آور

ولی محمد راہموں کی گرفتاری‘ نام کا انجینئر‘ کام کا حملہ آور

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۵ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

ریت سے بجلی پیداکرنے کے دعوے نے راتوں رات ان کوشہرت کی بلندیوں پرپہنچایا‘بعدمیں ان کادعو یٰ محض کاغذکی حدتک محدودرہا
حکومت نے راہموںکو محکمہ آبپاشی میں اسسٹنٹ الیکٹریکل انسپکٹر بنادیا‘عہدہ ملتے ہی ولی محمد نے شہرت کافائدہ اٹھاکرلوٹ مارشروع کردی
اربوں کے بینک اکائونٹ اورکلفٹن کراچی میں رہائش کی خریداری ولی محمد راہموں کی صرف چندسالوں کی لوٹ ماراورکرپشن کاشاخسانہ تھی
ولی محمد تحریک انصاف میں بھی شامل رہا‘شاہ محمودقریشی کی جانب سے نکالے جانے پرپیپلزپارٹی میں شامل ہواپرکوئی اہمیت ثابت نہ کرسکا
الیاس احمد
تھر کا نام آتا ہے تو فطری خوبصورتی اور قحط کے تصور سامنے آجاتے ہیں تھر کے لیے سندھی میں کہاوت ہے کہ اگر برسے تو تھر ایک جنت ہے اگر نہ برسے تو پھر تھر ایک ویرانہ ہے۔ اس تھر نے ہزاروں ایسے افراد پیدا کیے ہیں جنہوں نے ملک نہیں بلکہ پوری دنیا میں نام پیدا کیا، سیاست ہو، سماجی میدان ہو، گلوکاری ہو، مصوری ہو، فنکاری ہو، تھر نے ہمیشہ اچھے اچھے لوگ پیدا کیے ہیں۔ فطری طور پر تھر کے باشندے نرم مزاج، پختہ سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ 90 کی دہائی میں ایک انجینئر ولی محمد راھموں کا نام میڈیا میں سامنے آیا جس نے دعویٰ کیا کہ وہ ریت سے بجلی پیدا کریں گے تاکہ تھر میں بجلی کا بحران ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ ان کے اس کارنامے کو ملکی سطح پر سراہا گیا لیکن آج تک عملی طور پر انہوں نے کسی ایک جگہ بھی ریت سے بجلی پیدا کرنے کا عملی مظاہرہ نہیں کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ صرف کاغذی تھا اس بات پر سندھ بھر میں ولی محمد راہموں کا نام بھی روشن ہوا وہ کمیشن پاس کرکے محکمہ آبپاشی کے الیکٹریکل ونگ میں اسسٹنٹ الیکٹریکل انسپکٹر بن گئے ان دنوں محکمہ آبپاشی کا نام اریگیشن اینڈ پاور ہوتا تھا۔ آج کل پاور ونگ کو محکمہ توانائی میں ضم کرکے محکمہ آبپاشی سے الگ کردیا گیا ہے۔ ولی محمد راہموں نے اپنی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے محکمہ کے اندر لوٹ مار کا ایک بازار گرم کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی وہ چند سالوں میں کلفٹن میں رہائش گاہ خرید لی۔ تھر میں بھی انہوں نے اپنی رہائش گاہ تعمیر کرائی دو شادیاں کرلیں لیکن اس کے دماغ میں اب افسر شاہی نہ تھی اب وہ خود کو سیاسی میدان میں ایک چمکتا ستارہ سمجھ رہے تھے خیر اس نے جب اچھی خاصی رقم کمالی تو سونے پر سہاگہ کے پرویز مشرف کے دور میں ایم کیو ایم لندن کے رہنما انیس ایڈووکیٹ کے بھائی لئیق احمد کو واپڈا سے لاکر ڈیپونیشن پر الیکٹریکل انسپکٹر بنادیا گیا۔ لئیق احمد نے اس ادارے میں لوٹ مار عروج پر پہنچائی، پھر جب حکومت سندھ نے لئیق احمد کی خدمات واپس واپڈا کے حوالے کیں تو ولی محمد راہموں نے ان سے اظہار یکجہتی کے طور پر ملازمت سے ہی استعفیٰ دے دیا تب تک وہ کروڑ پتی بن چکا تھا ان دنوں وہ سیاست میں آنے کی تیاری کررہے تھے۔ اپنے محکمے میں انہوں نے شروع سے ایک دہشت زدہ ماحول قائم کر رکھا تھا۔ اشفاق اللہ، سید اختر کاظمی، کریم بخش شیخ جب مختلف ادوار میں الیکٹریکل انسپکٹر بنے تو ولی راہموں نے ان کو تگنی کا ناچ نچایا ان کے خلاف بھرپور میڈیا مہم چلائی اور پھر ان سے بھرپور ناجائز فائدے اٹھائے خیر جب وہ ملازمت سے قبل ازوقت ریٹائرڈ ہوئے تو محکمے کے لوگوں نے شکرانہ کے نفل ادا کیے لیکن یہ ان کی یہ خوش فہمی جلد ختم ہوئی جب ولی راہموں نے ایک دفتر کھول کر متبادل توانائی پیدا کرنے کے چھوٹی سطح کے منصوبوں کے لیے ایک کنسلٹنٹ کے طور پر اپنے ہی سابقہ محکمے پر نازل ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد جب انہوں نے الیکٹریکل انسپکٹر کریم بخش شیخ کے ساتھ دفتر میں ان کے ساتھ ہاتھا پائی کی تو کریم بخش شیخ نے پریڈی تھانے میں ولی راہموں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جس میں انہیں گرفتار کیا گیا تو اس وقت پی پی پی اپوزیشن میں تھی تو پی پی پی نے شور مچادیا کہ اتنے بڑے ہیرو کو بلاجواز گرفتار کیا گیا۔ حالانکہ یہ ایک افسر کی عزت اور ایک دفتر کے تقدس کا معاملہ تھا جو سیاسی بنادیا گیا۔ رہائشی کے بعد ولی راہموں خود کو ہیرو سمجھنے لگا وہ کبھی شاہ محمود قریشی کے ساتھ رہا تو کبھی پیر نور محمد شاہ کے ساتھ رہا۔ کبھی وہ پی پی پی کے ساتھ تھا تو کبھی وہ تحریک انصاف کے لیے خود کو وقف کرلیا۔
بلا آخر شاہ محمود قریشی نے اس کی ان قلابازیوں پر اس کو اپنی مریدی سے الگ کردیا۔ اب وہ کل وقتی پی پی پی میں آگئے اور اپنے کرتوت چھپانے کے لیے ارباب غلام رحیم کے علاوہ سابق صوبائی وزیر آبپاشی صدر الدین شاہ راشدہ پر الزامات لگاتے رہے۔ 2018 کے بعد پی پی پی جب آصف علی زرداری کے ہاتھ میں آئی تو ولی راہموں کو پہلے تو اہمیت ملی لیکن جلد پارٹی نے محسوس کرلیا کہ ولی راہموں تو پارٹی کو ہی فروخت کردیں گے پھر ان کو پارٹی سے خاموشی سے الگ کیا گیا۔ اہم اجلاسوں میں ان کو بلانا بند کیا گیا، بڑے فیصلوں میں ان کو شامل نہ کیا گیا اب انہوں نے حسب سابق الیکٹریکل انسپکٹر محمد ہاشم راہپوٹو سے ناجائز کام لینے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے قانون سے ہٹ کر محمد ہاشم راہپوٹو نے کام کرنے سے انکار کردیا تو ان کو دھوکہ دے کہ ایک گھر لے گیا اور ان پر نہ صرف وحشیانہ تشدد کیا بلکہ ان سے تاوان بھی طلب کیا کہ میرے غیر قانونی کام نہیں کیے تو مجھے اتنے کروڑوں کا نقصان ہوا ہے۔ لہٰذا مجھے اتنی رقم دے دو ورنہ جانی و مالی نقصان دوں گا۔
محمد ہاشم نے جب اسٹینڈ لیا تو ولی راہموں ڈھیلے پڑ گئے اور ان کو چھوڑ دیا مگر محمد ہاشم راہپوٹو نے فیریئر تھانہ میں مقدمہ درج کرالیا۔ چھ ماہ تک ولی راہموں روپوش رہے اب کراچی پولیس نے ان کو لاہور سے گرفتار کرلیا اور جب ان کے گھر سی ٹی ڈی نے چھاپہ مارا تو ان کے گھر سے کلاشنکوف برآمد کرلی۔ اب ان پر دو مقدمات درج ہیں۔ ان کا بیٹا آفتاب راہموں کو بھی براہ راست سب انسپکٹر الیکٹریکل مقرر کرایا بعد میں اس کو بھی گریڈ 17 دلوایا اور اس کو غیر قانونی طور پر کینیڈا بھیج دیا۔ ولی راہموں نے الیکٹریکل انجینئرز پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے ایک نجی کمپنی بھی بنارکھی ہے جس کے وہ خود سی ای او ہیں۔ اس کے خلاف بھی تحقیقات شروع ہوگئی ہے۔ ولی راہموں نے جس طرح تشدد اور غنڈا گردی کرکے شارٹ کٹ تلاش کرلیا مگر مقافات عمل کو بھول گئے۔ قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے، اس کے یہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں ہے۔ آج وہ اپنے اعمال کی سزا بھگت رہا ہے۔ اس کے لیے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں