میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر27)

پاناما پیپرز۔۔حقائق کیسے طشت از بام ہوئے۔دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی(قسط نمبر27)

منتظم
جمعرات, ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

یوکرائن کے صدر پیٹرو پورو شینکو ، جرمنی کے تمام بڑے بینک غیر قانونی کاروبار میں ملوث تھے
پورشینکوزبردست قوت ارادی کے مالک اور کرشماتی شخصیت کے مالک تصور کیے جاتے ہیں
دنیا میں چاکلیٹ کنگ کے نام سے مشہور ہیں ان کی کمپنی کی چاکلیٹ مشرقی یورپ میںسب سے زیادہ مقبول تھی
تلخیص وترجمہ : ایچ اے نقوی
یوکرائن کے صدر پیٹرو پورو شینکو کے قبرص سے تعلق رکھنے والے ایک درمیانی شخص نے اگست 2014 میں ایک ای میل بھیجا جس میں موزاک فونسیکا کے ساتھ مل کر برٹش ورجن آئی لینڈ میں اسیٹ پارٹنرزلمیٹڈکے نام سے ایک اور آف شور کمپنی قائم کرنے کی خواہش کااظہار کیا گیاتھا۔اس نے اپنے ای میل میں لکھاتھا کہ کلائنٹ ایک سیاسی شخصیت ہے لیکن کمپنی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ یوکرائن کے صدر پیٹرو پوروشینکو کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتاہے اور اپنی دولت کے اعتبار سے وہ دنیا کے چھٹے یاساتویں سب سے زیادہ دولت مند فرد ہیں۔وہ دنیا میں چاکلیٹ کنگ کے نام سے مشہور ہیں کیونکہ انھوں نے چاکلیٹ کے ذریعے یہ دولت کمائی تھی ان کی کمپنی کی چاکلیٹ مشرقی یورپ میںسب سے زیادہ مقبول چاکلیٹ کمپنی تھی۔ان کے کاروبار میں مختلف میڈیا ہاﺅسز، کار اور بیج کاکاروبار شامل ہے اس کے علاوہ ان کاایک شپ یارڈ بھی ہے، پورشینکوزبردست قوت ارادی کے مالک اور کرشماتی شخصیت کے مالک تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ 1990سے سیاست کے میدان میں سرگرم ہیں۔ وہ پارٹی آف
ریجنز کے بانیوں میں تھے جو بعد میں وکٹر یانوکووچ کی قیادت میں ان لوگوں کوپروان چڑھانے کامرکز بن گئی جنھوں نے اس ملک اورملک کی کمپنیوں کواپنے مفادات کی تکمیل کے لیے بری طرح لوٹا۔
2004 میں پوروشینکو نے اورنج انقلاب کاساتھ دیا او ر جب دھاندلی کے ذریعے یانوکووچ کی صدارتی انتخابا ت میں کامیابی کے اعلان کےخلاف یوکرائن کے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے تو پوروشینکو کا ٹیلی ویژن یوکرائن کا واحد ٹیلی ویژن تھا جو مظاہرین کو دکھارہاتھا، اس کے نتیجے میں انتخابات دوبارہ ہوئے او راس کے نتیجے میں وکٹر یوشینکو کامیاب قرار پائے جن کاچہرہ زہریلے حملے کے نتیجے میں مسخ ہوگیاتھا ،انتخاب کے بعد وکٹر کوصدر بنایاگیااور یولیا ٹائموشینکو وزیر اعظم بن گئے جبکہ چاکلیٹ کنگ یعنی پوروشینکو نے نیشنل سیکورٹی اور دفاعی کونسل کا عہدہ سنبھال لیا بعد میں وہ وزیر خارجہ اور وزیر تجارت اور اقتصادی ترقی بھی بنادئے گئے۔
کیف میں یانوکووچ کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کاایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ ملک کے 100سب سے زیادہ دولت مند افراد کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عاید کردی جائے۔ مظاہرین یولیا ٹائموشینکو اور پیٹرو پوروشینکو جیسے دولت مند ممالک کے خلاف تھے جن کے پاس دولت کے انبار تھے جبکہ یوکرائن کے 4کروڑ80 لاکھ عوام میں 80فیصد غربت کی نچلی سطح پر زندگی گزار رہے تھے۔لیکن مظاہرین کے اس مطالبے پر کسی نے توجہ نہیں دی اور 2014میں پیٹرو پوروشینکو صدارتی امیدوار کے طورپر یولیا ٹائموشینکو کے خلاف میدان میں آئے اور کامیاب ہوگئے، لیکن صدر منتخب ہونے کے بعد وہ اپنی تمام کمپنیاں فروخت کردینے کے وعدے پرقائم نہیں رہے۔صدر بننے کے بعد پوروشینکو کی دولت میں مزید اضافہ ہوا جبکہ یوکرائن حکومت کے بہت سے عہدیداروں کو بحران کے نتیجے میں بھاری نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔
اب ہمارے سامنے جرمنی کے ان بینکوں کی ایک فہرست تھی جن میں سے کم از کم ایسے 20 بینکوں کاڈیٹا ہمارے پاس موجود تھا جن کے کاروباری طریقہ کار کوپراسرار تصور کیا جاتاتھا۔ہمارے ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر کے کم وبیش500 بینک موسفون کی سروسز یعنی خدمات سے ا ستفادہ کرتے تھے ان میں جرمنی کے 7سب سے بڑے بینک شامل تھے ان 7بینکوں میں سے6آف شور کمپنیوں کے قیام اور ان کے انتظام کے لیے موسفون تک رسائی فراہم کرتے تھے ان میں سے بیشتر یہ کام سوئٹزرلینڈ یا لگژمبرگ میں واقع اپنے ذیلی اداروں کے ذریعے یہ خدمت انجام دیتے تھے۔ان میں ڈوئچے بینک، کامرس بینک،ڈی زیڈ بینک، ہائپو ویرینس بینک، لینڈز بینک باڈن ،ورٹمبرگ ،بائرن ایل بی شامل تھے۔
اگر 2009 میں کامرس بینک ڈریسڈ نر بینک کا انتظام نہ سنبھالتا تو تمام ساتوں بینک اس کاروبار میں ملوث قرار پاتے۔ بالفاظ دیگر جرمنی کے تمام بڑے بینک منظم انداز میں اپنے کلائنٹس کو آف شور کمپنیاں قائم کرنے اور اپنی دولت چھپانے میں مدد فراہم کررہے تھے۔اس بات کاامکان ہے کہ 2015 کے آغاز تک جرمنی کے زیادہ تر بینک اس کی سختی سے تردید کرتے تھے اور اگر یہ ظاہر ہوبھی جاتے تھے تو وہ اس معاملے کو دبانے کی کوشش کرتے تھے جیسا کہ فروری2015 میں کامرس بینک نے اپنے دفاتر پر پولیس اور ٹیکس کی تفتیش کرنے والوں کے چھاپے کے وقت یہ کہہ کر کیاتھاکہ یہ معاملات بہت پرانے یعنی 10سال بلکہ اس سے بھی زیادہ پرانے ہیںاور اس حوالے سے کوئی بڑی ڈیل نہیں ہوئی ہے جبکہ ہم نے اپنے اخبار میں ان کے اس دعوے کو غلط ثابت کیاتھااورجیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ کامرس بینک نے پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر میں اس حوالے سے ڈیل کرلی تھی اورپبلک پراسیکیوٹر نے بینک کی جانب سے 17ملین یورو کی ادائیگی پر اس کے خلاف کارروائی روک دی تھی۔ڈاکومنٹس سے ظاہرہوتاتھا کہ جرمنی کے بینک آف شور کمپنیوں کے قیام اور ان کے انتظام کے علاوہ بے نامی شیل کمپنیوں کے اکاﺅنٹس کھول کر بھی منافع کماتے تھے۔
ڈیٹا کی چھان بین کرتے ہوئے ہمیں ایک اور نیا نام مل گیا یہ نام تھا آئس لینڈ کے وزیر خزانہ اور انڈیپنڈنس پارٹی کے چیئرمین اولوف نارڈل کا ،ان کی پارٹی حکومت میں پروگریسو پارٹی کی اتحادی تھی۔ پروگریسو پارٹی کے سیکریٹری اور سربراہ کے نام بھی ہمارے ڈیٹا میں موجود تھے جو کہ آئس لینڈ کے وزیراعظم تھے۔
لیبیا کے مقتول سربراہ معمر قذافی کے حوالے سے ڈاکومنٹس کی چھان بین کرتے ہوئے ہمیں ایسی درجنوں کمپنیوں کے نام ملے جن کے ڈانڈے قذافی سے ملتے تھے اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات کے بھی ثبوت ملے کہ لیبیا سے لاکھوں ڈالر ان کمپنیوں میں منتقل کیے جاتے رہے۔ لیبیا سے منتقل کی جانے والی دولت کے حوالے سے چھان بین کے دوران ہمیں قذافی کے ایک بااعتماد ساتھی اور دوست علی ڈبائبا کا نام بھی ملا اور یہ انکشاف ہوا کہ لیبیا کی دولت اسی شخص کے ذریعے قذافی کے خفیہ اکاﺅنٹس میں منتقل کی جاتی تھی۔
علی ڈبائبا کے بارے میں چھان بین کرتے ہوئے یہ انکشاف ہوا کہ 1969میں جب معمر قذافی نے اقتدار پر قبضہ کیا اس وقت علی ڈبائبا جغرافیہ کا استاد ہوا کرتاتھا ،قذافی کی قربت کافائدہ اٹھاکر یہ شخص پورٹ سٹی مسترا کا میئر بن گیا اور اس کے بعد جلد آٹوکریٹس کے اندرونی حلقوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا، اس نے آرگنائزیشن فار ڈیولپمنٹ آف ایڈمنسٹریٹو سینٹرز کے نام سے ایک تعمیراتی کمپنی قائم کی۔ ڈبائبا کی زیر قیادت قائم ہونے والی یہ کمپنی سرکاری ٹھیکہ دار کمپنی بن گئی اور چند برسوں کے دوران اس کو اربوں ڈالر مالیت کے ٹھیکے دیے گئے ۔لیبیا کے تفتیش کاروں کے مطابق ان ٹھیکوں کی بیشتر رقم ڈبائبا کے اہل خانہ کے اکاﺅنٹ میں منتقل ہوجاتی تھی۔قذافی کے ایک مشیر نے بتایا تھا کہ اس ادارے کی جانب سے غیر قانونی کاموں کے شواہد تو بہت پہلے مل گئے تھے لیکن چونکہ معمر قذافی اور اس کے بیٹے کود بھی اس میں شریک تھے اس لیے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی۔
جب معمر قذافی کے خلاف بغاوت زور پکڑ گئی اور ان کی حکومت کاخاتمہ صاف نظر آنے لگا تو ڈبائبا نے فوری پینتر ا بدلہ اور باغیوں کی حمایت شروع کردی اور باغیوں کی ہمدردیاں اور قربت حاصل کرنے کے لیے ان کو لاکھوں ڈالر دے دئے اس طرح قذافی کادست راست باغیوں کاہیرو بن گیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں