بزرگوں کی صحبت کے معاشرے پر اثرات
شیئر کریں
مولانا ندیم الرشید
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ جاﺅ‘
قابل احترام برادرانِ اسلام!
اس آیت کریمہ میں ربِّ دوجہاں، مالک کل کائنات،محبوب عظیم نے ایمان والوں کو مخاطب کرکے انہیں دو کام کرنے کا حکم دیا ہے‘ پہلا کام تقویٰ اختیار کرنا ہے کہ ہرآن تیرا دل اپنے معبود کی یاد میں دھڑکتا رہے۔ اس کے خوف سے لبریز‘ ہر لمحہ اطاعت پر آمادہ اور نافرمانی سے گریزاں رہے اور دوسرا کام جس کے کرنے کا حکم دیا وہ ہے صادقین یا سچوں کی صحبت اختیار کرنا‘ کیونکہ صحبت کااثر ہوتا ہے۔ آدمی جس کی صحبت اختیار کرتا ہے اسی کے رنگ میں رنگتا چلا جاتا ہے لہٰذا اہل تقویٰ کی صحبت آدمی کو متقی بنادیتی ہے۔ صحبت صالح تراصالح کند۔
آیت کریمہ میں اپنی ذات کو تقویٰ کے نور سے منور اور خدا خوفی کی خوشبو سے معطر کرنے کا طریقہ بھی یہی بیان کیاگیا ہے کہ سچوں کی رفاقت اختیار کرو‘ نیکوں کی صحبت حاصل کرو کیونکہ صحبت اگر تھوڑی دیر کی بھی ہو تو فائدے سے خالی نہیں ہوتی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابل جادوگر ہار گئے اور پھر مسلمان ہوگئے۔ فرعون نے کہا میں تم کو سولی چڑھادوں گا۔ جواب دیا جو تیرا جی چاہے حکم دے۔ دنیا کی زندگی پر ہی قابو پاسکتا ہے اس کے بعد کیا کرے گا؟ یہ تو چنددن کی زندگی ہے ہم کو اس کی پروا نہیں۔ اتنا جلد مسلمان ہونا‘ اتنا پختہ ایمان ہونا کیا ہے؟نبی کی صحبت اور تھوڑی دیر کی صحبت۔ بس اللہ والوں کی صحبت سے کایا پلٹ جاتی ہے۔ ستر برس کا مسلمان اس قدر کامل مسلمان نہ ہوگا جیسا ایک لمحے کی نبی کی صحبت اٹھانے والے جادوگروں کا ایمان تھا۔ یہ رنگ صحبت کا رنگ تھا۔
صحبت کا اثر انسان کی ذات کے ساتھ ساتھ اس کے افعال میں بھی سرایت کرجاتا ہے جس کی وجہ سے پورا معاشرہ، پوری تہذیب اور سارے کا سارا تمدن صحبت کی تاثیر کے زیر اثر دکھائی دیتاہے۔ اسلامی تہذیب میں جب کوئی کمہار لنگر کھانے کے لیے کوئی برتن بناتا ہے تو اس برتن کی شکل میں بھی بزرگوں کی صحبت سے رہنمائی لیتا ہے۔ اللہ والوں کا طریقہ یہ ہے کہ جب کسی برتن میں میٹھا وغیرہ یا کھانا کھاتے ہیں تو اس برتن یا پیالے کو صاف کرتے ہیں تاکہ رزق کا زیاں نہ ہو۔ یہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ ہے جو مسلمانوں تک بزرگوں کی صحبت سے منتقل ہوا ہے۔ اسلامی تہذیب میں رزق اللہ کا کرم، عطا‘ فضل اور نعمت ہے اور اس کے شکر کا طریقہ یہ ہے کہ رزق میں ان لوگوں کو شریک کیا جائے جو اس سے محروم ہیں اور ایک دانے کو بھی ضائع نہ کیا جائے۔ لہٰذا آقا علیہ السلام کی سنت یہ تھی کہ آپ رزق کے ایک ذرے کو بھی ضائع نہیں جانے دیتے تھے کیونکہ شکر کے منافی رویہ ہے۔ اسی لیے بزرگان دین اولیاء،اہل اللہ اور اہل علم جب آپ علیہ السلام کی اس سنت پر عمل کرتے ہیں تو یہ طریقہ ان کی صحبت میں بیٹھنے والے عوام الناس تک بھی منتقل ہوتا ہے۔ لہٰذا اسلامی تہذیب وتاریخ میں کمہار لنگر کھانے کے لیے ایسا برتن بناتا ہے جس میں انگلیاں آسانی سے گردش کرسکیں اور برتن کی دیواروں کو صاف کرسکیں تاکہ رزق ضائع نہ ہو۔ بزرگوںکی صحبت کا اثر جب کمہار کے کام میں منتقل ہوتا ہے تو پھر وہ کام محض کام نہیں رہتا بلکہ ایک ثقافت کا روپ دھارکر تہذیب وتمدن کی شناخت بن جاتا ہے۔
ہماری تاریخ میں بزرگوں کی صحبت علم کے حصول کا ایک مستقل ذریعہ ہے۔ ایک شاعر جب دادا میاں کی شخصیت کا خاکہ ان لفظوں میں کھینچتا ہے کہ
ابو کے ابو دادا میاں
اتنے بڑے اتنے بڑے
دادا میاں عینک سے حرف
بڑے ہوجاتے ہیں
ان سے مل کر لوگ بہت
لکھے پڑھے ہوجاتے ہیں
تو وہ تہذیب میں نہ صرف بزرگوں‘ مقام و مرتبے اور حیثیت و کمال کا تعین کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ وہ یہ راز بھی کھول دیتا ہے کہ ہمارے ہاں علم بزرگوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے‘ حصول علم کے لیے اداروں اور عمارتوں کے شکنجے ضروری نہیں، درخت کے سائے تلے جب ایک شاگرد ایک استاد کی صحبت میں بیٹھتا ہے تو اس صحبت سے حاصل ہونے والے علم اور اس علم کے اثرات کا دائرہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ گھاٹ گھاٹ سے گھونٹ گھونٹ پانی پینے والے عمررسیدہ بزرگ صرف حاملِ علم ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ تجربات کی کٹھالی سے کندن بن کر نکلتے ہیں‘ عمر کی زیادتی ان میں اخلاق کی حقانیت کو نقش کردیتی ہے اس لیے یہ لوگ صرف پڑھے ہوئے ہی نہیں کڑھے ہوئے بھی ہوتے ہیں‘ ان کی زندگی کے تجربات کا حاصل کسی کتاب میں نہیں ملتا صرف سلامت‘ صحبت اور استفسار سے یہ علم منتقل ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک ایسا معاشرہ جہاں بزرگوں کی تعظیم‘ ان کا احترام ختم ہو جائے‘ انہیں گھر سے نکال کر اولڈ ہومز میں منتقل کردیا جائے، جہاں لوگوں کے پاس اتنا وقت نہ ہو کہ وہ بزرگوں کے پاس بیٹھ کران کی صحبت سے کچھ حاصل کرسکیں یا استفادہ کرسکیں،تو ایسا معاشرہ روحانیت سے عاری‘ زندگی سے بے کیف اور علم سے خالی ایک مردہ معاشرہ بن کر رہ جاتاہے ۔
معزز قارئین!
آج ہم تاریخ کے ایک ایسے دور میں کھڑے ہیں جہاں یہی سب کچھ ہورہا ہے ‘ انسانوں کی جگہ اداروں نے لے لی ہے، جن کے پتھر یلے وجود دل سے خالی اور محبت سے عاری ہیں‘ انسان کا مقام کمپیوٹر‘ سی ڈی او ر موبائل نے چھین لیا ہے، لہٰذا اطلاعات اور معلومات کا سمندر ابل رہا ہے لیکن علم سمٹ گیا ہے بلکہ رخصت ہورہا ہے اور اس کی جگہ جو جہالت پنپ رہی ہے اس میں انسان کی پہچان رشتوں سے نہیں کروائی جارہی ،کیونکہ رشتے ناتے اور تعلقات حفظ مراتب جنم دیتے ہیں، بزرگوں کے مقام مرتبے‘ بڑائی‘ حیثیت ‘ مقصد اور کمال کو متعین کرتے ہیں اس کے بجائے آج انسان کی پہچان سائیکو کیمیکل آرگن کے طور پر کروائی جارہی ہے اس لیے کسی وجود کو کسی وجود پر فوقیت حاصل نہیں سب انسان ایک جیسے ہیں لہٰذا بزرگوں کی صحبت‘ ان سے استفادہ‘ ان سے خیرو برکت کی دعا اور خود ان کی ذات کو باعث خیر و برکت سمجھنا یہ تمام نورانی اور روحانی تصورات اب ہمارے ہاں مٹتے چلے جارہے ہیں اور اس کا انجام مغربی معاشروں کی طرح انسانی تاریخ کے سب سے بڑے اخلاقی زوال کی صورت میں ایک دن ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا‘ بچنے کی واحد صورت یہی ہے کہ ہم آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے اللہ سے ڈریں اور سچوں کی صحبت اختیار کریں‘ بخاری شریف میں ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا‘ اچھے اور برے ہم نشین کی مثال مُشک بیچنے والے اور لوہار کی بھٹی کی طرح ہے‘ مُشک بیچنے والے سے تمہیں ضرور کچھ فائدہ ہوگا یا اس کو خریدو گے یا اس کی خوشبو پاﺅ گے لیکن لوہار کی بھٹی سے تمہارے گھر یا کپڑے یا تمہارے دماغ میں اس کی ناگوار بو پہنچے گی۔
حضراتِ محترم!
اللہ رب العزت کے فرمان اور آقا علیہ السلام کی تعلیمات سے واضح ہوگیا کہ فرد اور معاشرہ اس وقت تک خیر پر قائم نہیں رہ سکتے جب تک لوگ اللہ سے ڈرنے والے نہ بن جائیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی سچوں کی صحبت اور نیکوں کی رفاقت اختیار کرے۔