میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پیغام سیرت

پیغام سیرت

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۰ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

ایک اصول اپنالیں۔۔۔
پھر آپ کے معاشرے کو پنپنے سے کوئی نہیں روک سکتا
اشفاق احمد
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک جب ۳۵ سال تھی ، اس وقت قریش نے فیصلہ کیا کہ کعبة اللہ کی عمارت بہت پرانی اور خستہ حال ہوگئی ہے۔ اسے نئے سرے سے تعمیر کرنا چاہیے، چنانچہ تمام لوگوں نے اس مبارک عمل کے لیے پیسے بھی جمع کیے اورعملا ًکام میں شرکت بھی کی۔ حضورانور بھی آگے بڑھ کر اس میں حصہ لے رہے تھے، اور اپنے کاندھوں پر مٹی ڈھونے سے لیکرحجر اسود کو اس کے مقام پر نصب کرنے تک تمام کاموں میں برابر شریک رہے۔
آج ہم میں سے ہر کو ئی بڑے بڑے کام کرنا چاہتا ہے، نام کمانا چاہتا ہے۔ یہ جذبہ نمود و نمائش کے لیے بھی ہو سکتا ہے اور خالص اللہ کی رضا کے لیے بھی۔ تو سب سے پہلی بات یہ کہ اگر اس جذبے میں کچھ کھوٹ ہے تو اس کوا خلاص کی بھٹی میں پکا کر کندن بنائیں۔ یعنی ہر کام میں نیت اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی ہو۔ پھر اس کام میں اگر دنیاوی قبولیت ملے گی تو اس میں اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال رہے گی وگرنہ وہ قبولیت نہیں ریا اور شہرت بن کر وبالِ جان ہوجا ئے گی۔
دوسری بات یہ کہ ہمیشہ اچھے کاموں کی تلاش میں رہنا چاہیے اورموقع ملتے ہی فوراً اپنی صلاحیتوں کواچھے کاموں میں لگانے کی کوشش کرنی چاہیے۔میدان ملنے کے بعد بندے تلاش نہیں کرنے چاہئیںکہ مجھے اس مقدس کام کے لیے مقدس اور شریف و معزز لوگ ملیں گے تو میں اپنا حصہ ڈالوں گا۔ اب دیکھئے حضوراکرم نے اللہ کا گھر تعمیر ہوتے دیکھا تو فوراً اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالا۔
آج ہمارا مسئلہ ٹیڑھا اس لیے بھی ہوجاتا ہے کہ ہم نے اپنی ترجیحات کے معیارات کو بدل ڈالاہے۔ ترجیح کا م کو ہونی چاہیے تھی، مگر ہم سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ میری کمیونٹی، میری برادری، میری پارٹی اور میرے لوگ یہ کا م کررہے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ کر رہے ہوں تومیں بھی حصہ لوں گا ورنہ لوگ جانیں ‘اُن کا کام جانے۔
یقین مانئے ہمیں اپنے معاشرے میں چہار سوپھیلی جو برائیاں اور سماجی ناہمواریاں دکھائی دیتی ہیں اُن کی ایک بہت بڑی وجہ ہماری یہی سوچ ہے۔اگر ہم دو گھڑی غور کریں تو اس طرح کی صورتحال جب بھی پیش آتی ہے، ہمارے سامنے دو راہیں ہُوا کرتی ہیں، ایک تو یہ کہ ہم اپنے اختلافات کواپنا سب کچھ سمجھ بیٹھیں اور یہ فیصلہ کریں کہ کچھ ہوجائے ہمیں صرف اپنی انا اور اپنے اختلافات کی پرورش کرنی ہے۔ انہی رذیل مقاصد کے گرد ہماری زندگی نے گھومنا ہے اور یہی وہ اثاثہ ہے جو میں اپنی اگلی نسلوں تک منتقل کرکے جاو¿ں گا۔ چاہے اگلی پوری نسل انہی اختلافات کی نذر ہوجائے۔ لیکن میں اپنے اختلافات کو نہیں بھلا سکتا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اختلافات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اختلاف کو انا کا مسئلہ مت بننے دیں۔ اختلاف کو بھلا کر ایک مشترکہ مقصد کے تحت جمع ہوجا ئیں۔ اس طرح دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملے گا۔ افہام و تفہیم ہوگی۔ ایک دوسرے کا مو¿قف سننے اور سمجھنے کا موقع ملے گا۔ جس سے کام کرنے کی راہیں آسان ہوں گی اور کامیابی ہر ایک کے قدم چومے گی۔ اِس طرح اتحاد ِامت اور ملت کو جوڑنے کا مقدس کام بھی آپ کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچے گا اور امت کے اتحادِ رفتہ کی جانب پلٹنے میں پہلا قدم آپ کی جانب سے اُٹھے گا۔
علاوہ ازِیں یہ وصف ہمار ی قو ت و بقا کا بھی ضامن ہے۔ جب تک ہم متحد ہو کر کام کرتے رہیں گے اُحد و بدر کا منظر تازہ ہوتارہے گا۔ فرشتے گردوں سے قطار اندر قطار ہماری مدد کو اُترتے رہیں گے اور جس دن ہم نے ناچاقی و خلفشار کے دروازے اپنے اوپر کھولے، پھر آسمان سے بھی ہمارے لیے عداوتوں، باہمی لڑا ئیوں،دشمنیوں، تعصب پرستیوں، اور بے چینیوں کے فیصلے نازل ہوںگے، پھر ہمارا معاشرہ کیسے خیر سے خیرتر اور بہتر سے بہترین کی طرف آگے بڑھ سکے گا؟
لہٰذا اس ہفتہ کا پیغام سیرت یہ ہواکہ لوگوں سے مثبت تعلقات رکھیں گے، اتحاد و اتفاق کی فضا کو پھیلا ئیں گے،دوسروں کی مدد کریں گے اور مثبت کام کرنے میں خود پہل کریں گے۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں