میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی حالت پر اتحادی ممالک بھی پریشان ہیں

ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی حالت پر اتحادی ممالک بھی پریشان ہیں

منتظم
بدھ, ۱۱ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان کے وزیراعظم خاقان عباسی نے گزشتہ دنوں امریکا کے ایک تھنک ٹینک میں افغانستان کے مسئلے میں بھارتی کردارکے بارے میں پوچھے گئے سوال کے برملاجواب نے سب کو ششدر کردیاکہ افغانستان میں بھارتی کردارخارج ازامکان اورقطعی ناقابل قبول ہے اوراب افغانستان کی جنگ پاکستان کی سرزمین پرنہیں لڑی جاسکتی،وزیر اعظم خاقان عباسی نے غالبا پہلی مرتبہ امریکا کے حوالے سے ایک دوٹوک بیان دے کر پاکستان کے عوام کی دلی خواہشات اور امنگوں کی ترجمانی کی ہے اور امریکا کے طاقت میں بدمست صدر کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان اب وہ ترنوالہ نہیں جو امریکا کے ایک فون پر سرنگوں ہوکر جی میرے آقا حاضر ہیں کہنے لگے، جہاں تک ڈونلڈ ٹرمپ کا تعلق ہے تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالا ہے وہ مسلسل پوری دنیا کودھمکیاں دینے میں مصروف ہیں ،اور خود اپنے ساتھیوں کی جانب سے روکنے ٹوکنے کے باوجود وہ اس حوالے سے کسی کو خاطر میں لانے کوتیار نظر نہیں آتے یہاں تک کہ اپنے فیصلوں پر تنقید برداشت کرنے اور اپنے ہی ساتھیوں کی تنقید پر ان فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کے بجائے خود اپنے ہی منتخب کردہ ساتھیوں کوسبکدوش کرنے سے گریز نہیں کرتے ،جس سے ظاہرہوتاہے کہ وہ ماضی سے کچھ سیکھنے پر آمادہ نہیں ۔ اقتدار سنھبالنے کے بعد7 مہینے کے غور و فکر کے بعد ٹرمپ نے افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں امریکا کی تمام ناکامیوں کاملبہ پاکستان پرڈالنے کی کوشش کی ،لیکن اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے اجلاس میں شمالی کوریاکومکمل تباہ اورایران کوسنگین نتائج کی دھمکیاں دے ڈالیں جس سے پوری دنیا میں ان کی ذہنی حالت اورجارحانہ سوچ کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا،اس کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے تندوتیز بیان کے بعد پہلی مرتبہ بالخصوص امریکی اتحادیوں اوربالعموم اقوام عالم نے انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ کوانتہائی غیرسنجیدہ قراردیتے ہوئے امریکا سے اپنی پالیسیوں پرنظر ثانی کرنے کامطالبہ کیاہے۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق صدر بارک اوباما کی افغان پالیسی کی شدید مذمت کرتے ہوئے امریکی عوام سے یہ وعدہ کیا تھاکہ اگر وہ صدر بنے توامریکا کودوبارہ عظیم بنائیں گے”اور افغان جنگ سے باہر آجائیں گے، امریکی تجارتی پالیسیوں کو فروغ دیں گے، دنیا کے مسائل میں الجھنا چھوڑ کر امریکا کے مسائل کو حل کریں گے لیکن الیکشن جیتنے کے7 ماہ بعد ہی وہ اپنے وعدوں سے انحراف کی توجیحات بیان کر کے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ امریکا افغانستان میں تادیر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتا ہے، اب ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کو افغان جنگ جیتنی چاہیے۔ جن امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے وہ اس جنگ سے باہر آنا چاہتے تھے، اب ان ہی کے خون سے وفا کرنے کے بہانے کاسہارا لیتے ہوئے وہ اس جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں ۔ حکمراں ری پبلکن پارٹی نے اس حکمت عملی کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ ڈیمو کریٹس نے اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے تفصیلات کا مطالبہ کیا ہے۔ افغان کٹھ پتلی حکومت جوٹرمپ کے انتخابی وعدوں کواپنے سیاسی مستقبل کوڈوبتادیکھ کراپنی بقاکے لیے ہاتھ پاؤں ماررہی تھی۔اس نے بھی ٹرمپ کی یوٹرن پالیسی کو خوش آمدید کہتے ہوئے اسے افغان آرمی کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ چند ہزار فوجیوں کے ساتھ کیا وہ سب حاصل کر سکیں گے جو اوباما ایک لاکھ سے زیادہ فوجیوں کی موجودگی میں حاصل نہیں کر سکے، اگر کسی بھی خوش فہمی کی بنا پر وہ یہ فیصلہ کر ہی چکے ہیں تو پھر بھی انہیں روس کے ماضی سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے جونہ صرف امریکا کے مقابلے میں ایک سپرپاوراورنصف یورپ کے علاوہ دنیاکے کئی ممالک کاتھانیدارتھابلکہ افغانستان کی سرحدوں سے جڑاہواپڑوسی بھی تھا۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ بیان کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس پر اپنا رد ّ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت جلد افغانستان اب ایک اور سپر پاورکا قبرستان بنے گا، افغان پہاڑوں کی سرزمین گزشتہ کئی دہائیوں سے سپر پاورز کے نشانے پر ہے، ایک سپر پاورکا نشان مٹ چکا ہے جبکہ دنیا کی دوسری سپر پاور فتح سے بہت دور کھڑی ہے، اس بار بار کی جنگی مشق نے افغانستان کے بچے بچے کو جنگ کی تربیت دی ہے اور ایسے میں افغان مجاہدین ایک بار پھر آخری سانس تک لڑنے کا اعلان کر رہے ہیں ۔ صدر ٹرمپ نے افغان جنگ میں اپنے ہی اہم اتحادی پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حقانی گروپ کی امداد بند کرے اور پاکستان میں موجود اس کے محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کردے۔ امریکا نے ایک بار پھر اپنی پرانی حکمت عملی پر چلتے ہوئے اپنی اسی ذہنیت کی عکاسی کی ہے جس میں وہ صرف اپنا مفاد چاہتا ہے جبکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں بہت کچھ کھویا ہے، دہشت گردی کی اس آگ نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں اس طرح لیا کہ ایک سوبیس ارب ڈالر کے مالی نقصان نے ابھرتے ہوئی ترقی یافتہ پاکستانی معیشت کی کمرتوڑکررکھ دی۔ پاکستان کے شہر اور وہ قبائلی علاقے جو کبھی بہت پرامن تھے، اس دور میں شعلوں کی لپیٹ میں رہے ، سوات اور شمالی وزیرستان آپریشن میں ملک کے اندر جنگ زدہ ماحول رہا اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعدادنے اپنے ہی ملک میں دربدری کا عذاب سہا، پاکستان کے تمام بڑے شہرمسلسل بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی زد میں رہے، دہشتگردی کی جنگ کی امریکی چھتری کے سائے تلے ”ڈومور“کے مطالبے کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت بھی لرزاں رہی ہے جس کی تلافی کے لیے کئی عشرے درکارہیں ۔ ان تمام کارہائے نمایاں کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی امداد یہ کہہ کر روک لی کہ امریکا پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف کوششوں سے مطمئن نہیں اور اب پھر” ڈومور“ کی صدا بلند کی۔یہی وجہ ہے کہ مشہورامریکی جریدے ”واشنگٹن پوسٹ“نے امریکی پالیسی پرتنقیدکرتے ہوئے تحریرکیاہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ابتدا میں بھی امریکا نے صرف اپنے مفادات کی بات کی تھی اور آج بھی امریکا یا اس کے پالیسی ساز پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کسی پرانے یا ممکنہ مسئلے کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ دوسری طرف وہ بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے کی دعوت دے رہے ہیں ، جو پاکستان کے علاوہ دیگرکسی بھی پڑوسی ملک کو قبول نہیں ۔
پاکستان ایک اہم جغرافیائی محل وقوع رکھتا ہے، اس کی حیثیت کو تسلیم اور مسائل کو سمجھتے ہوئے سیاسی حل کے ذریعے ہی افغانستان میں دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے”۔ امریکی دبا ؤسے نکلنے اور اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان چین اور روس میں ایشیا میں پائیدار امن کے لیے تکونی اتحاد وجودمیں آگیاہے جس کے نتیجے میں اس خطے کی معیشت میں انقلابی تبدیلیوں کے خواب کوجلد ہی ”پاک چین اقتصادی راہداری“کی تکمیل کی شکل میں تعبیرملنے والی ہے اوردوسری طرف پہلی مرتبہ پاک روس مشترکہ فوجی مشقوں نے مخالفین کواس خطے میں ایک واضح تبدیلی کا پیغام بھی دیاہے اورایک مرتبہ پھرخطے میں دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے عملی مشترکہ عسکری کوششوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ٹرمپ نے افغان پالیسی کے اعلان میں خطے میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے بھارت کے مخصوص کردارکاذکرکرکے نہ صرف کام نکلنے کے بعداپنی ناکامیوں اورہزیمت کاملبہ ”دوست کی قربانی“ کی روایات کوبرقرار رکھا ہے بلکہ پہلی مرتبہ خطے میں اشتعال پیداکرنے کی ناکام کوشش بھی کی ہے۔فوری طورپرنہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی دوایٹمی قوتوں روس اورچین نے فوری طورپرٹرمپ کی اس پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کی نہ صرف مکمل حمایت بلکہ اس کی قربانیوں کے اعتراف کابھی مطالبہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ پہلی مرتبہ پچھلی7 دہائیوں میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسیوں میں ایک واضح تبدیلی کااعلان بھی کیاہے۔حال ہی میں امریکا کے ایک تھنک ٹینک میں پاکستانی وزیراعظم خاقان عباسی سے افغانستان کے مسئلے میں بھارتی کردارکے بارے میں پوچھے گئے سوال کے برملاجواب نے سب کوششدرکردیاکہ افغانستان میں بھارتی کردارخارج ازامکان اورقطعی ناقابل قبول ہے اوراب افغانستان کی جنگ پاکستان کی سرزمین پرنہیں لڑی جاسکتی ۔پاکستانی وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیرمیں جاری بھارتی مظالم کوروکنے اوراس کے حل کے لیے فوری طورپرایک نمائندہ مقررکرنے کامطالبہ بھی کیا۔ اب آنے والا وقت میں بہت جلد یہ واضح ہوجائے گا کہ ٹرمپ کی حالیہ بھارت نواز افغان پالیسی کے بعد وہ نہ صرف پاکستان جیسے مخلص دوست سے محروم ہوجائے گابلکہ پاکستان پر امریکی دبا ؤ ایشیا کو ایک نئے کامیاب اتحاد کی شکل میں خطے کوامریکی اثرورسوخ سے پاک کردے گا۔امریکاکواس اس حقیقت کوتسلیم کرناپڑے گاکہ اپنی کلائیوں پربہترین اوربیش قیمت گھڑیاں زیبِ تن کرنے کے باوجودوقت ان کی مٹھی میں نہیں رہا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں