نجات کے تین اصول
شیئر کریں
ندیم الرشید
حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں‘ ایک مرتبہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملاقات کی‘ میں نے آپ علیہ السلام سے عرض کیا: نجات کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا‘ اپنی زبان پر قابو رکھو! تمہارے گھر میں تمہارے لیے گنجائش ہونی چاہئے اور اپنے گناہوں پر اللہ کے حضور رویا کرو (جامع ترمذی)
قابل صد احترام برادرانِ اسلام
ترمذی شریف کی اس روایت میں آقاعلیہ السلام نے کامیابی اور نجات کے تین اصول بیان فرمائے ہیں۔
(1)اپنی زبان پر قابو رکھنا (2)زیادہ وقت اپنے گھر میں گزارنا(3) اپنے گناہوں پر اللہ کے حضور کثرت سے رونا۔
زبان پر قابو رکھنے سے متعلق حضور علیہ السلام نے بہت تاکید فرمائی ہے‘ چنانچہ ایک مقام پر آپ نے ارشاد فرمایا! تم مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دوں گا۔ ان میں سے پہلی چیز زبان پر کنٹرول ہے جس کے بارے میں آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا‘ یعنی اس بات کی تشریح میں یہ ہے کہ تم اپنی زبان سے کسی کی غیبت نہیں کروگے‘ کسی کی عیب جوئی نہیں کروگے‘ کسی کی چغل خوری نہیں کروگے‘ کسی کو برا بھلا نہیں کہوگے اور کسی کو تکلیف نہیں پہنچاﺅگے۔ ان چیزوں کی ضمانت تم مجھے دے دو‘ میں تمہیں جنت کی ضمانت دے دوں گا۔
قارئین محترم!
کسی شخص کے اخلاق‘ کردار کا اندازہ اس کی زبان اور اس کے اندازِ گفتگو سے بھی ہوسکتا ہے‘ شریف آدمی کا ہر لفظ سکونِ جان ہوتا ہے جبکہ بدکردار کی ہر بات دل ودماغ کو پریشان کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنی زبان کی حفاظت کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔
آج میڈیا کا دور ہے‘ جس چینل پر بھی جائیں گے گفتگو ہورہی ہوتی ہے ‘ٹاک شو چل رہے ہوتے ہیں‘ بہت سارے پروگرام ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں مختلف لوگ ایک دوسرے پرالزام تراشی کرتے ہیں‘ جھوٹ بولتے ہیں‘ دوسروں کو نیچا دکھانے کیلئے ایک دوسرے کی پگڑی اچھالتے ہیں ‘خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے کیلئے پورا زور صرف کرتے ہیں۔ ہمارے ٹی وی چینلز میں یہ روایتCNN کے HOT TALKپروگراموں کے بعد آئی ہے۔ ان پروگراموں کا براہِ راست اثر عوام الناس پر ہوا ہے۔ لوگ جیسے چینلز پر سیاست دانوں کو گرجتا برستا اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہوئے دیکھتے ہیں ‘وہی طرزِ گفتگو ان کی روزمرہ زندگی میں شامل ہوتاجارہاہے‘ جگتیں مارنا‘ دل دُکھانا‘ بات بات پر اعتراض کرنا‘ دوسروں کو نیچا دِکھانا۔ خاندانی مجلسوں میں بزرگوں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانا‘ اپنے قریبی رشتہ داروں کے لباس پر تنقید کرنا‘ انہیں دوسروں کے سامنے بے وقوف بنانا یا پاگل اورعقل سے پیدل ثابت کرنا ہمارا وطیرہ بن گیا ہے ۔جو آدمی جس قدر تیز بولتا ہے اور دوسروں کو رگڑا لگانا‘ ان کی بے عزتی کرنا جانتا ہے ‘وہ ہمارے ہاں اتنا ہی معزز ،پڑھا لکھا اور سمجھدارخیال کیاجاتاہے۔
حالانکہ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ نیک بات کرے یا چپ رہے لیکن ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے؟ برداشت بالکل ختم ہورہی ہے۔
ترکی بہ ترکی جواب دینا اور بات بات پہ رسوا کرنا ہمارے مزاج کا حصہ ہے‘ بندہ ضائع ہوجائے لیکن جملہ ضائع نہیں ہونا چاہیے ۔یہ ہماری سوچ ہے‘ گفتگو کے حوالے سے تربیت کا کوئی نظام نہیں ہے۔
حالانکہ آپ علیہ السلام نے نجات کے تین اصول بیان فرمائے ہیں۔ ان میں پہلا اصول ہی یہی ہے کہ زبان پر قابو رکھو!
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا‘ اے اللہ کے رسول! مجھے نہایت مختصر اور جامع نصیحت فرمادیجیے! آپ نے فرمایا‘ جب تم اپنی نماز پڑھنے کیلئے کھڑے ہو تو اس شخص کی طرح نماز پڑھو جو دنیا کو چھوڑ کر جانے والا ہے اور اپنی زبان سے ایسی بات نہ نکالو کہ اگر قیامت میں اس کا حساب ہو تو تمہارے پاس کہنے کیلئے کچھ نہ ہو اور لوگوں کے پاس جو کچھ مال واسباب ہے‘ اس سے تم بالکل بے نیاز ہوجاﺅ،، (……..)
اس سے معلوم ہوا کہ جو کچھ ہمارے منہ سے ادا ہوتا ہے وہ ایک ذمہ داری ہے، ہمارا بولنا کوئی لینگویج گیم یا لفظوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ ایک جواب دہی کے ساتھ وابستہ ہے۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ تمہارے گھر میں تمہارے لیے گنجائش ہونی چاہئے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ بلاضرورت گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہئے اگر آدمی کسی ضرورت کے لیے نکلا بھی ہے تو اپنی ضرورت پوری کرکے فوراً واپس آجائے‘ اپنا وقت اپنے اہل خانہ اور بچوں کے ساتھ صرف کرکے اولاد کی تربیت کرے یا گھر کے کسی کام کاج کو دیکھ لے۔ اگر کام نہ ہو تو ذکر واذکار اور عبادت میں اپنا وقت لگانا چاہئے۔ کیونکہ مشاہدہ یہی ہے کہ بلاضرورت گھر سے باہر نہ نکلنے کی وجہ سے انسان بہت سی برائیوں اور فتنوں سے بچ جاتا ہے۔ بالخصوص بچے اور نوجوان نسل جب بلا ضرورت گھر سے باہر رہنے لگتے ہیں تو پھر خاندان کے لیے پریشانیاں بڑھنے لگتی ہیں۔ بچے غلط صحبت کا شکار ہوجاتے ہیں‘ نوجوان منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں یا جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔
لہٰذا آپ علیہ السلام کے فرمان کے مطابق مسائل اور پریشانیوں سے نجات کا دوسرا اصول یہ ہے کہ انسان بغیر کسی ضرورت کے گھر سے باہر نہ جائے اور اگر کسی ضرورت سے جانا بھی پڑے تو کام پورا کرکے فوراً گھر واپس آئے۔
نجات اور کامیابی کا تیسرا اصول یہ ہے کہ اپنے گناہوں پر کثرت سے رویا کرو۔ آقا علیہ السلام جب صحابہؓ کو یہ تلقین فرمارہے ہیں تو ہمارے لیے اس میں کس قدر تاکید ہوگی۔ جب صحابہ کرام کو اللہ کے دربار میں رونے کی ضرورت ہے تو ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ بارگاہ ِالٰہی میں ہمیں کس قدر توبہ‘ استغفار اور معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔
نجانے کتنے گناہ ہم شب وروز میں کر ڈالتے ہیں جن کے ہونے کا احساس تک ہمیں نہیں ہوتا۔ آخر ان گناہوں کو صاف کروانے کی ضرورت ہے یا نہیں ہے‘ آخرت میں گناہوں کے بوجھ سے نجات کیسے ہوگی؟ لہٰذا اگر کوئی شخص دنیا اور آخرت میں نجات حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ ان نصیحتوںپرعمل کو اپنامعمو ل بنالے یعنی اپنی زبان کو قابو میں رکھے۔ زیادہ وقت گھر میں گزارے اور اپنے گناہوں پر اللہ کے حضور رویا کرے۔
حق تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔