میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ماہِ رمضان اور خروج فی سبیل اللہ!

ماہِ رمضان اور خروج فی سبیل اللہ!

جرات ڈیسک
پیر, ۱۰ اپریل ۲۰۲۳

شیئر کریں

مفتی محمد وقاص رفیع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہِ رمضان المبارک کے مقدس اور بابرکت لمحات میں انسان کوئی زیادہ نیک اعمال اور اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ بھی کرسکے بلکہ سارا دن سوتا رہے یا فارغ رہ کر خاموشی سے اپنا وقت پورا کرتا رہے اور کوئی مانع صوم کام (مثلاً غیبت، جھوٹ اور بدنظری وغیرہ)نہ کرے تو بھی اُسے روزہ رکھنے کا ثواب ضرور ملتا ہے۔ اور اگر وہ روزہ رکھ روزہ کے منافی کوئی کام نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نیک اعمال میں لگا رہتا ہے تو پھر تو ایسے شخص کو روزہ رکھنے کا کامل ثواب ملتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کے راستے میں نکل پڑے اور اُس میں مشقتیں اور مصیبتیں جھیلے اور روزہ کے منافی کوئی کام نہ کرے تو اُس کے کیا ہی کہنے، اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے بہت خوش ہوتے ہیں اور اُس کو بہت زیادہ اجر و ثواب عطاء فرماتے ہیں۔
آج کل کے دور میں تو روزہ رکھ کر چند گھڑی کے لئے دعوت و تبلیغ اور جہاد و قتال کے لئے اللہ تعالیٰ کے راستے میں نکلنا تو درکنار نماز پڑھنے کے لئے محلے کی مسجد کی طرف چلنا بھی ہمارے لئے دوبھر ہوجاتا ہے کہ ہمارے اندر وہ طاقتیں اور ہمتیں آج باقی نہیں رہیں جو کسی زمانے میں ہمارے اسلاف اور بزرگانِ دین کے اندر موجود تھیں، وہ لوگ قوت لایموت کھاکر روزہ رکھتے، عرب کی جھلسادینے والی گرمیں میں اللہ کے راستے میں نکلتے، بیابان جنگلوں اور صحراؤں کا کوسوں سفر کاٹتے، اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر اللہ کے دُشمنوں کے مقابلہ میں میدانِ کارزار سجاتے، اپنا ایمانی لہو گرماتے اور پھر یا خود موت کا جام پی کر شہادت کو سینے سے لگاتے یا پھر دُشمنانِ اسلام کو موت کے گھاٹ اتارتے اور فتح مبین وکام یابی سے ہم کنار ہوکر اپنے گھروں کو واپس لوٹتے۔
چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں ”جنگ یمامہ“ حضرت عبد اللہ بن محرمہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، وہ زخموں سے نڈھال ہوکر زمین پر پڑے ہوئے تھے، میں اُن کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا، اُنہوں نے کہا اے عبد اللہ بن عمر! کیا روزہ کھولنے کا وقت ہوگیا؟ میں نے کہا جی ہاں! اُنہوں نے کہا کہ لکڑی کی اِس ”ڈھال“ میں پانی لے آؤ تاکہ میں اِس سے روزہ کھول لوں!۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں (پانی لینے) حوض پر گیا، حوض پانی سے بھرا ہوا تھا، میرے پاس چمڑے کی ایک ڈھال تھی، میں نے اُسے نکالا اور اُس کے ذریعے حوض میں سے پانی لے کر (حضرت محرمہ رضی اللہ عنہ) کی لکڑی والی ڈھال میں ڈالا، پھر وہ پانی لے کر میں حضرت عبد اللہ بن محرمہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، آکر دیکھا تو (اِسی روزہ کی حالت میں) اُن کا انتقال ہوچکا تھا۔(الاستیعاب لابن عبد البر)
حضرت مدرک بن عوف احمسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں حضرت نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کا قاصد اُن کے پاس آیا، اُس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے بارے میں پوچھا، تو اُس نے شہید ہونے والوے مسلمانوں کا تذکرہ کیا اور یوں کہا کہ فلاں اور فلاں شہید ہوگئے اور بہت سے ایسے لوگ بھی شہید ہوگئے جن کو ہم نہیں جانتے ہیں۔ اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایالیکن اللہ تو اُن کو جانتا ہے!۔ لوگوں نے کہا کہ ایک آدمی یعنی حضرت عوف بن ابی حیہ اسلمی ابو شبیل رضی اللہ عنہ نے نے تو اپنے آپ کو خرید ہی لیا۔ حضرت مدرک بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہااے امیر المؤمنین! لوگ میرے اِس ماموں کے بارے میں یہ گمان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ لوگ غلط کہتے ہیں، اِس آدمی نے تو دُنیا دے کر آخرت کے اعلیٰ درجات کو خریدا ہے۔ حضرت عوف بن ابی حیہ اسلمی رضی اللہ عنہ اُس دن روزہ سے تھے اور اسی حال میں زخمی ہوئے، ابھی کچھ جان باقی تھی کہ اُنہیں میدانِ جنگ سے اُٹھا کر لایا گیا، پانی پینے سے اُنہوں نے انکار کردیااور یوں ہی (روزہ کی حالت میں) جان دے دی۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو عمرو انصاری رضی اللہ عنہ ”جنگ بدر“ میں اور ”بیعت عقبہ ثانیہ“ میں اور ”جنگ احد“ میں شریک ہوئے تھے، میں نے اُن کو (ایک میدانِ جنگ میں) دیکھاکہ اُنہوں نے روزہ رکھا ہوا ہیاور وہ پیاس سے بے چین ہورہے ہیں اور اپنے غلام سے کہہ رہے ہیں تیرا بھلا ہو مجھے ڈھال دے دے، غلام نے اُن کو ڈھال دے دی، پھر اُنہوں نے تیر پھینکا (جسے کم زوری کی وجہ سے) زور سے نہ پھینک سکے اور یوں تین تیر چلائے، پھر فرمایا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا وہ نشانہ تک پہنچے یا نہ پہنچے، یہ تیر اُس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگا، چنانچہ وہ سورج ڈوبنے سے پہلے ہی شہید ہوگئے۔ (معجم طبرانی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفر میں تشریف لے گئے اور حضرت ابو رُہم کلثوم بن حصین بن بن عتبہ بن خلف غفاری رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا خلفیہ بناکر گئے اور دس رمضان المبارک کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سفر شروع فرمایا، آُ ؐ نے بھی روزہ رکھا ہوا تھااور آُؐ کے ساتھ تمام لوگوں نے بھی روزہ رکھا ہوا تھا، جب آپؐ ”عسفان“ اور مقام ”امج“ کے درمیان ”کدید“ چشمہ پر پہنچے تو آپؐ نے روزہ افطار فرمادیا، پھر وہاں سے چل کر آپؐ ”مر الظہران“ جاکر ٹھہرے، آپؐ کے ساتھ دس ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔(صحیح بخاری، سیرت ابن اسحاق)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ”فتح مکہ“ کے سال رمضان شریف میں تشریف لے گئے اور آپؐ نے روزہ رکھا ہوا تھااور راستہ میں ٹھیک دوپہر کے وقت مقام ”قدید“ پر آپ کا گزر ہوا، لوگوں کو پیاس لگ گئی اور لوگ (پانی کی تلاش میں) گردنیں لمبی کرنے لگے اور وہ پانی پینے کے لئے بے تاب ہوگئے، اِس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا، یہاں تک کہ سب لوگوں نے وہ پیالہ دیکھ لیا، پھر آُؐ نے پانی پیا اور باقی لوگوں نے بھی پانی پیا۔(مصنف عبد الرزاق)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ائک مرتبہ ہم لوگ رمضان المبارک کے مہینے میں سخت گرمی میں حضور صلی اللہ علیہ کے ساتھ (اللہ تعالیٰ کے راستے میں) نکلے، اُس دن سخت گرمی تھی اور سخت گرمی کی وجہ سے بعض لوگ اپنے سر پر اپنا ہاتھ رکھے ہوئے تھے اور اُس دن صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رمضان المبارک کے مہینے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ”غزوہ“ میں جایا کرتے تھے، تو ہمارے کچھ ساتھی روزہ رکھ لیتے اور کچھ ساتھی نہ رکھتے، تو نہ روزہ رکھنے والے روزہ نہ رکھنے والوں کو ناراض ہوتے اور نہ روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے والوں کو ناراض ہوتے، سب یہ سمجھتے تھے کہ جو اپنے میں قوت و ہمت سمجھتا ہے اور اُس نے روزہ رکھ لیا، اُس کے لئے ایسا کرنا ہی ٹھیک ہے اور جو اپنے میں کم زوری محسوس کرتا ہے اور اُس نے روزہ نہیں رکھا تو اُس نے بھی ٹھیک کیا۔ (صحیح مسلم)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں