میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۰ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

مفتی غلام مصطفی رفیق
نمازی کے آگے سے گزرنانمازکوباطل نہیں کرتا
سوال:کیانمازی کے سامنے سے گزرنے سے نمازی کی نمازٹوٹ جاتی ہے؟ ہمارے ہاں یہ بات مشہورہے کہ نمازی کے آگے سے کوئی شخص گزراتونمازٹوٹ جائے گی اور نمازپڑھنے والااپنی نمازتوڑکردوبارہ شروع سے نمازپڑھتاہے۔
جواب:نمازی کے آگے سے گزرنے سے نمازی کی نمازفاسدنہیں ہوتی، نماز بدستور درست ہے،نمازختم کرکے دوبارہ شروع سے نمازپڑھنے کی بھی حاجت نہیں،نمازجاری رکھنی چاہیے۔البتہ یہ یادرہے کہ نمازکے سامنے سے بغیرکسی عذرکے جان بوجھ کرگزرناسخت گناہ ہے،اورحدیث شریف میں اس پر وعیدبھی واردہے۔چنانچہ مشکوة شریف کی روایت میں ہے:”حضرت ابوجہیم رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگریہ جان لے کہ اس کی کیاسزاہے،تووہ نمازی کے آگے سے گزرنے کے بجائے چالیس تک کھڑے رہنے کو بہترخیال کرے“۔اس حدیث کے ذیل میں علامہ نواب قطب الدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”حضرت امام طحاوی رحمہ اللہ نے ”مشکل الآثار“میں فرمایاہے کہ یہاں چالیس سال مرادہے نہ کہ چالیس مہینے یاچالیس دن ، اورانہوں نے یہ بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ثابت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ شخص جواپنے بھائی کے آگے سے اس حال میں گزرتاہے کہ وہ اپنے رب سے مناجات کرتاہے(یعنی نمازپڑھتاہے) اوروہ(اس کاگناہ)جان لے تو اس کے لئے اپنی جگہ پر ایک سوبرس تک کھڑے رہناقدم اٹھاکررکھنے سے بہترہوگا۔بہرحال !ان احادیث سے معلوم ہواکہ نمازی کے آگے سے گزرنابہت بڑاگناہ ہے،جس کی اہمیت کااس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اگرکسی شخص کویہ معلوم ہوجائے کہ نمازی کے آگے سے گزرناکتنابڑاگناہ ہے اوراس کی سزاکتنی سخت ہے،تووہ چالیس برس یاحضرت ابوہریرہؓ کی روایت کے مطابق ایک سوبرس تک اپنی جگہ پر مستقلاً کھڑے رہنازیادہ بہترسمجھے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرے“۔ (مظاہر حق، 1/518، ط: دارالاشاعت کراچی)
عورت کاگھرپرامام کی اقتداءکرنا
سوال:مسجدچونکہ گھرکے قریب ہے توامام کی آوازجمعہ کے دن گھرپر آرہی ہوتی ہے،کیاعورت گھرپرامام کی آوازسن کراس کی اقتداءمیں نمازجمعہ پڑھ سکتی ہے؟
جواب:امام کی اقتداءکے لئے صرف امام کی آوازکاپہنچنایاسنناہی کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ صفوں کااتصال ہو اور وہاں تک صفیں پہنچتی بھی ہوں، اگردرمیان میں سڑک ہویا راستہ وغیرہ ہوتواس صورت میں امام کی اقتداءدرست نہیں،اس لئے گھرپر عورت امام کی آوازسن کر اقتداءنہیں کرسکتی۔نیزعورتوں کے ذمہ جمعہ کی نمازنہیں ہے بلکہ ظہرکی نمازہے ،عورتیں اپنے گھرمیں جمعہ کے دن ظہرکی نمازاداکریں گی۔ (البحرالرائق، 2/264۔ ط: رشیدیہ-فتاویٰ شامی ،کتاب الصلوة ،باب صلوة ا لجمعہ،2/153،ط:ایچ ایم سعید)
طلاق کابہترطریقہ
سوال:طلاق کے بارے میں دریافت کرناہے،اگرکسی شخص کااپنی بیوی کے ساتھ رہنامشکل ہو،اوربیوی بھی کافی عرصہ سے میکے جاکربیٹھی ہوئی ہے،اب اسے فارغ کرنے کاارادہ کرلیاہے،توطلاق دینے کابہترطریقہ کیاہے؟تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی جائیں ؟یاکوئی اورطریقہ ہے؟
جواب:اگرنباہ اورصلح کی کوئی صورت نہ ہواورطلاق کے سواکوئی چارہ ہی نہ رہے تو طلاق دینے کابہترطریقہ یہ ہے کہ عورت کوپاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دی جائے،ایک طلاق کے بعد عدت کے اندراگرچاہیں تورجوع کرلیں اور رجوع نہ کرناچاہیں تو عدت کے گزرنے کے بعد عورت آزادہوگی،وہ کسی اورسے نکاح کرنا چاہے تو بھی درست ہے،اس کو شریعت میں طلاق احسن کہتے ہیں۔ایک طلاق رجعی کے بعد عورت کی عدت گزرجائے پھرصلح کی کوئی صورت نکل آئے تو دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے۔لیکن اگربیک وقت تین طلاقیں دے دی جائیں اگرچہ تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی مگراس طرح کرناشرعاًناپسندیدہ ہے،اورتین طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”بلاوجہ شرعی طلاق دیناسخت گناہ ہے،اللہ تعالیٰ کوناراض کرنااور شیطان کوخوش کرناہے،البتہ اگروجہ سے شوہراور بیوی میں ایسی رنجش ہوگئی ہوکہ ایک دوسرے کے حقوق پامال ہورہے ہوں،اورطلاق کے بغیرچارہ ہی نہ ہوتوطلاق دینے کاسب سے بہترطریقہ یہ ہے کہ شوہرایسے طہر میں جس میں صحبت نہ کی ہو صرف ایک طلاق دے،غصہ اور جوش میں آکرتین طلاق دینے کاجورواج چل پڑاہے،بلکہ بہت سے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ تین طلاق کے بغیرطلاق ہی نہیں ہوتی یہ بالکل غلط ہے،ایک طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے، اورشوہرعدت میں رجوع نہ کرے تو عدت پوری ہونے کے بعد عورت بائنہ(یعنی نکاح سے جدا)ہوجاتی ہے،اور جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے،جوش اورغصہ میں آکرتین طلاق دے دیتے ہیں ،جب جوش اور غصہ ختم ہوتاہے توپچھتانے اور پریشانی وپشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اگرایک طلاق دی ہوتی اور اس کے بعد شوہرکاارادہ بیوی کواپنے پاس رکھنے کاہوتوبہت آسان ہے صرف قولاً یاعملاً رجوع کرلیناکافی ہے،عورت اس کے نکاح میں رہے گی،رجوع پرگواہ بنالینا بہتر ہے، اور اگرعدت پوری ہوگئی اوراس کے بعد دونوں کاارادہ ساتھ رہنے کاہوجائے تودونوں کی رضامندی سے تجدیدنکاح (دوبارہ نکاح کرنا) کافی ہوگا،البتہ اس کے بعد شوہردوطلاق کا مالک ہوگا۔(فتاویٰ شامی، 3/230، ط: ایچ ایم سعید-فتاویٰ رحیمیہ ،جلد ہشتم، ص: 290، ط:دارالاشاعت کراچی)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں