میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
17 رمضان: غزوہ بدر، اسلام اور اہل اسلام کی فتح کا دن

17 رمضان: غزوہ بدر، اسلام اور اہل اسلام کی فتح کا دن

جرات ڈیسک
هفته, ۸ اپریل ۲۰۲۳

شیئر کریں

مفتی محمد وقاص رفیع

”بدر“ اصل میں ایک کنویں کا نام ہے جس کی مناسبت سے اس علاقہ کو ’بھی’بدرٗ کہا جاتا ہے جو اس کے قریب میں واقع ہے چوں کہ یہ لڑائی بھی اسی علاقہ کے قریب لڑی گئی تھی اس لئے اس کو بھی جنگ بدر یا غزوہئ بدر کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ شام سے مدینہ کی طرف جاتے ہوئے مدینہ سے پہلے تقریباً 80 میل (128.72کلو میٹر) کے فاصلہ پر واقع ہے۔
قریش مکہ نے ہجرت کے ساتھ ہی اسلام اور مسلمانوں کو کچل ڈالنے کے لئے پہلے سے زیادہ طرح طرح کے منصوبے کر رہے تھے اور مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کر رہے تھے،، ان کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں مدینہ کی جانب گشتیں کرتی رہتیں، یہاں تک کہ کرز فہری مدینہ کی چراہ گاہوں تک آکر غارت گری کرتاتھا۔مسلمانوں نے ان کے خلاف ایک تدبیر یہ نکالی کہ قریش کے قافلے جو مدینہ کے پاس سے گزر کر شام جاتے تھے ان کو تنگ کیا جائے تاکہ ان کی تجارت کو نقصان پہنچے جو ان کی کمر کو مضبوط کرنے والی اور ان کے غرور کو تقویت دینے والی ہے۔
ہوا یو ں کہ ہجرت کے دوسرے سال یہ معلوم ہوا کہ قریش کا ایک بڑا قافلہ سامان لے کر شام سے واپس آرہا ہے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو لے کر اس کے مقابلہ کے لئے نکلے اور ”روحاء“ مقام پر جاکر پڑاؤ ڈالا، مگر قافلہ کے سردار کو اس کی خبر ہوگئی، اس لئے اس نے سمندر کے کنارے کنارے دوسرا راستہ اختیار کرلیا اور ایک سوار امکہ بھیج دیا کہ قافلہ مسلمانوں کی وجہ سے خطرہ میں،کفارِ مکہ پہلے سے تیار تھے اس لئے وہ روانہ ہوگئے۔
حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ان حالات کا علم ہوا تو آپ نے صحابہ کرام کو جمع کیا اور ان سے مشورہ کیا، اوّل مہاجرین سے مشورہ کیا، انہوں نے بڑے جوش سے آمادگی کا اظہار کیا، اس کے بعد دوسری اور تیسری مرتبہ مشورہ کیا، جس کا جواب بھی اسی طرح جوش اور قوت سے دیا گیا، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا کہ انصار بھی جواب دیں، جب انصار سمجھ گئے تو فوراً قبیلہئ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کی اللہ کی قسم! اگر حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں! حضرت مقداد بولے اے اللہ کے رسول! ہم آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے سے لڑیں گے، ہم وہ نہیں کہ کہہ دیں کہ آپ اور آپ کا رب جاکر لڑائی کریں ہم یہاں ہی بیٹھے رہیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس آمادگی اور جوش سے بہت خوش ہوئے اور روانگی کا حکم فرمایا۔
چنانچہ 12رمضان المبارک بروزِ پنج شنبہ (جمعرات کے روز) سنہ 2 ہجری بمطابق 8 مارچ سنہ 624 ء کو آپ تقریباً 313 سو جاں نثاروں (جن میں 86 مہاجر، قبیلہئ اوس کے 61 اور قبیلہئ خزرج کے 166 انصار) کے ساتھ شہر سے نکلے اور بدر کی جانب بڑھنا شروع ہوئے یہاں تک کہ 17 رمضان کی شب بوقت عشاء بدر کے قریب پہنچ گئے، خبر رساں لوگوں نے بتایا کہ قریش وادی کے دوسرے سرے تک آگئے ہیں اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہیں رک گئے اور فوجیں اتر پڑیں۔
قریش کو بدر کے قریب پہنچ کر جب معلوم ہوا کہ ابو سفیان کا قافلہ خطرہ کی زد سے نکل گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ اب لڑنا ضروری نہیں، لیکن ابوجہل نہ مانا اور اس نے لڑنے پر اصرار کیا، قریش کی تعداد تقریباً 950 تھی اور ان کے پاس 700 اونٹ، 100 گھوڑے سوار اور تمام اسلحہ اور زرہ اور خودوں کے باعث گویا ہر ایک فوجی لوہے میں ڈوبا ہوا تھا اور تمام فوج لڑائی کے لئے آگے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اُدھر دوسری طرف بدر پہنچ کر مسلمانوں نے دیکھا کہ قریش کا ایک بڑا لشکر بڑے ساز و سامان کے ساتھ پہلے ہی پہنچ چکا ہے اور میدان کے خاص اور عمدہ مواقع پر قبضہ جما رکھا ہے جہاں پانی وغیرہ کی اکثر سہولیات دست یاب ہیں، جب کہ مسلمانوں کو ٹھہرنے کے لئے میدان کا وہ حصہ ملا جو انتہائی ریتلا تھا اور اس میں پانی کا نام و نشان بھی نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے اس خاص موقع پر مسلمانوں کی مدد اس طرح سے کی کہ آسمان سے بارش برسادی، جس سے کافروں کے ٹھہرنے کی جگہ پر بہت زیادہ کیچڑ بن گیا، ان کا چلنا پھرنا دوبھر ہوگیا، ادھر دوسری طرف مسلمانوں کی ریتلی جگہ گیلی ہوکر بیٹھ گئی، مسلمانوں نے اپنے تمام برتن پانی سے بھر لئے اور ایک حوض بناکر بارش کا پانی اس میں جمع کرلیا، اس طرح اب میدان کا اچھا حصہ مسلمانوں کی طرف آگیا اور خراب حصہ کافروں کی طرف چلا گیا۔
اس کے بعد حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی صف آرائی شروع کی، دست مبارک میں ایک تیر تھا جس کے اشارے سے صفیں درست فرماتے تھے تاکہ کوئی شخص تل بھر آگے یا پیچھے نہ رہنے پائے، مسلمانوں کے پاس صرف 2 گھوڑے70 اونٹ اور چند تلواریں تھی اور مسلمانوں کی فوج بھی آگے کی طرف بڑھنا شروع ہوئی، جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑی تھیں، عجیب منظر یہ تھا کہ اتنی بڑی وسیع دُنیا میں توحید کی قسمت صرف چند جانوں پر منحصر تھی۔ صحیحین میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت خضوع کی حالت طاری تھی، دونوں ہاتھ پھیلا کر فرماتے تھے: ”اے اللہ! آپ نے جو مجھ سے وعدہ فرمایا ہے وہ آج پورا کردیجئے!۔“ محویت اور بت خودی کے عالم میں چادر کندھے پر سے گرپڑتی تھی اور آپ کو خبر تک نہ ہوتی تھی، کبھی سجدہ میں گرتے تھے اور فرماتے تھے کہ: اے اللہ! اگر یہ چند نفوس آج مٹ گئے تو پھر قیامت تک تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔“
یہ معرکہ ایثار اور جاں بازی کا سب سے بڑا حیرت انگیز منظر تھا، جب دونوں فوجیں سامنے آئیں تو لوگوں کو خود ان کے اپنے جگر کے ٹکڑے تلوار کے سامنے نظر آئے، لڑائی کا آغاز ہوا،عامر حضرمی (جس کو بھائی کے خون کا دعویٰ تھا) آگے بڑھا، مہجع حضرت عمرؓ کا غلام اس کے مقابلہ کے لئے نکلا اور مارا گیا، اس کے بعد عتبہ اپنے بھائی اور بیٹے کو لے کر میدان میں نکلا اور للکارا تو اس کے مقابلہ کے لئے حضرت عوف، حضرت معاذ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ نکلے، عتبہ نے کہا کہ یہ ہمارے جوڑ کے نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حمزہ، علی اور عبیدہ مقابلہ کے لئے آئیں، عتبہ نے کہا کہ یہ ہیں ہمارے مقابلہ کے!، اس کے بعد عتبہ حضرت حمزہ کے ہاتھوں اور ولید حضرت علی کے ہاتھوں مارے گئے، ابھی شیبہ نے حضرت عبیدہ کو زخمی کیا ہی تھا کہ حضرت علی نے بڑھ کر شیبہ کو قتل کردیا اور عبیدہ کو کندھے پر اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ سعید بن عاص کا بیٹا صف سے نکلا اور للکارا تو حضرت زبیر اس کے مقابلہ کے نکلے، حضرت زبیر نے تاک کر اس کی آنکھ میں برچھی جو ماری تو وہ وہیں ڈھیر ہوگیا، اب عام حملہ شروع ہوگیا، مشرکین اپنے بل بوتے پر لڑ رہے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر سجدہ میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کی قوت کا سہارا ڈھونڈ رہے تھے۔ابو جہل جو کفار کی جماعت کا سردار اور اسلام کا بڑا دشمن تھااسے انصار کے دو بھائیوں معوذ اور معاذ نے قتل کیا، قریش نے جب ابوجہل اور عتبہ کو قتل ہوتے دیکھا تو انہوں نے سپر ڈال دی اور مسلمانوں نے ان کو گرفتار کرنا شروع کردیا اور بڑے بڑے معزز لوگ گرفتار کرکے لائے، آنحضرت صلی اللہ علی وسلم نے حکم دیا کہ کوئی شخص ابوجہل کی خبر لے کر آئے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود نے اس کا کٹا ہوا سر لاکر آپ کے قدموں پر ڈال دیا۔
مسلمانوں کو اس جنگ کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کی تھوڑی سی جماعت جو ابھی تک کسی شمار میں نہیں لائی جاتی تھی اب ایک مستقل قوم بن گئی، اس کی دھاک تمام قریش پر چھاگئی اور عرب کی نظریں اس پر خاص وقعت کے ساتھ پڑنے لگیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے کلمہئ اسلام کو بلند کیا اور اہل اسلام کو فتح و کامرانی سے سرفراز فرمایا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں